سو دنوں کے بعد
بد قسمتی سے ہماری قومی سیاست کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور...
بد قسمتی سے ہماری قومی سیاست کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک کو درپیش سنگین چیلنجوں اور مشکل تر زمینی حقائق کے باوجود عوام کو سنہرے خواب اور سبز باغ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ملک و قوم کا مستقبل سنوارنے کے حوالے سے ایسے بلندبانگ ناقابل یقین دعوے اور وعدے کرتے ہیں کہ جیسے ان کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے اور اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی وہ عوام کے دیرینہ و گمبھیر مسائل آناً فاناً حل کر دیں گے جلد ہی ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے گا، غریب اور امیر کی تفریق مٹ جائے گی، امرا کی طرح عام آدمی بھی من و سلویٰ کھانے اور کمخواب، ریشم و اطلس پہننے لگے گا، ملک میں سب کے لیے یکساں تعلیمی، سماجی اور عادلانہ نظام ہو گا اور ہر جانب امن و سکون و خوشحالی کا دور دورہ ہو گا اور حکمران بھی چین کی بانسری بجا رہے ہوں گے، ہمارے لیڈران کی یہ خوش قسمتی ہے کہ قومی آبادی کی اکثریت گائوں، دیہاتوں اور قصبوں میں آباد ہے اپنی کم مائیگی، پس ماندگی اور ناخواندگی کے باعث یہ لوگ بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں اسی لیے انھی رہنمائوں کی لچھے دار باتوں پر جلد یقین کر لیتے ہیں اور اپنے ووٹوں کی طاقت سے انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد ہی کچھ ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی۔
انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنمائوں و قائدین نے عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے بڑے بلند بانگ دعوے کیے، میاں برادران بڑے طمطراق سے جلسوں جلوسوں سے خطاب کے دوران کہا کرتے تھے کہ سابقہ حکومت نے عوام کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے، حکمران دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے ہیں ملک میں بد عنوانی و جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، بجلی، تیل اور گیس قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں عوام کی زندگی عذاب بن چکی ہے اور سابقہ حکمرانوں نے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی، نتیجتاً آج ملک کا پورا نظام زوال پذیر ہے لیکن اگر عوام نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر تیسری مرتبہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا تو وہ یہ سارے مسائل حل کر دیں گے۔ بالخصوص دہشت گردی اور بجلی کے بحران کا جلد خاتمہ ہو جائے گا ملک کی معیشت کو مستحکم اور عوام کو ریلیف فراہم کریں گے پھر 12 مئی کی صبح کا سورج مسلم لیگ ن کی فتح کے ساتھ طلوع ہوا۔
میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے اور پھر اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں یعنی ہنی مون پیریڈ میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور ملکی مسائل حل کرنے کے بلند بانگ دعوے اور لوگوں کو بڑی امیدیں دلائیں لیکن آج ملکی و غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں نواز حکومت کی 100 روزہ کارکردگی پر مبصرین و تجزیہ نگار کھل کر اپنے عدم اعتماد اور عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں تو لیگی رہنمائوں کو ساتھیوں کا اظہار سخت ناگوار گزر رہا ہے آپ بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے بعد حکومتی کارکردگی دیکھ لیجیے کہ زلزلہ متاثرین ایک ہفتے سے زائد گزرنے کے باوجود داد رسی و امداد کے منتظر ہیں آواران زلزلے اور آفٹر شاکس کے باعث 500 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے، ہزاروں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار موسم کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ آواران کا نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے لیکن حکومت زلزلہ متاثرین کی امداد و بحالی کے حوالے سے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں بیانات دینے میں تو بڑی فعال ہے لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق زلزلہ متاثرین ایک عشرہ گزرنے کے باوجود امداد و بحالی کے لیے حکومت کی راہ دیکھ رہے ہیں، ارضی و سماوی آفات سے نمٹنے کے لیے 2005ء کے خوفناک زلزلے کے بعد قائم ہونے والے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ بھی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے زوال پذیر ہے حکومت کو اس ایمرجنسی ادارے کو فعال کرنے اور آواران زلزلہ متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے، سماجی و امدادی تنظیموں کا کام اپنی جگہ لیکن حکومت بھی اپنا فرض منصبی پورا کرے۔
بات ہو رہی تھی حکومت کی سو روزہ کارکردگی کی جس پر عام آدمی سے لے کر تاجر و صنعت کار، اسٹیٹ بینک اور عدلیہ سب عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، بلدیاتی انتخابات کرانے میں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث چیف جسٹس آف پاکستان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ اس جمہوری حکومت سے تو مارشل لاء حکومتیں اچھی تھیں۔ لاپتہ افراد کی عدم دستیابی کے حوالے سے عدلیہ کے ریمارکس حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ تاجر و صنعتکار سراپا احتجاج ہیں کہ ڈالر کا ریٹ تاریخ کی بلند ترین سطح 110 روپے تک جا پہنچا۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے ٹیرف میں برق رفتار اضافے سے معاشی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، مہنگائی و غربت کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔ عام آدمی حیران و پریشان ہے کہ وہ اپنی محدود آمدنی سے غربت و مہنگائی کے سونامی کا کیسے مقابلہ کرے اس کی زندگی روز جینے اور روز مرنے جیسی عذاب ناک بن چکی ہے، مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت نے قرضہ حاصل کرنے کی خاطر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر قومی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والوں نے اب دونوں ہاتھوں میں بڑے بڑے کشکول تھام لیے ہیں۔ دہشت گردی و انرجی بحران ختم کرنے کے حکومتی دعوے بھی نقش بر آب ثابت ہوئے۔
ریکارڈ شاہد ہے کہ گزشتہ 100 دنوں میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا ہے اور حکمران محض دعوے ہی کرتے رہے۔ انرجی بحران کے باعث صنعتیں و فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں کی روز مرہ کی زندگی لوڈ شیڈنگ کے طویل دورانیوں نے اجیرن کر رکھی ہے،500 ارب کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باوجود حکومت لوڈ شیڈنگ کم کرنے میں بھی ناکام ہو گئی ہے، بعینہ دہشت گردی کے عفریت کے منہ سے خون اگلنے کا سلسلہ جاری ہے، شدت پسندوں سے مذاکرات کی حامی نواز حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد تو دہشت گردی کی خون آشام کارروائیوں میں مزید تیزی آتی جا رہی ہے، اے پی سی کے طفیل مذاکرات کی پیشکش کے باوجود دہشت گرد عناصر اپنے ''ٹارگٹ'' کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پشاور میں قصہ خوانی بازار، مسیحیوں کے چرچ اور سرکاری ملازمین کی بس کو دھماکے سے اڑانے کے بعد صورتحال مزید گمبھیر اور سنگین ہو گئی ہے، حکومت طالبان مذاکرات اول تو شروع ہی نہیں ہوں گے اور اگر ایسا کوئی موقع آیا بھی تو حکومت کو سوائے مایوسی و ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ نواز حکومت اپنے دعوئوں اور وعدوں کے باوجود ابتدائی 100 دنوں میں اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی، کیا 100 دنوں کے بعد بھی عوام ریلیف کو ترستے رہیں گے؟