جو کام آپ کے بس میں ہے وہ تو کیجئے

جو کام آپ کے بس میں ہے وہ تو کیجئے، انتظامی طور پر ملک کو راہ راست پر لے آئیے


وزیراعظم صاحب! عاجزانہ گزارش ہے کہ جو کام آپ کے بس میں ہے وہ تو کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دو نہیں ایک پاکستان۔ یعنی ایسا پاکستان جس میں ''غریب و امیر کےلیے ایک قانون ہو'' کی تعمیر کا خواب لے کر برسراقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت میں امن و امان کی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ اگر ہم گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے ہم ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں پر ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کا قانون نافذ ہے۔ جیسے پولیس کی حراست میں صلاح الدین کی ہلاکت، وکیل کا خاتون پولیس اہلکار پرتشدد، پولیس کے اے ایس آئی کی آئی جی آفس کے باہر معمر خاتون سے بدتمیزی، اور پھر ممبر پنجاب اسمبلی کی پولیس کو دھمکیاں ''تمھیں لٹا کر جوتے ماروں گا'' اور اب پولیس کے نجی ٹارچر سیلز کا انکشاف (حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں) وغیرہ۔

ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جیسے ریلوے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک کوئی حادثہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی کو پھاٹک لگوانے کا خیال ہی نہیں آتا۔ بالکل ایسے ہی جب تک کسی واقعے پر میڈیا واویلا نہیں کرتا اس وقت تک حکومت حرکت میں ہی نہیں آتی۔ ایسا کب تک ہوگا؟ کیا انصاف کےلیے، ایف آئی آر کےلیے ہر کسی کو میڈیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لینا ہوگا؟

اور ستم بالائے ستم کہ میڈیا کے شور مچانے پر بھی معطلی ہوتی ہے، کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے، اور بہت زیادہ شور ہوتو بندہ گرفتار ہوجاتا ہے، لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ بحالی ہوجاتی ہے۔ جیسے سانحہ ساہیوال والے واقعے میں ہوا۔ ایڈیشنل آئی جی رائے طاہر کو کچھ عرصے کےلیے عہدے سے ہٹایا گیا اور پھر دوبارہ انھیں اسی عہدے پر تعینات کردیا گیا۔

عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ لیکن آپ یہ کہہ کر خود کو اور عوام کو تسلی دے دیتے ہیں کہ یہ گزشتہ حکومتوں کا کارنامہ ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان، اس کے بارے میں تو آپ کو بھی عوام کی طرح میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ ویسے بھی اسٹیٹ بینک یہ آپ سے پوچھ کر تھوڑی کرتا ہے۔ اس لیے آپ اس معاملے میں بےبس ہیں۔ غریب، غریب تر ہورہا ہے، اشیائے ضروریہ عوام کی دسترس سے باہر نکل رہی ہیں۔ اشیا کی قیمتیں آئے روز بڑھتی رہتی ہیں۔ لوگ بیروزگار ہورہے ہیں۔ نئے گھر تو کیا ملتے، جن کے سروں پر چھت تھی، وہ سائبان سے محروم ہوگئے۔ لیکن یہ سب گزشتہ حکومتوں کا کارنامہ ہے۔ آپ تو ابھی تک ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

مان لیا آپ یہ سب کچھ ایک دم سے ٹھیک نہیں کرسکتے، اس کےلیے آپ کو وقت چاہیے۔ لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

لیکن سر آپ انتظامی اقدامات تو کرسکتے ہیں۔ آپ پولیس کو تو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ آپ نے یہ کام خیبرپختونخوا میں کیا بھی ہے، تو پھر پنجاب میں کیوں نہیں؟ کیا پنجاب کی پولیس اتنی زیادہ طاقتور ہے کہ آپ جیسا خطروں کا کھلاڑی بھی اس سے ڈرتا ہے۔ آپ لاقانونیت تو ختم کرسکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں دو قانون ہیں، غریب کےلیے الگ قانون اور امیر کےلیے الگ قانون۔ اب تحریک انصاف کی حکومت میں بھی انصاف سب کےلیے نہ ہو تو کب ہوگا؟ اس کےلیے تو کوئی اضافی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ماضی کے حکمران کرپٹ تھے (بقول آپ کے) لیکن کچھ کرتے تو تھے۔ کرپشن ہوتی تھی، لیکن کچھ بنتا بھی تو تھا۔ سر آپ نیک ہیں، ایماندار ہیں، صاف گو ہیں، آپ پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ آپ میں وہ سب خوبیاں ہیں جو کسی مثالی حکمران میں مطلوب ہوتی ہیں، لیکن رزلٹ صفر ہے۔

آپ کے آنے سے کرپشن بھی نہیں ختم ہوئی اور کوئی تعمیری سرگرمی بھی نہیں ہورہی۔ آپ کہا کرتے تھے ہر روز دس ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ سر غالب گمان ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے بھی یہ آپ کے بس میں نہیں تھا اور اب جب اقتدار کا ہما آپ کے سر پر براجمان ہے، اب بھی یہ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

سر میری آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ براہِ کرم جو کام آپ کے بس میں ہے وہ تو کریں۔ انتظامی طور پر ملک کو راہ راست پر لے آئیں۔ امیر و غر یب کےلیے دو نہیں ایک قانون کی عملداری یقینی بنادیں۔ پولیس کو سیاست سے پاک کردیں۔ پولیس اصلاحات کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردیں۔ انصاف سب کےلیے ہو۔ ملک کے اندر مافیاز جیسے وکیل مافیا، ڈاکٹرز مافیا، کچرا مافیا، پولیس مافیا وغیرہ کا خاتمہ کردیں۔ سر یہ تمام کام آپ جیسا وزیراعظم ہی کرسکتا ہے، کیونکہ آپ کا نہ تو کوئی بلاول، حمزہ، مریم ہے، جس نے مستقبل میں بھی سیاست کرنی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں