کالاباغ اور ماڑی انڈس

دریائے سندھ کے کنارے بسے دو تاریخی شہروں کے حسین نظارے، دل چسپ تاریخ


دریائے سندھ کے کنارے بسے دو تاریخی شہروں کے حسین نظارے، دل چسپ تاریخ

اگر آپ صوبہ پنجاب کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو شمال مغرب میں ایک چونچ سی نکلی دکھائی دے گی جو شمال اور مغرب میں خیبرپختونخواہ سے گھری ہوئی ہے۔ یہ ضلع میانوالی ہے جس کے شمالی کونے میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ایک مشہور قصبہ نما شہر واقع ہے جس کے نام پر پاکستانی سیاست میں آج بھی ہلچل مچ جاتی ہے۔ یہ کالا باغ ہے جو تحصیل عیسیٰ خیل کا حصہ ہے اور کالا باغ ڈیم کا مجوزہ مقام بھی ہے۔

اس شہر کے نام کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ وہ یہ کہ اس شہر کے بانی نواب آف کالاباغ نے یہاں وسیع و عریض رقبے پر آموں کے باغات لگوائے۔ یہ باغات اتنے گھنے تھے کہ اکثر دھوپ میں ان کے گہرے سبز پتے راہ چلتے لوگوں کو کالے محسوس ہوتے تھے۔ نظر کے اس دھوکے نے اس شہر کو کالے باغات کا شہر یعنی ''کالاباغ'' کا نام دے دیا، جس کی وجہ سے یہاں کے نواب بھی نواب آف کالا باغ کے نام سے جانے گئے۔

اس نام کے متعلق ایک اور رائے بھی ہے۔ ترکی زبان میں کالا سے مراد "مال" اور باغ سے مراد ''منڈی'' کے ہیں۔ کالاباغ کا یہ نام تجارتی اور گھریلو صنعت کے حوالے سے بہت حد تک درست بھی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ نواب آف کالا باغ کی ریاست سِکھ دور سے پہلے آج کے بنوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بھکر اور میانوالی تک پھیلی ہوئی تھی، جب کہ آج کا کالاباغ شہر نواب کے قلعے کے اردگرد تک پھیلا ہوا ہے۔ قلعہ نواب صاحب کے نام سے پکارا جانے والا یہ قلعہ آج بھی نوابوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

قومی اور عالمی سطح پر اس شہر کے دو تعارف ہیں، ایک نواب آف کالاباغ جو مغربی پاکستان کے گورنر تھے جب کہ دوسرا بدنصیب کالاباغ ڈیم جو آج تک تعمیر نہ ہو سکا۔ لیکن میری نظر میں یہ شہر ان چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں آپ کو بہت کچھ ملے گا۔ ایک سیاح کے لیے یہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ یہاں واقع سلسلہ کوہ نمک اور سرخ پہاڑیوں کا حسن اپنی مثال آپ ہے اوپر سے پہاڑوں کے درمیان سے دریائے سندھ کے بہاؤ کا قدرتی نظارہ بھی قابل دید ہے۔ آئیے اس چھوٹے سے شہر میں پھیلے عجائبات کا جائزہ لیتے ہیں۔

کالاباغ ریلوے برج؛
جب خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع ٹانک اور بنوں کو ریلوے لائن کے ذریعے پنجاب اور دیگر علاقوں سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کالاباغ کے مقام پر ایک پُل کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر سے ریل گزاری جا سکے۔

نارتھ ویسٹ ریلوے کے افسر ڈبلیو-ڈی کروکشینک کی 1929 میں مرتب شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ؛

اس پُل کے لیے 1888 سے سروے شروع کردیے گئے، جب کہ 1919 سے 1924 تک تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ آخرکار 1927 میں اس منصوبے کی منظوری دے کر کام شروع کردیا گیا۔ یہ پل صرف ریل کے گزرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس پر پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی انتظام نہ تھا۔ اِس نے سندھ کے مشرق میں چوڑے گیج کی لائن کو مغرب میں واقع 2 فٹ 6 انچ کی تنگ لائن سے منسلک کرنا تھا۔ پل کا بنیادی مقصد ریل کو لاہور سے آگے بنوں اور کوہاٹ سے لے کر وزیرستان تک پہنچانا تھا تاکہ برطانوی افواج کو رسد مہیا کی جا سکے۔

مگر ہماری بدقسمتی کہ 1990 میں ریل کے نظام پر اسی پل کے مقام پر ''پُل اسٹاپ'' لگا دیا گیا یعنی ماڑی اسٹیشن جو عین اس پل کے مشرقی حصے پر واقع ہے وہاں تک ریل کا سفر محدود ہوگیا۔ اس پل کو ٹھیک اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے دریائے سندھ پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ 1929 کے سیلاب کے بعد پل کا ڈیزائن بدلا گیا اور اسے ماڑی انڈس کی طرف سے خشکی پر اور لمبا کر دیا گیا۔

ماڑی اور کالاباغ کو ملانے والا یہ پل ایوب خان کے دور تک پختونخواہ اور پنجاب کی سرحد پر تھا مگر بعد میں بنوں کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کو میانوالی کے ساتھ ملا دیا گیا اور یہ صوبہ پنجاب کی جھولی میں آگیا۔

جو ٹریک ماڑی سے بنوں تک بچھایا گیا تھا اس کی چوڑائی صرف اڑھائی فٹ تھی اور اس پل کی تعمیر بھی ٹریک کے مطابق ہی کی گئی تھی۔ 1995 تک یہاں سے مسافر ٹرین بنوں تک جاتی رہی جسے بعدازاں مستقل طور پر بند کردیا گیا اور یہ پل حکام کی عدم توجّہ سے خستہ حالی کا شکار ہوگیا۔ اس کی تعمیر میں استعمال کیے گئے دیار کی لکڑی کے پھٹے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع بھی ہوئیں۔

تقریباً ایک صدی پرانا یہ پل آج پاکستان کا سب سے قدیم پل مانا جاتا ہے، جس پر کھڑے ہو کر آپ بیک وقت کالاباغ، بوہڑ بنگلہ، ماڑی انڈس اور جناح بیراج کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یقیناً یہ پل کسی شاہ کار سے کم نہیں۔

بوہڑ بنگلہ؛
دریائے سندھ کے کنارے نواب آف کالاباغ کے تاریخی مہمان خانے کو "بوہڑ بنگلہ " کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ بنگلہ کے وسط میں ڈیڑھ سو سالہ پْرانا "برگد" کا ایک درخت ہے۔ نواب آف کالاباغ اسی درخت کے نیچے بیٹھک لگا کر عوام الناس کے مسائل سنا کرتے اور موقع پر فیصلہ کیا کرتے تھے۔ اس بنگلے میں ملکہ الزبتھ سے لے کر پرویز مشرف تک بے شمار ملکی اور غیر ملکی شخصیات جن میں جواہر لعل نہرو اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بھی شامل ہیں، قیام کرچکی ہیں۔ سفید رنگ کے اس بنگلے کو میانوالی کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ضلع کی سیاست میں جو فیصلہ بوہڑ بنگلہ کر دیتا وہی پورے ضلع کا فیصلہ ہوا کرتا۔

ایک طرف دریائے سندھ کا ٹکراتا ہوا پانی تو دوسری جانب قدیم گھنا بوہڑ کا درخت، بوہڑ بنگلہ واقعی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بوہڑ بنگلے کی دوسری جانب ہی نواب آف کالاباغ کی رہائش گاہ، اصطبل اور مہمان خانہ واقع ہے۔ مہمان خانے کی عمارت بھی اپنی مثال آپ ہے جسے دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ یہ مہمان خانہ ایک استقبالی کمرے، ایک ہال، ڈائننگ روم اور ایک برآمدے پر مشتمل ہے جس کے ساتھ کھلا صحن واقع ہے۔ اس عمارت کو بھورے پہاڑی پتھر سے بنایا گیا ہے۔ یہاں سے کالاباغ کی پہاڑیوں کا دل کش نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مہمان خانے میں نواب صاحب کی چند قیمتی تصاویر، دستاویزات اور غیرملکی سربراہوں کی طرف سے دیے جانے والے تحائف بھی رکھے گئے ہیں، جب کہ کھانے کے کمرے میں برطانوی طرز کے برتن اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ یہ مہمان خانہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ اگر آپ کالاباغ جائیں تو بوہڑ بنگلہ دیکھے بنا واپس مت آئیے گا۔

سلاگر؛
دریائے سندھ کے علاوہ کالاباغ کی ایک پہچان ''سلاگر'' کا بلند و بالا پہاڑ بھی ہے جو کالاباغ کا سب سے بڑا پہاڑ ہے اور دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ سلاگر کے معنی ہیں مسلسل یا لگاتار کیوںکہ اس پہاڑ کی ڈھلوان لگاتار بڑھتی جاتی ہے اس وجہ سے اسے سلاگر کا نام دیا گیا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر کچھ قبریں بھی موجود ہیں۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک ہی دور کی قبریں ہیں جنہیں بعد میں اصحابؓ رسولؓؐ سے منسوب کردیا گیا لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں بتا سکا۔

نمک کی کانیں؛
ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کھیوڑہ میں پاکستان کی سب سے بڑی نمک کی کان واقع ہے، لیکن اس کے علاوہ ہمیں کبھی کسی اور نمک کی کان کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کالاباغ شہر کے اندر ہی دو تین نمک کی کانیں واقع ہیں جن میں سے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) سالٹ مائین سب سے مشہور ہے۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جہاں سے روم اور پلر کے اصول کے مطابق نمک نکالا جاتا ہے۔ یہاں کچھ چیمبر 80 میٹر تک گہرے ہیں جہاں آج بھی کاری گر ہاتھوں سے نمک نکاتے ہیں۔ یہاں تقریباً 13 مختلف اقسام اور رنگوں کا نمک نکالا جاتا ہے جسے چھوٹی چھوٹی ٹرالیوں میں بھر کر دوسرے شہروں کو منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کا سفید و گلابی نمک 96 فی صد خالص ہے۔ 2018 میں یہاں سے ایک لاکھ بیالیس ہزار پانچ سو چالیس ٹن نمک نکالا گیا تھا۔

نمک کے علاوہ کالاباغ لوہے کی پیداوار میں بھی مشہور ہے۔ خام لوہے کے یہ ذخائر مکڑوال سے کالاباغ اور پھر سکیسر تک پھیلے ہوئے ہیں۔

کالاباغ کا ریلوے اسٹیشن؛
اگرچہ یہ کوئی مشہور مقام نہیں ہے نہ ہی یہاں کوئی جاتا ہے لیکن عبرت پکڑنے کے لیے یہ جگہ سب سے بہتر ہے۔ ایک زمانے میں چہل پہل اور ریلوے انجن کی سیٹیوں سے گونجتا یہ خوب صورت ریلوے اسٹیشن آج ویران اور اجاڑ جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کالاباغ ریلوے اسٹیشن کے نام پر آج یہاں ایک بند دروازے والا گودام ہے جس کے سامنے چھوٹے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس کے ماتھے پر موہوم سے نشانات ہیں جنہیں غور سے پڑھیں تا کالاباغ کے الفاظ دکھائی دیں گے بس یہی اس کے ریلوے اسٹیشن ہونے کی نشانی ہے۔ اس کے سامنے آج بھی ریلوے کا تباہ حال ٹریک ہماری نااہلی کا رونا رو رہا ہے جس پر ایک زمانے میں بنوں تک ریل جایا کرتی تھی جسے بھاپ سے چلنے والے انجن کھینچتے تھے۔

بنوں جانے والی ٹرین کا دُخانی انجن جب یہاں رکتا تھا تو اس کے عقب میں سلاگر پہاڑ کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

جناح بیراج؛
پنجاب میں دریائے سندھ اور جہلم کے بیچ کے دوآبے کو ''سندھ ساگر دوآب'' کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر بنجر، بے آب و گیاہ زمینوں اور صحرائے تھل پر مشتمل تھا۔ پھر ایک شاہ کار منصوبے نے اس علاقے کی قسمت بالکل بدل دی اور یہ تھا 1946 میں دریائے سندھ پر بنایا جانے والا جناح بیراج جو کالاباغ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بیراج تھل پراجیکٹ کا ایک حصہ ہے جس سے انیس لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ اس بیراج سے پانی گریٹر تھل کینال میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے ذریعے میانوالی، بھکر، خوشاب، لیہ اور مظفرگڑھ تک کے اضلاع کی لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ تھل کینال نہ صرف صحرائے تھل کی سرسبزوشادابی کی امین ہے بلکہ اہل تھل کے باسیوں کی معیشت کی شہ رگ بھی ہے۔ اس بیراج پر رات کا شان دار نظارہ کرنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔

اب چلتے ہیں ایک اور تاریخی شہر کی طرف جو کالاباغ برج کے دوسری جانب واقع ہے۔ یہ ہے ماڑی جسے ماڑٰی انڈس بھی کہا جاتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا خوب صورت قصبہ ہے لیکن اس کی ایک مستند تاریخی، ثقافتی، جغرافیائی اور معاشی حیثیت ہے۔ ماڑی انڈس مندرجہ ذیل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

ماڑی کا ہندو مندر؛
ماڑی انڈس سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ کنارے ماڑی واقع ہے جو ایک قدیم گاؤں ہے۔ یہ جگہ اپنے قدیم ہندو مندروں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی اور خوب صورت پہاڑیوں کے بیچ بسا ہوا یہ گاؤں زمانہ قدیم میں ہندو مذہب میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں مغرب کی طرف موجود ایک پہاڑی پر دو قدیم تاریخی ہندو " شِومنوتی مندر " واقع ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سکندراعظم نے اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں پڑاؤ ڈالا تھا اور ماڑی کے مقام سے دریائے سندھ عبور کر کے دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا جہاں راجا پورس کے ساتھ اس کا گھمسان کا رن پڑا تھا۔

انھیں دنوں ماڑی اور آس پاس کے علاقوں میں نندا خاندان کی حکومت تھی۔ اس وقت کی حکومت نے سکندر سے تعاون کرتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا اور یہ علاقہ بغیر جنگ و جدل کے فتح ہوگیا تھا۔ سکندر کے جانے کے بعد یہاں کے حکم راں کے اپنے بیٹے چندر گپت موریہ سے اختلافات شدید ہوگئے تھے اور راجا نے زبردستی اسے اپنی سلطنت سے نکال دیا تھا۔ کسی طرح اس نے چند باغی اور ہم خیال لوگوں کی فوج بنائی اور ماڑی پر حملہ آور ہوگیا اور اپنے باپ کو شکست فاش دینے کے بعد اپنی حکومت قائم کرلی۔

چندر گپت موریہ کی جائے پیدائش کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ میانوالی کے قریبی گاؤں پپلاں میں پیدا ہوا تھا اور انتہائی سخت جان اور باغی طبیعت کا مالک تھا۔

ان مندروں کا طرزِتعمیر بھی کوہستان نمک کے دوسرے مندروں جیسا ہے جو کٹاس راج، ملوٹ، بلوٹ اور کافر کوٹ میں واقع ہیں۔ ماڑی کے ان مندروں تک جانے کے لیے دو اطراف سے پیدل ٹریک جاتے ہیں، جب کہ تیسری طرف دریائے سندھ اور چوتھی طرف قدرے ناہموار پہاڑی سلسلہ ہے۔



ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن؛
اپنے خوب صورت اور قدیم طرزتعمیر اور تاریخی حیثیت کی بدولت ماڑی انڈس کا ریلوے اسٹیشن پورے ضلع میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شہر کی رونق بھی اسی اسٹیشن سے ہے تو غلط نہ ہو گا۔
بچپن سے ہی ریلوے کے یادگار دور کو قریب سے دیکھا ہے اور شاید اسی وجہ سے ٹرینیں اور ریلوے اسٹیشن مجھے بہت مسحور کن لگتے ہیں۔ ٹرین کی آواز اور اس کے ہارن میں بھی ایک کشش سی محسوس ہوتی ہے۔ خالی مال گاڑیاں اور ویران پٹریاں مجھے بہت لبھاتی ہیں اور میرے جیسے لوگوں کے لیے ماڑی انڈس کا ریلوے اسٹیشن انتہائی خوب صورت ہے۔

خوب صورت پرانے طرز کے شیشوں والے دروازے اور کھڑکیاں، لکڑی کی پرانی بینچیں، سادہ سا پلیٹ فارم، لکڑی کی اونچی پانی کی ٹنکی اور ریلوے کا پرانا سامان، یوں لگتا ہے جیسے بندہ اَسّی یا نَوّے کی دہائی کا کوئی دور دراز ریلوے اسٹیشن دیکھ رہا ہو۔ اِس کے دو اطراف پہاڑیاں اور تھوڑے ہی فاصلے پر دریائے سندھ بہہ رہا ہے۔ یہاں جگہ جگہ مختلف پٹریاں بکھری ہوئی ہیں۔ 1891 میں بنائی گئی اس کی عمارت آج بھی کچھ مرمت کے بعد اسی طرح دل کش اور جاذبِ نظر ہے۔ اسٹیشن کے بہت سے حِصے اب استعمال میں نہیں اور انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر ریل کے پہیئے اور دیگر سامان ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے یہاں صرف ایک گاڑی ''اٹک پسنجر'' آیا کرتی تھی لیکن اب دو نئی ٹرینیں چلانے کے بعد یہاں کی رونق میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔

اس اسٹیشن کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں چوڑی اور تنگ پٹریوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اس کے ایک جانب چوڑے گیج والی پٹری ہے جو اسے لاہور سے ملاتی ہے جب کہ دوسری جانب تنگ پٹری ہے جو ماڑی کو کالاباغ، کمر مشانی، عیسیٰ خیل، لکی مروت اور آگے بنوں اور پھر ٹانک سے ملاتی ہے جو اب بند کردی گئی ہے۔ اس کی تاریخ انتہائی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔

قصہ یوں ہے کہ تاجِ برطانیہ نے ماڑی انڈس کے مقام پر اپنی فوج کے لیے ایک اسلحہ ڈپو قائم کیا تھا۔ یہ ڈپو ان افواج کو اسلحہ فراہم کرتا تھا جو دریائے سندھ کے پار مغربی علاقوں جیسے بنوں، ٹانک، کوہاٹ اور وزیرستان میں تعینات تھے۔ یہ ڈپو آج بھی اسٹیشن کے ساتھ قائم ہے۔ ماڑی انڈس تک اسلحہ مرکزی چوڑی پٹری کے ذریعے لایا جاتا تھا لیکن اس کے پار مغرب میں اس قسم کا نظام بنانا آسان نہ تھا سو یہاں 2 فٹ 6 انچ کی تنگ پٹری بچھائی گئی جو ماڑی تا بنوں جاتی تھی۔ آگے بنوں کو ٹانک سے برانچ لائن کے ذریعے جوڑا گیا۔ یوں ریلوے کا ایک سستا اور چھوٹا نظام وجود میں آگیا جو برطانوی فوجوں کی سرحد تک نقل و حمل کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔

یہ ٹرینیں ملٹری کے ساتھ ساتھ سول مقاصد کے لیے بھی استعمال ہونا شروع ہوئیں اور لوگوں نے ان کے ذریعے سفر کرنا شروع کیا۔ لیکن ان کی رفتار اتنی سست ہوتی تھی کہ لوگ ان سے اتر کر آرام سے کھانے پینے کا سامان لے کر دوبارہ سوار ہو جاتے تھے۔ مقامی لوگوں میں یہ ''چھوٹی ریل'' کے نام سے مشہور تھی جسے 1913 میں نارتھ ویسٹرن ریلوے نے بچھایا تھا جب کہ 1916 میں اسے ٹانک جنکشن تک لے جایا گیا۔ پاکستان کی اس برانچ ریلوے لائن کی لمبائی اندازاً 122 کلومیٹر تھی جسے ماڑی انڈس ریلوے لائن بھی کہا جاتا تھا۔ افسوس کہ اس ٹریک کو 1995 میں بند کر دیا گیا۔

بہت دھیمی رفتار سے اڑھائی فٹ کی پٹڑی پر چلنے والی یہ ٹرین زیادہ تر پاک فوج کی نقل وحرکت کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جب یہ ریلوے برِج میں داخل ہوتی تو نیچے سندھو ندی کا ٹھاٹیں مارتا پانی اور اوپر اِس کا دُھواں اْڑاتا اِنجن ایک مسحُور کُن نظارہ پیش کرتا۔ کالاباغ کے لوگ خصوصی طور پر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے ٹرین گزرنے کا نظارہ کراتے۔ یہاں کے لوگوں کے مطابق نواب امیر محمد خان اور ملکہ الزبتھ نے اس ٹرین پر ایک یادگار سفر کیا تھا۔ آج اس کے بند ہو جانے کے بعد کالاباغ، عیسیٰ خیل، لکی مروت اور بنوں کے اسٹیشن اُجاڑ ویرانوں کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں زنگ لگی ہوئی پٹریوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں۔

یہ تھے ضلع میانوالی کے وہ دو مشہور مقامات جو آپ کو زندگی میں ایک بار لازمی دیکھنے چاہییں۔ یہاں سے ایک طرف آپ میانوالی، نمل جھیل ور چشمہ بیراج جبکہ دوسری طرف عیسیٰ خیل اور لکی مروت بھی جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں