کچھ علاج اس کا بھی ہو

یہ ایک بہت ہی افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بہت تیزی سے...


Abid Mehmood Azam 1 October 02, 2013

یہ ایک بہت ہی افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روز بروز ایسے ایسے خوفناک حقائق و واقعات سامنے آتے ہیں جن کو شیطانیت و درندگی کے کھلے مظاہر کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چند سال پہلے تک کم از کم ہمارے معاشرے میں اس قسم کے شرمناک جرائم کی اتنی بھرمار نہیں تھی جتنی آج ہے۔ جنسی زیادتی پاکستان کا تیسرا سنگین ترین جرم بن چکا ہے۔ زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہوس کے پجاریوں نے معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ برس میں آٹھ ہزار، جب کہ آخری ایک سال میں دو ہزار سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بہت سوں کو تو شیطان صفت درندوں نے زیادتی کے بعد قتل ہی کر ڈالا۔ بچوں کے ساتھ ایسے ایسے دل دہلا دینے والے سانحات رونما ہوتے ہیں، جن کو لکھتے ہوئے قلم بھی تھرتھرا اٹھتا ہے۔

بچوں کا جنسی استحصال پوری دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپ میں جنسی تشدد کے واقعات کی شرح منٹوں اور سیکنڈوں کے اعتبار سے ہے۔ مغربی پریس کے مطابق امریکا میں ہر سال تیس لاکھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی، جن میں سے بیس فیصد کی عمریں آٹھ سال سے بھی کم ہوتی ہیں۔ صرف برطانیہ میں ہر سال بارہ لاکھ لڑکیاں اسقاط حمل کرواتی ہیں، ان میں زیادہ تر تعداد اسکول کالج کی کم عمر لڑکیوں کی ہوتی ہے، جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کم عمر لڑکے ان کے علاوہ ہیں۔ برطانیہ میں ''چائلڈ لائن'' ادارے کے مطابق 11 سال کی عمر تک کے 11 فیصد بچوں کو برطانیہ میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہر چوتھا بچہ جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق جنوبی افریقہ میں 15 فیصد افراد نے کم سن بچوں کے ساتھ جنسی جارحیت کا خود اعتراف کیا۔ نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں 7 سال سے کم تھیں۔ جنوبی افریقہ کے وزیر صحت ایرن موٹسوالیڈی کے مطابق 2011ء کے دوران ملک میں اسکولوں کی 94 ہزار طالبات حاملہ ہوئی تھیں، ان میں بیشتر دس برس کی عمر کی تھیں۔ تائیوان میں سو میں سے 25 فی صد نوجوانوں نے کم سنی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کا اعتراف کیا۔ یو کے میں 2010ء کے ایک سروے کے مطابق 23 ہزار سے زیادہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ بھارت میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور دی پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 80 فیصد لڑکیاں اور لڑکے اسکول اور کالج لائف میں جنسی عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ جن میں 15 سال تک کی 42 فیصد لڑکیاں اور 26 فیصد لڑکے ہوتے ہیں۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنسی تشد د انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹس کے آنے کے بعد سے زیادہ ہوا ہے۔ ماہرین نفسیات بھی فحش مواد کا جنسی جرائم کے ساتھ ہمیشہ سے گہرا تعلق بتلاتے آئے ہیں۔ ماہر نفسیات و سماجیات ڈاکٹر امجد طفیل کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی وجہ میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذریعے دستیاب ایسا (فحش) مواد ہے جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور پھر وہ اپنی تسکین اور تنائو کو کم کرنے کے لیے آسان ہدف کی تلاش کرتے ہیں۔ ''جان کورٹ'' نے تو باقاعدہ متعدد یورپین ممالک میں جنسی جرائم کی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ جوں جوں معاشرے میں فحش مواد بڑھا ہے توں توں جنسی جرائم بھی بڑھے ہیں۔ مجرموں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو اسی فحش مواد سے متاثر ہو کر جنسی جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔ تحقیق کے دوران بے شمار ایسے کیسز سامنے آئے کہ مجرم جنسی جرم سے کچھ ہی دیر پہلے فحش مواد دیکھنے میں مشغول تھے۔ امام غزالی فرماتے ہیں: ''جانوروں میں خواہش ہوتی ہے، عقل نہیں۔ فرشتوں میں عقل ہوتی ہے، خواہش نہیں۔ انسان میں عقل اور خواہش دونوں ہوتی ہیں۔ اگر عقل خواہش پر غالب آ جائے تو انسان فرشتہ بن جاتا ہے اور اگر خواہش عقل پر غالب آ جائے تو انسان جانور بن جاتا ہے'' ۔ جب انسان فحش مواد دیکھتا ہے تو وہ ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی خواہش عقل پر غالب آ جاتی ہے۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے خواہش کا پجاری انسان آسان اور کمزور ہدف بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتا ہے۔

انسانوں کو جنسی زیادتی پر برانگیختہ کرنے والا فحش مواد اس قدر عام ہے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرچ میں سے 25 فیصد فحش مواد ہوتا ہے اور ہر سیکنڈ کم سے کم 30 ہزار لوگ اس طرح کی سائٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کمپنی 'مین ون' کا کہنا ہے کہ اس کے تخمینے کے مطابق تقریباً ستّر لاکھ افراد ہر روز فحش ویب سائٹ پر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت انٹر نیٹ پر صرف کم عمر بچوں کی فحش سائٹس ایک لاکھ کے قریب ہیں اور باقی فحش سائٹس کی تعداد پینتالیس لاکھ اور فحش انٹر نیٹ پیجز کی تعداد پونے چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود سائٹس پر فحش ویڈیوز سے سالانہ پچیس ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ذاتی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، کم از کم موبائل فون تو تقریباً ہر کسی کے پاس ہے جس میں کسی بھی قسم کی ویڈیوز ڈائون لوڈ کر کے دیکھی جا سکتی ہیں۔

ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد متعدد ممالک فحش سائٹس پر پابندی لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ دو ماہ پہلے برطانوی وزیر ِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ وہ فحش ویب سائٹس کو بلاک کر دیں، ایسا فحش مواد رکھنا جس میں جنسی زیادتی کی عکاسی کی گئی ہو جرم قرار دیا جائے گا۔ ''ڈیلی ٹیلی گراف'' کے مطابق یورپی پارلیمنٹ میں شامل ڈچ ممبر 'کارتیکا تمارا' نے یورپی پارلیمنٹ کے سامنے مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہر قسم کی فحاشی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ رواں سال بھارت میں سینٹر فار سوشل ریسرچ سے تعلق رکھنے والی ''رنجنا کماری'' اور ''کملیش واسوان'' نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے : ''فحش نگاری خواتین اور بچوں کے خلاف جارحیت اور جنسی تشدد کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا انٹرنیٹ پر جاری فحش سائٹس پر فوری پابندی لگائی جائے۔'' بھارت کے سنیئر قانون دان ''وجے پجوانی'' نے بھی سپریم کورٹ میں تمام فحش ویب سائٹس پر پابندی لگانے کے لیے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے '':فحش نگاری سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سفاکی و تشدد اور فحش ویڈیوز کے درمیان واضح تعلق موجود ہے۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں پر بننے والی فلموں کے اثرات کو خود ہمارا معاشرہ دیکھ رہا ہے۔'' جس کے بعد انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا اور اطلاعات و نشریات کی وزارت اور دیگر شعبوں کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ''انٹرنیٹ پر بچوں سے متعلق فحش مواد مسلسل فراہم کیا جا رہا ہے، انھیں سب وجوہات کی بنا پر سماج میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔'' یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس ملک میں جتنی زیادتی فحاشی ہے اس ملک میں جنسی زیادتی کے اتنے ہی زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ دنیا میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے ناسور کا کافی حد تک علاج فحش سائٹس پر پابندی لگا کر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ فحش سائٹس معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کا ایک بڑا محرک ہیں۔ ہمیں اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں