فیملی فرینڈلی دفاتر
اب عورت کی نوکری شوق کے بجائے ضرورت میں تبدیل ہوگئی۔
ایک عورت کے لیے ماں ہونا دیگر تمام رشتوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ابھی کچھ دہائیوں پہلے کے وہ مناظر بھی نظروں میں تازہ ہیں جب معاشی مسائل اس قدر بے قابو نہ ہوئے تھے اور ایک مرد کی کمائی سے پورا خاندان عزت سے گزارا کر لیتا تھا، سو مائیں اپنے دن کا زیادہ تر حصہ اولاد کی پرورش کے تمام معاملات نبیڑنے میں بتا دیا کرتی تھیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ وہ وقت گزر گیا۔
ان آنکھوں نے پھر وہ دہائی بھی دیکھی جب معاش کا حصول آسان نہ رہا ، مسابقت کی دوڑ، اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور پھر تیزی سے تبدیل ہونے والے طرزِزندگی نے ایک پہیے پر مزید انحصارکرنے سے انکار کر دیا۔ پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں خواتین مردوں کا ہاتھ بٹانے کوگھروں سے نکل پڑیں۔
اب عورت کی نوکری شوق کے بجائے ضرورت میں تبدیل ہوگئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ نوکری پیشہ عورتوں کی اکثریت دُہری ذمے داریوں کے بوجھ تلے بری طرح دب گئی۔ ایک حصولِ معاش کی اور دوسری اپنے گھر اور بچوں کی۔ یہ بوجھ ہمارے جیسے معاشرے میں کچھ اور بھی سِوا ہوجاتا ہے کہ مرد خود کوگھریلو امور سے بالکل بے گانہ ظاہرکرکے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو دوسری جانب گھرکے دیگر افراد کما کر لانے والی کی پہلی ذمے داری گھر اور بچوں کو ہی سمجھتے ہیں۔ یوں عورت پر ذمے داریوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
پہلی سماجی ناانصافی تو نوکری پیشہ عورت کے ساتھ گھرکی دہلیز کے اندر ہی ہوجاتی ہے اور دوسری نا انصافی کا شکار وہ ادارے میں بنتی ہے۔ ادارے کے ذمے دار عورت سے اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ وہ گھر کوگھر میں ہی چھوڑ کر آئے اور یہاں اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ لیکن ایک ایسی عورت جو گھر میں کئی بچے چھوڑکرکام پر آئی ہو، اور جانتی ہو کہ ان بچوں کا کوئی نگہبان نہ ہوگا وہ بھلا کس طرح اپنا گھر بھول کرکام میں جُت سکتی ہے۔
بڑے بچوں کی طرف سے تو ایک ماں پھرکچھ دیر کو توجہ ہٹا لے لیکن وہ عورتیں کیا کریں جو اپنے نومولود بچے چھوڑکر نوکری پر جاتی ہیں؟ میں کتنی ہی ایسی عورتوں کو بذاتِ خود جانتی ہوں جنہوں نے حمل کے آخری دن تک دفتر میں کام کیا اور چالیس دن کی چھٹی کے بعد اپنے ننھے منے بچے گھروں پر چھوڑ کر پھر کام پر موجود تھیں۔ بدقسمتی سے ہمارے اداروں میں خواتین کی تنخواہیں بھی انتہائی قلیل یا زیادہ سے زیادہ مناسب کی حد تک ہوتی ہیں، جس کے باعث یہ مائیں اپنے نومولود کے لیے کوئی نینی افورڈ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
ایک عام عورت تو اس مسئلے کو ہر سطح پر جھیلتی ہی ہے لیکن وہ خواتین جو ایوانوں کا حصہ بنتی ہیں اور اپنی صلاحیتیں اور وقت ملکی خدمت کے لیے وقف کرنے کا عہد باندھتی ہیں ان کو بھی کم و بیش انھی مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ عورتیں اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ان مسائل کو جھیل رہی ہیں۔ ابھی میری نظروں کے سامنے کینیا کی پارلیمنٹ کی ایک رکن زلیخا حسن کی تصویر ہے جسے پانچ ماہ کی بچی ساتھ لانے کے جرم میں پارلیمینٹ سے باہر نکال دیا گیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتیں۔ اس بار شدید ایمرجنسی کی صورت میں انھیں بچی کو ساتھ لانا پڑا، لیکن کیونکہ پارلیمنٹ میں کسی'' اجنبی'' کا داخلہ ممنوع ہے لہٰذا انھیں بچی کے ساتھ باہر نکال دیا گیا۔
ان کی ساتھی اراکین نے اس فیصلے پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کر دیا۔ واضح رہے کہ 2017 میں کینیا میں ایک بِل پاس ہوا تھا کہ پارلیمنٹ کی حدود میں ایک چینجنگ روم بنایا جائے گا جہاں مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو دودھ بھی پلا سکیں گی، لیکن اس پر تاحال عمل نہیں کیا گیا۔
یہ مسئلہ صرف کینیا کا ہی نہیں ہے بلکہ بے شمار ممالک کا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں ڈنمارک کی پارلیمنٹ کی ایک رکن کو پانچ ماہ کی بیٹی کو ساتھ لانے پر تنبیہہ کی گئی اور انھیں سیشن کے دوران بچی کو باہر بھیجنے کا حکم دیا گیا۔اس واقعے کے بعد ڈنمارک میں ایک بحث چھڑگئی کہ آخر ورکنگ مدرز اپنے بچوں کو کہاں چھوڑیں اور عورتوں کو بچوں کے معاملے میں اس قدر پابند کرنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
2016میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کی رکن پارلیمنٹ مہرین بھٹو نے اپنے ننھے بیٹے کے ساتھ پارلیمنٹ کا سیشن اٹینڈ کیا۔ اس دوران تمام کیمرے انھی پر مرکوز رہے۔ سیشن کے بعد انھوں نے بتایا کہ گھر میں بچے کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا اس لیے انھیں اسے ساتھ لانا پڑا۔ ساتھ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہر سرکاری اور نجی ادارے کے ساتھ ڈے کیئرسینٹرز بنائے جائیں تاکہ یہاں کام کرنے والی خواتین بے فکری سے پیشہ ورانہ امور انجام دے سکیں۔
اس کے برخلاف ایسے ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں دیر سے سہی پر عورت کی دونوں حیثیتوں کو بیک وقت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کا کیریئر اور بچے دونوں اس کے ساتھ کھڑے تسلیم کیے گئے۔ آسٹریلیا، آئس لینڈ اور ارجنٹینا کا شمار ایسے ہی ممالک میں کیا جاتا ہے۔
دو سال قبل آسٹریلیا کی سینیٹر لیریسا واٹرز نے نئی تاریخ رقم کی جب انھوں نے اپنی دو ماہ کی بیٹی کو پارلیمنٹ کے اندرکارروائی کے دوران ہی فیڈ کروایا۔ان کا یہ عمل دنیا بھرکی نوکری پیشہ خواتین کے لیے ایک بڑی مثال بن گیا ، ہر عورت سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ وہ بھی دو ذمے داریاں ساتھ ساتھ بہ خوبی نباہ سکتی ہے۔
اسپین کی ایک سیاست داں کیرولینا بیسکینا نے تین سال قبل جب اپنی ننھی بیٹی کو پارلیمنٹ میں فیڈ کروایا تو اس پرکافی شور مچا اور ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، لیکن کیرولینا اپنے فیصلے پر قائم رہیں اور انھوں نے کہا کہ ان کا یہ قدم ہر اس عورت کے حقوق کے لیے ہے جو نوکری کے ساتھ ساتھ ماں کی ذمے داریاں بھی نبھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے فی الوقت نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ دنیا میں سب سے زیادہ چائلڈ فرینڈلی پارلیمنٹ کہلائی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو میں بہت کھل کر یہ بات کہوں گی کہ نوکری پیشہ عورتوں کے ساتھ اس معاملے میں نہایت سفاکانہ رویہ برتا جاتا ہے۔کچھ مغرب کی اندھی تقلید اورکچھ بگڑتے معاشی نقشے نے عورتوں کو بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکال تو پھینکا ہے لیکن کسی ایمرجنسی یا انتہائی صورت میں بھی اس کے ساتھ بچوں کے معاملے میں اداروں کی طرف سے کوئی تعاون نہیں برتا جاتا۔ مزید یہ کہ ریاست کی سطح پر چائلڈکیئر سینٹرزکے قیام کی کوئی روایت سرے سے موجود ہی نہیں اور نجی سطح پر کھولے گئے ڈے کیئرز اس قدر مہنگے ہیں کہ ان کا افورڈ کرنا اکثریت کے لیے نا ممکن ہے۔
اس مسئلے کا سامنا اس وقت پاکستان کی تقریباً ہر نوکری پیشہ عورت کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں سیاست داں عورتیں اپنے عمل سے ایک نئی روایت ڈال رہی ہیں۔ اپنے موقف پر ڈٹ کر ملکی قوانین میں تبدیلی کروا رہی ہیں۔ موجودہ وقت اس بات کا شدید متقاضی ہے کہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے۔
یا تو سرکاری اور نجی دفاترکو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ دفتری عمارت کے اندر ڈے کیئر سینٹرز بھی تعمیر کریں تاکہ مائیں بے فکری سے اپنے فرائض انجام دیں اور بچوں کی بھی خبرگیری کرسکیں۔ دوسری صورت میں ریاست ایسی ماؤں کے تمام اخراجات کی ضامن بنے تاکہ وہ گھر میں رہ کر ایک ماں کی ذمے داری سے بہترین طور پر نمٹ سکیں۔ لیکن یہ آخری سطریں لکھتے وقت میں مجھے یقین ہے کہ ان دونوں میں سے کسی بھی بات پر کبھی عمل نہ ہوسکے گا۔