میرے غم کی لکیر…
جہاں مجھے اپنی والدہ کی تکلیف دنیا کی سب سے بڑی تکلیف لگ رہی تھی کہ میرا ان سے جسمانی اور قلبی رشتہ تھا
پروفیسر صاحب نے اپنی ناک پر عینک جمائی، میز پر رکھی ہوئی ٹرے میں سے ایک مارکر اٹھایا اور بڑے سے سفید بورڈ پر ایک لمبی عمودی لکیر کھینچی... ہال میں اس وقت بہت بڑے بڑے پیشہ ور اور لائق لوگ موجود تھے۔
ان میں بہت سے محکموں کے سی ای او اور ڈائریکٹر بھی تھے، استاد، ڈاکٹر اور نوجوان پیشہ ور بھی، کچھ تعداد طلباء کی بھی تھی۔ اس لکیر کو دیکھ کر ہر کوئی اپنے انداز سے سوچ رہا تھا۔ '' کیا آپ سب کو یہ لکیر نظر آ رہی ہے؟ '' پروفیسر صاحب نے پوچھا، جواب میں پچھلی نشستوں تک سے ہاں کی آواز آئی تھی۔
'' آپ سب لوگ مختلف شعبہء ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، اپنے اپنے انداز میں قابل ترین۔ میرے پاس آپ جس لیکچر کے لیے آئے ہیں، وہ آپ کے پیشے سے تعلق رکھتا ہو یا نہیں، زندگی کے معاملات سے ضرور رکھتا ہے ۔ یہ جو لکیر آپ کو نظر آ رہی ہے، آپ میں سے کوئی اس لکیر کو چھوٹا کر سکتا ہے؟ '' اس پر سب لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی کیونکہ کسی بھی لکیر کو چھوٹا کرنا یا مٹا دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
'' لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اس لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کریں ! '' پروفیسر صاحب کی بات مکمل ہوتے ہی ان کے چہروں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی کیونکہ لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کرنا کیونکر ممکن تھا۔ '' ہے کوئی ، جو ایسا کر سکے؟ '' پروفیسر صاحب نے پھر بلند آواز سے سوال کیا۔ کوئی جواب نہ پا کر انھوں نے ہاتھ میں دوبارہ چاک پکڑا۔ '' اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس لکیر کو چھوئے بغیر آپ کس طرح اسے چھوٹا کر سکتے ہیں! '' انھوں نے اسی لکیر کے متوازی ایک اور لکیر کھینچی جو اس لکیر سے لمبی تھی، '' ہو گئی نا وہ لکیر چھوٹی؟ '' انھوں نے کہا تو ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا، اس بارے میں تو کسی نے سوچا ہی نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست کی آخری شاموں میں سے وہ شام، جب میں ایک اسپتال کی آئی ٹی سی میں کھڑی تھی، والدہ کی حالت دیکھ دیکھ کر میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں، اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کے قریب جا کر کھڑی ہوتی اور ان کے سینے کی گہرائی سے درد اور کرب سے نکلنے والی ان کراہوں کو سننے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھی پاتی۔
نرسنگ اسٹیشن کے پاس ٹیک لگا کر کھڑی آیت کریمہ کا مسلسل ورد کرتے ہوئے میں آنسوؤں کی دھند کے پار ہونے والی ارد گرد کی کارروائی دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اپنے ماں باپ کو اور اپنی اولاد کو تکلیف میں مبتلا دیکھنے اور اس پر ایسی بے بسی محسوس کرنے کے سوا دنیا میں کوئی دکھ نہیں ہے۔ والدہ کو دیکھ دیکھ کر سینہ غم سے پھٹتا تھا کہ بے بسی سی بے بسی تھی اور میرے غم کی لکیر اس وقت مجھے دنیا کی سب سے لمبی لکیر لگتی تھی، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے چھوٹا کیونکر کیا جا سکتا تھا۔
میںنے ایک بیڈ پر دنیا جہاں سے بے نیاز خاتون کو دیکھا، وہ پانچ برس سے اس حالت میں تھیں۔ انھیں مصنوعی تنفس دیا جا رہا تھا، ان کا سارا وجود کئی طرح کی مشینوں اور ٹیوبوں سے منسلک تھا، ان کی ایک انگلی تک جنبش نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی انھیں احساس تھا کہ وہ کس دنیا میں ہیں۔ میرے دل سے درد اٹھا اور دماغ تک چلا گیا، کیا ہو گا اگر میری والدہ کے ساتھ ایسا ہوا۔
اتنی طویل علالت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، کجا یہ کہ رشتہ دار اور اولاد، کیسی آزمائش تھی ان کی اور ان کی اولاد کی بھی کہ انھیں کوئی ملنے کو بھی کم کم ہی آتا تھا۔ وہ مکمل اسپتال والوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ مجھے اپنے لاشعور میں ایک لکیر کھنچتی نظر آئی جو میری لکیر سے ذرا سی لمبی تھی۔
اسی روز آئی ٹی سی میں داخل ہونے والے دروازے کے پاس والے بیڈ کا وہ چار سالہ مریض بچہ سوتے سوتے ہی مستقل سو گیا۔ چند دن قبل ہی اس کے دماغ کا آپریشن ہوا تھا اور تب سے وہ جاگا نہیں تھا۔ اس بچے کو ابھی دنیا میں کیا کچھ نہیں دیکھنا تھا، اس کے لیے ابھی زندگی آغاز ہی ہوئی تھی۔ اس کی ماں اور نانی یا دادی، جن کے حلیے سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کو اس اسپتال میں لے کر آنے کے لیے انھوں نے اپنی زندگیوں کو بھی گروی رکھ دیا ہو گا، سب کچھ کرنے کے با وصف تہی دامن جا رہی تھیں ۔ جہاں اللہ کی قدرت نہ چاہے، وہاں سب اسباب بے کار ہوتے ہیں ۔ ایک اور لکیر میرے اند ر سے کھنچی جو میرے غم کی لکیر سے اوربھی لمبی تھی۔
دوسرے کونے پر عبداللہ نام کا وہ بچہ جسے اسکول میں کھیلتے ہوئے سر پر کوئی چوٹ لگی تھی اور اس کے دماغ کو نقصان پہنچا تھا... خوبصورت سا بارہ تیرہ سال کا وہ بچہ، دماغ کے آپریشن کے بعد بھی اپنا ذہنی توازن قائم نہ رکھ پایا تھا اور اس کی الٹی سیدھی حرکتیں، منہ سے ٹپکتی ہوئی رالیں ، بے چینی سے ہاتھوں کو مروڑنا اور گھبرا کر چیخ اٹھنا، آئی ٹی سی کی فضا کو کتنا سوگوار کر دیتا تھا۔ ایک اور لکیر...
میری نظر کے سامنے انیس بیس سال کا وہ نوجوان، جس کے سر پر پنجرہ نما ٹوپی تھی، وہ ٹوپی اس کے کھلی ہوئی کھوپڑی کی حفاظت کے لیے تھی۔ No Bone کا سٹکر اس پر لگا ہوا تھا، آئی ٹی سی سے ملحقہ کمرے میں اس کی ماں سے بات کرتے ہوئے علم ہوا کہ وہ بھمبر سے آئی تھی۔ اس کے تین بیٹے تھے، خاوند فوج کا ریٹائرڈ صوبیدار تھا جو سال بھر پہلے ہی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کا کالج میں داخلہ کروانے گیا تو ایک ٹرک کی ٹکر سے بیٹے سمیت جائے حادثہ پر ہی جان بحق ہو گیا۔
دوسرا بیٹا فوج میں کپتان ہے اور آئی ٹی سی میں فاش کھوپڑی کے ساتھ حیات و ممات کی کشمکش میں مبتلا اس کا تیسرا بیٹا، جسے پی ایم اے میں باکسنگ کے دوران مخالف ساتھی کا گھونسہ اس زاویے سے لگا کہ اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور سات ماہ سے وہ اسی حالت کومہ میں تھا اور اس کی ماں کی ساری حیات اسپتال کی اس انتظار گاہ میں سمٹ آئی تھی ۔ میرے غم کی لکیر سے کتنی ہی لمبی لکیر کھنچ گئی تھی ۔
وہیں ایک ایسی مریضہ تھی جو عرصہ بیس سال سے کومہ میں ہے۔ اپنے دوسرے بیٹے کی پیدائش کے دوران وہ اس حالت کومہ میں گئی تھی اور تب سے اب تک وہ کئی اسپتالوں سے ہوتی ہوئی اب پانچ برس سے اس اسپتال میں تھی۔ وہ کسی بھی مدد کے بغیر سانس لے رہی تھی، اس کا دل دھڑک رہا تھا اور وہ کھاناکھاتی اور خارج کرتی ہے... بس ، یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا پہلا بیٹا فوج میں کپتان ہے اور جس کی پیدائش کے دوران اس کی یہ حالت ہوئی تھی وہ اب ڈاکٹر بن رہا ہے۔ اللہ کی مصلحت ، اللہ ہی جانے!! میری لکیر اب کئی لکیروں سے چھوٹی ہو گئی تھی۔
چوبیس اگست کو صبح سویرے والدہ کا اس دار فانی سے کوچ کر جانا ایک ایسا سانحہ تھا کہ اس سے ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ ہرر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کھرنڈ بنتے ہوئے اکھڑ جاتے ہیں ۔ ان کی یاد ہر دم ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کئی طرح کے خیالات اور پچھتاوے ہمسفر بن گئے ہیں۔ ایسا ہوتا تو شاید ... ویسا ہوتا تو ممکن ہے!! مگر دل صدمے سے سنبھل ہی نہیں پاتا ۔ پھر خود کو سمجھاتی ہوں کہ مشیت ایزدی کے سامنے ہم بے بس ہیں، جس نفس نے دنیا میں آنا ہے،ا سے جانا بھی ہے۔ آنے کا تو وقت مقرر ہے مگر یہ بھی اللہ کا ہم پر احسان ہی ہے کہ ہمیں جانے کا وقت معلوم نہیں، نہ اپنا نہ کسی اور کا ورنہ تو جینا ہی موت جیسا ہوجاتا۔
ہم سب بھی اپنی زندگی میں کئی بار ایسی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ہمارے سامنے کوئی لکیر کھنچ جاتی ہے، کوئی رکاوٹ ، کوئی صدمہ۔ اسے چھوٹا کرنے کے لیے ہم اسے مٹانے کے لیے کاوش کرتے رہتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھیں، شاید انھیں اس سے بڑی رکاوٹ کا سامنا ہو اور جب ہم اپنا اور ان کا موازنہ کریں تو ہمیں علم ہو کہ ہمارے غم اور تکالیف تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
جہاں مجھے اپنی والدہ کی تکلیف دنیا کی سب سے بڑی تکلیف لگ رہی تھی کہ میرا ان سے جسمانی اور قلبی رشتہ تھا وہیں بے بسی کا احساس مارے دیتا تھا کہ سب کچھ ہونے کے باوصف بھی ہمارے اختیار کی ایک مقرر حد ہے ۔ اللہ تعالی ان سب لوگوں کی تکالیف کو رفع کرے اور سب کو آزمائش کی گھڑیوں میں استقامت دے۔ آمین