ہمارا زوال پذیر سیاسی کلچر
کون نہیں جانتا کہ کرپشن اور بدعنوانی جیسے منفی عوامل بیشتر قومی آمدنی سرکاری خزانے تک پہنچنے ہی نہیں دیتے
جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں ایوان بالا (سینیٹ) میں اپنے سب سے زیادہ سینئر، وفادار، مدبر اور اپنے شعبوں کے ماہر رہنماؤں کو بھیجتی ہیں۔ اسے عرف عام میں تو ایوان بالا، سینیٹ، راجیہ سبھا، دارالامرا اور کئی دوسرے ناموں سے اقوام عالم میں لکھا ، کہا اور پکارا جاتا ہے۔
لیکن اس بات میں سبھی اہل دانش متفق ہیں کہ جمہوری ممالک میں اعلیٰ ترین ذہنوں اور بلند تر کردار کے حامل لوگوں پر مشتمل لوگ ہی ایوان بالا میں پہنچائے جاتے ہیں لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان کی سیاست میں اصول، قواعد اور ضمیر نام کی کوئی چیز ذرا کم کم ہی ہوتی ہے، ہاں ضمیر یہاں اکثر خفیہ رائے شماری میں جاگ جاتا ہے یا کام آجاتا ہے۔ غور کیا جائے تو اصل خرابی ہمارے آئینی اور قانونی نظام میں ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم میں یہ بندوبست نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں و آمروں جیسا تحفظ دیا گیا ہے۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہم کم و بیش 1985 سے یہ دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارے ملک میں سینیٹرز کے انتخابات میں ایک ایک ووٹ کروڑوں میں بکتا ہے۔ اگرچہ اس بات کو ابھی تک کوئی ثابت نہیں کرسکا لیکن کوئی اس طرح کی باتوں کو جھٹلاتا بھی نہیں ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ، لوٹا کریسی یا لوٹوں کی خرید و فروخت کا مرکز سالہا سال سے ایوان بالا کا طرہ امتیاز چلا آرہا ہے۔ یہاں قربانی دینے والا اکثر قربانی کا بکرا بن جاتا ہے یا منڈی میں بیچ دیا جاتا ہے۔
وطن عزیز کی بدقسمتی سے ہی اسے تعبیرکیا جاسکتا ہے کہ خریدار منڈی کا رخ اسی وقت کرتا ہے جب اسے پتا چلتا ہے کہ وہاں بکنے والا موجود ہے۔ اگر اردگرد بکاؤ مال رکھا ہوا ہو تو وہ صرف سوداگر کی تلاش میں ہی رہے گا۔ لیکن اگر نظریاتی یا اصول پسند لوگ ساتھ ہوں گے تو وہ تختہ دار پر تو چڑھ جائیں گے لیکن ضمیر کا سودا ہرگز نہیں کریں گے۔
حال ہی میں سینیٹ کے ایوان میں جو کچھ چشم فلک نے دیکھا وہ انتہا کی بے حسی کا مظاہرہ تھا جس میں معاشرے کے وہ لوگ شامل تھے جو اپنے آپ کو لیڈر کہلواتے ہیں جن کو اصولاً اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کے اعتبار سے سب سے بہتر اور دوسروں کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن خود کو ایوان بالا کے ممبر کہلوانے والے سینیٹرز نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ ان کی حیثیت منڈی میں بولی کے ذریعے بکنے والوں کی ہے۔ اس بار ایوان بالا میں کمال کا تماشا لگا اور اس کے افراد ضمیر فروشی کی نئی داستان کا حصہ بن گئے اور اس واقعے نے پھر یہ ثابت کیا کہ ہمارے ہاں سیاست جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، ضمیر فروشی اور ناجائز پیسہ کمانے اور اس کا دفاع کرنے کا نام ہے۔
اس واقعے نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، اس واقعے سے پاکستان کے جمہوری نظام، ارکان پارلیمان اور ریاستی اداروں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوگیا۔ اور یہ سب کچھ اس سیاسی جماعت کی حکمرانی میں ہوا جو جمہوری نظام کی خامیوں کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آئی تھی۔ اس واقعے نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا۔
سیاسی ماہرین جہاں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایک صوبے تک کیسے محدود ہوگئی، وہیں وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ وہ کون سے سیاسی اصول تھے جس کی بنیاد پر پارٹی کے سینئر اور بااصول اور سینیٹ کے وقارکو بلند کرنے والی ذات کی جگہ دوسرے صاحب کو چیئرمین بنا دیا گیا اور یہ صاحب سینیٹ کی تاریخ کے ایک منفرد چیئرمین ثابت ہوگئے، جن کا منتخب ہونا بھی سر پرائز تھا اور اقلیت میں ہوتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینا بھی حیران کن رہا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر برسہا برس سے زوال پذیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ 72 سالوں میں ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا سوائے بدنامی یا خاموشی کے۔ اور یہ بھی کچھ غلط نہیں ہے کہ جن معاشروں میں علم وحکمت سے شناسائی کا فقدان ہو وہاں غلطیوں پر احساس زیاں ناپید ہوجاتا ہے اور جن معاشروں میں احساس زیاں ناپید ہو جائے وہاں دانائی کا گزر نہیں ہوسکتا، اور جہاں دانائی کا کوئی وجود نہ ہو وہاں زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔
کسی بھی ملک میں سیاست جبھی پھلتی پھولتی ہے کہ جب اس کے شہری باشعور اور حقیقی معنوں میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال جانتے ہوں لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے یہ شعور آج تک پنپ نہیں پایا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہاں اوپر سے ''سلیکٹڈ لوگوں'' کو پہلے سے ہی مملکت کی تقدیر کا ودھاتا بنانے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ الیکشن کیا سلیکشن کی بنیاد پر حکمران ہمارے عوام کے سروں پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کم عقل حکمرانوں کے غلط فیصلے عوام کی زندگیوں میں زہر بھر دیتے ہیں اور صاحب اقتدار کی خطائیں تاریخ بدل دیتی ہیں۔ چشم فلک مدتوں سے دیکھ رہی ہے کہ ہماری دنیا میں کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہم عالمی تنہائی کا شکار برسوں سے چلے آرہے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں پچھلے 5 سالوں میں 56 ارب خرچنے والے ہمارے سفارت کاروں کی گزشتہ 5 سالہ کارکردگی ہی دیکھ لیں۔ کیا بدنصیبی، یا ستم ظریفی ہمارے حصے میں آئی ہے اب ہم اپنے دشمن سے لڑ کر شام، عراق یا لیبیا تو بن سکتے ہیں کشمیر حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ کشمیر حاصل کرنے کے تین مواقع حالات اور وقت نے ہمیں دیے جنھیں ہمارے ارباب اختیار نے ضایع کردیا۔
بدعنوانیوں اور کرپشن نے اس مملکت خداداد کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ طرفہ تماشا یہ کہ کرپشن کے ٹھوس ثبوت ملنے کے بعد بھی انھیں سالوں جیل میں ڈالنے کے بعد باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کرپشن کرنے والی سیاسی جماعتیں اور اس کی آنے والی نسلوں تک کو بھی آیندہ سیاست میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد کی جاتی اور کرپشن کی رقم ریکور کرکے ملک کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور شاید آیندہ بھی نہ ہوگا۔ شرم ڈھٹائی دیکھیں کرپشن کے جرم میں جیل جانے والوں کے لواحقین اسے بے قصور اور مظلوم ثابت کرنے کے لیے قانون کے رکھوالوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے قومی سرمایہ وارنے پر تیار ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ کرپشن اور بدعنوانی جیسے منفی عوامل بیشتر قومی آمدنی سرکاری خزانے تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، جس سے غیر متوازی و غیر قانونی معیشت فروغ پا رہی ہے اور یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی کی مکمل بیخ کنی کی جائے لیکن ایسا نڈر، منصف کب اور کہاں سے آئے گا؟
عصر حاضر میں ہماری قوم ایک اچھی، سچی اور نڈر قیادت کی منتظر ہے جس کی سوچ اول درجے کی ہو دو نمبری ہرگز نہ ہو۔ جس روز اس ملک کو ایسی قیادت میسر آگئی یہ نہ کمزور رہے گی اور نہ ہی اقوام عالم کی دست نگر، اور ایسا اسی وقت ہوسکے گا جب ہمارے ملک کو بے لوث اور مخلص سیاست دان ملیں گے، اس لیے کہ جنگ میں تو ایک بار ہی مٹی کا رزق بن جاتے ہیں لیکن سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک کو سیاسی شہید کی نہیں بلکہ غازی کی ضرورت ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہر نصیحت کی ایک عمر ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔