معین قریشی کا اڑن کھٹولا اور آرمی چیف کی چھڑی

ایسا لگتا تھا کہ سب ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے ہیں اور جلد از جلد اس نشست کی برخاستگی کے منتظر ہیں


سرور منیر راؤ September 22, 2019

18 جولائی 1993ء ، ایوان صدر اسلام آباد میں صدر مملکت کے دفتر میں لگے صوفوں پر مرحوم صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم نواز شریف، سابق آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکٹر ، سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف مرحوم جنرل شمیم عالم اور چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد براجمان تھے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی بھی تھے۔ سب کے چہروں پر ملک کو درپیش آئینی بحران کے اثرات کے نقش نمایاں تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ سب ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے ہیں اور جلد از جلد اس نشست کی برخاستگی کے منتظر ہیں۔ یہاں اگر انتظار تھا تو صرف ایک شخص کا جو ''اڑن کھٹولے'' کے ذریعے سنگاپور سے پاکستان آ رہا تھا اور وہ شخص مرحوم معین قریشی تھے جنھیں پاکستان کا نگران وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا۔

ان ایام میں، میں پاکستان ٹیلی ویژن کا چیف رپورٹر تھا اور اس تاریخی آئینی بحران کی فلم بندی اور نیوزر پورٹنگ میری ذمے داری تھی۔ اس روز کسی اخبار کے رپورٹر یا ایڈیٹر کو بھی ایوان صدر میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ پوری قوم کو ایک آئینی اور سیاسی بحران نے جکڑ رکھا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان دونوں ہی ''پوائنٹ آف نو ریٹرن'' پر تھے۔

آئین اور سپریم کورٹ نے اس صورتحال کو حل کرنے کا جو نکتہ تجویز کیا تھا وہ صدر اور وزیر اعظم دونوں کو اپنے اپنے منصب پر بیٹھے ہوئے منظور نہ تھا۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ بری کر چکی تھی۔ غلام اسحاق خان بطور صدر ''زخمی شیر'' کی طرح نواز شریف کو برداشت کرنے پرتیار نہ تھے۔ آئینی اعتبار سے غلام اسحاق خان با اختیار ترین صدر تھے لیکن نواز شریف صاحب کا انتخابی نشان بھی ''شیر'' تھا۔ سپریم کورٹ نے اس شیر کو تازہ خوراک بھی فراہم کر دی تھی۔ دونوں اپنی ''کچھار'' سے باہر ایک دوسرے کو بچھاڑنے کے عمل میں مصروف تھے اور امور مملکت رکے ہوئے تھے اور رموز مملکت بھی اہلیان سیاست کی سمجھ سے باہر تھے۔

ان حالات میں آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکٹر نے اس معاملے کا جو حل پیش کیا وہ ''کاکڑ فارمولے'' کے نام سے ہماری سیاسی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس فارمولے کے تحت نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو بیک وقت استعفیٰ دینا تھا۔ اور ان کی جگہ نگران صدر کے عہدے کے لیے چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور نگران وزیر اعظم کے لیے معین قریشی کو نامزد کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف ایوان صدر آنے سے پہلے قوم سے اپنے آخری خطاب میں اس فارمولے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو بین السطور ''قومی مجرم'' اور ''سازشی'' قرار دے چکے تھے۔

اس پس منظر میں ایوان صدر کا پورا ماحول مکدر اور ایک دوسرے کے لیے اجنبی اجنبی تھا۔ ہر کوئی آنکھوں آنکھوں میں سوال پوچھ رہا تھا کہ معین قریشی کب آ رہے ہیں؟ اسی اثنا میں ایوان صدر کے افسر مہمانداری بریگیڈئیر عجائب خان نے اطلاع دی کہ معین قریشی کا طیارہ لینڈ کر چکا ہے اور سرتاج عزیز صاحب نے ائیر پورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا ہے اور وہ انھی کے ساتھ کسی بھی وقت ایوان صدر پہنچ جائیںگے۔

اس تاریخی موقع کی فلمبندی کے لیے سینئرکیمرہ مین مرحوم حسن میرے ساتھ تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ایوان صدر کی لفٹ سے سرتاج عزیز اور معین قریشی باہر آئے، میں اس وقت لفٹ کے پاس کھڑا تھا۔ کیمرہ مین نے فلمبندی شروع کی۔ میں اور بریگیڈئیر عجائب بھی معین قریشی اور سرتاج عزیز کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنیوالے ''مدار المہام'' ایک دوسرے سے ''روٹھے روٹھے'' بیٹھے تھے۔ جنرل کاکڑ کے ہاتھ میں آرمی چیف کی مخصوص چھڑی تھی مجھے یوں لگا کہ جیسے ان لیڈروں کو اسی چھڑی نے ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کیا۔

معین قریشی کا استقبالیہ منظر بھی خوب تھا۔ آئینی، سیاسی اور عسکری اختیارات کے حامل افراد اور حکمران ''اڑن کھٹولے'' سے چھاتہ بردار کی طرح اتر کر ایوان صدر پہنچنے والے پاکستانی نژاد امریکی شہری کو اپنا وزیراعظم تسلیم کرنے کے لیے منتظر تھے۔ سبھی نے باجماعت کھڑے ہو کر معین قریشی کو خوش آمدید کہا۔ جہاں تک یاد ہے کہ ابتدائی گفتگو کے بعد ایک کاغذ ''دستاویز'' صدر مملکت کے سامنے رکھا گیا جس پر سب سے پہلے صدر غلام اسحاق خان نے دستخط کیے۔ اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے دستخط کیے۔ یہ دستاویز دونوں کے مستعفٰی ہونے کی مہر تصدیق تھی۔ کیمرہ مین اس منظر کی فلمبندی کرتا رہا۔ جیسے ہی یہ مرحلہ مکمل ہوا ہم باہر آ گئے ۔

نہ جانے کیسے کسی کو یہ احساس ہو گیا کہ اس منظر نامے کو ٹی وی کیمرے نے محفوظ کر لیا ہے۔ ہم جیسے ہی باہر نکلے بریگیڈئیر عجائب نے مجھے سے پوچھا کیا آپ لوگوں نے اس سارے منظر کی فلمبندی کی ہے۔ میں عرض کیا کہ جی ہاں یہ تاریخی لمحہ ملک کی سب سے بڑی خبر ہے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ یہ فلم (ٹیپ) مجھے دیدیں۔ اسے پی ٹی وی سے نشر نہیں کیا جائے گا۔

ہم نے کیمرے سے فلم نکال کر ان کے حوالے کر دی۔ (یاد رہے اس دور میں ڈیجیٹل کیمرہ نہ تھا یہ تمام منظر Rolex Camera کی ٹیپ پر محفوظ کیا گیا تھا) اس طرح ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم تصویری منظر نامہ عوام اور مستقبل کے محققین کی رسائی سے دور ہو گیا۔جیسے ہی یہ مختصر نشست ختم ہوئی، نواز شریف صاحب ایوان صدر سے رخصت ہو گئے۔

ان کی روانگی کے فوراً بعد حکم ہوا کہ معزول صدر غلام اسحاق خان قوم سے خطاب ''جواب آں غزل، خطاب نواز شریف'' ریکارڈ کرائینگے۔ ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ ریکارڈنگ کے فوراً بعد اسے پی ٹی وی سے نشر کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ غلام اسحاق خان نے مستعفٰی ہونے سے پہلے یہ خطاب ریکارڈ کرایا (درحقیقت یہ بعد میں ریکارڈ ہوا تھا۔یہ خطاب نواز شریف کی جانب سے غلام اسحاق خان پر لگائے جانے والے الزامات کا ''جواب اں غزل'' تھا...)

غلام اسحاق خان کے قوم سے اس آخری خطاب کی ٹیپ لے کر میں پی ٹی وی پہنچا اور اس وقت کے چیئرمین پی ٹی وی/ایم ڈی شاہد رفیع کے حوالے کی اور ایوان صدر کے احکامات بھی پہنچائے کہ اسے فوراً نشر کیا جائے ... پھر کچھ ہی دیر بعد پی ٹی وی سے غلام اسحاق خان کا قوم سے خطاب نشر کر دیا گیا۔ اس خطاب کے بعد قائم مقام صدر وسیم سجاد اور پھر نگران وزیر اعظم معین قریشی نے حلف اٹھایا اور سعید مہدی ہی جو نواز شریف کے پرنسپل سکریری تھے کو ہی ان کا پرنسپل سیکریٹری بنایا گیا ۔ معین قریشی تین ماہ 18 جولائی سے 19 اکتوبر 1993 تک پاکستان کے نگران وزیراعظم رہے۔

پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کا یہ منظر نامہ دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں یقینی اعتبار سے منفرد ہو گا۔ یہ منظرنامہ سیاسی اعتبار سے دلچسپ حقائق کا حامل تھا۔ اس میں ہمارے سیاستدانوں کے لیے کئی سبق ہیں۔ علم سیاسیات کے طالب علموں کے لیے بھی اقتدار کی منتقلی کا یہ باب کئی تحقیقی پہلو لیے ہوئے ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ واقعہ اس با ت کا مظہر ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں فوج کا کردار کس قدر اہم رہا، پاکستان میں جب بھی سیاستدان پوائنٹ آف نو رٹرن پر آ جائیں تو فوج کی مداخلت کے بغیر سیاسی نظام کو آگے لے جانا ممکن نہیں ہوا۔ کاکڑ فارمولے سے پہلے بھی جنرل ایوب خان کا مارشل لاء پھر جنرل یحییٰ خان کا صدر بننا، پھر جنرل ضیاء الحق کا مختار کل قرار پانا ،جنرل مشرف کا دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم کو معزول کر کے اقتدار سنبھالنا یہبھی ہمارے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کا مظہر تھا۔

کاکڑ فارمولے پر عمل در آمد کے بعد بھی نواز شریف صاحب کی حکومت کو جنرل مشرف نے ختم کیا۔ این آر او کے بعد ہی نواز شریف اور بینظیر بھٹو پاکستان آ سکے۔ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر آئین میں ایسی ترامیم کیں کہ منتخب وزیر اعظم کو ہٹانا قدرے مشکل ہوا۔

ہمارے نوزائیدہ جمہوری نظام میں 2014ء کے دوران عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے دوران بھرپور کوشش کی گئی کہ فوجی مداخلت ہو سکے لیکن جنرل راحیل شریف کے صبر کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ Temptation میں نہ آئے۔ اس سار ے عمل میں جہاں جنرل راحیل شریف تحسین کے مستحق ہیں وہاں پیپلز پارٹی کو بھی یہ کریڈٹ جاتاہے کہ اس نے ن لیگ کی حکومت کو غیر آئینی اور غیر جمہوری انداز سے ختم کرنے کی کسی کارروائی کا ساتھ نہ دیا۔

اسی طرح نواز شریف صاحب نے بھی پیپلزپارٹی کے دور میں ان کی حکومت کوگرانے کے لیے کسی غیر آئینی عمل کی حمایت نہ کی۔ ان دونوںجماعتوںکی سیاسی بلوغت اور پختگی کے اعتبار سے ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے خوش آئیند ہے۔دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف ملک اس سیاسی نظام میں جمہوریت کو پٹڑی پر رکھنے میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے۔ عمران خان کو جہاں معاشی اور سفارتی سطح پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے وھاں ملک میں جمہوری رویوں اور سیاسی استحکام کو تقویت دینا بھی حکومت وقت کی اہم ترین ذمے داری ہے ورنہ...

نہ کھو بیٹھیں کہیں قافلہ میرا سے ماضی بھی

جو ہاتھوں میں زمانے حال کا پرچم نہیں لیتے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں