ایک دانا دانشور سے ملاقات
دانشور آدمی تھا چونک گیا کہ اس جواب میں کہیں اس کااپنا سراور ماتھا تو مذکور نہیں۔
KARACHI:
ہمارے پڑوس میں ایک بہت بڑا دانا دانشور رہتاہے، ان کے خیالات اتنے اونچے ہیں کہ کبھی کبھی تو اپنے خیالات کی اونچائی دیکھ کر ان کے اپنے سر سے ٹوپی گرجاتی ہے اور جب بھی ہم ننگے سر ان کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ آج پھر وہ اپنے خیالات کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی ٹوپی گراچکے ہیں۔
ایک طرح سے یوں سمجھ لیجیے کہ وہ ہرجگہ ،گھر میں، مسجد میں، بازار میں، دفتر اور مقامات کار میں تو ٹوپی پہنے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ہم پرنازل ہوتے ہوئے وہ ہمیشہ ننگے سر ہی آتے ہیں۔ویسے تو ان کے پاس دنیا کے ہرمسئلے کا حل موجود ہے یہاں تک کہ ٹرمپ کے چہرے کی بدرونقی دور کرنے اور مودی کا سایہ تک دنیا سے دفع دور کرنے کے کئی نسخے وہ ایجاد کرچکے ہیں لیکن آج کل ان کی توجہ کا ٹریگر مسئلہ کشمیرپرلگاہواہے۔
بلکہ ان کا پکاپکا یقین ہے کہ یہ مسئلہ صرف عمران خان ہی حل کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ''تحریک انصاف''ہے اور انصاف کا مادہ نصف سے ہے ،اس لیے عین ممکن ہے کہ''نصُف لی ونصُف لک''۔ پر معاملہ ڈن ہوجائے یعنی آدھی تیری آدھی میری۔جوتیرا ہے وہ تیرا ہے اور جو میرا ہے وہ میراہے۔یا جو''تیرا''ہے مجھے لینا نہیں اور جو میرا ہے اسے دینا نہیں۔ یہ ''درو گوہر''ہم پر بلکہ کشمیرپرنچھاور کرنے کے بعد وہ رومال نکال کر اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگا تو تقریباً گدی سے بھی پرے ماتھے کی ''حدود'' چلی گئی تھی، اس لیے وہ آدھے سرکوبھی ماتھے میں شامل کرکے پونچھ رہے تھے۔
یہ دل افروز،خردافروزاور حیرت افروز منظردیکھ کر پہلے توجی چاہا کہ زور زور سے ہنس پڑیں کہ جن کو اپنے ماتھے اورسر کی حدبراری معلوم نہیں وہ کہاں کہاں کی حدبراریاں کرنے پرتلے ہوئے ہیں لیکن پھرہنسی کو کسی کپڑے کی طرح الٹ کرعرض کیا ،آپ کی یہ بات تو ٹھیک ہے کہ جومیرا وہ میرا اور جوتیرا وہ تیرا لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ میرے اور تیرے کوکہاں ناپا یا تولا جائے گا؟بولا ، وہ تو''نپ''چکاہے۔ دانشور آدمی تھا چونک گیا کہ اس جواب میں کہیں اس کااپنا سراور ماتھا تو مذکور نہیں۔ بولا،آپ کا اشارہ کہیں میرے سرسے تو جڑا ہوا نہیں ہے۔یہی موقع تھا ان کوہمیشہ کے لیے ناراض کرنے اور اپنا بھیجاان کی دانش سے چھڑانے کا۔اس لیے عرض کیا۔
کچھ نہ کچھ توجڑاہواہے کیونکہ سراورماتھے میں صرف بالوں کافرق نہیں ہوتاہے بلکہ اس کے اندربھی کچھ نہ کچھ توہوتاہے، اسے آپ کس طرح تقسیم کریں گے اور اگرکریں گے توپوری کھوپڑی یعنی ماتھے اورسرکاسارا رقبہ ہی الٹ پلٹ کرنا پڑے گا۔حیرت ناک طورپر بالکل خلاف توقع، خلاف معمول، خلاف عادت اور خلاف دانش بولتے ہوئے کہا، ہاں یہ بات توہے۔کہ کشمیرصرف کھیت یا زمین نہیں ہے۔ہماری زندگی میں پہلا موقع اور شاید آخری تھاکہ ہم نے کسی دانشور کوکسی سے اتفاق کرتے دیکھا۔ورنہ دانش ور اور کسی کی بات سے اتفاق؟۔
ایں خیال است زمجال است وجنون
پھر تمہارا کیاخیال ہے کہ ماتھے اورسرمیرامطلب ہے کشمیرکافیصلہ کیسے ہوگا۔اب ہم وہ بات کہہ کر دانشوروں کے پورے''چھتے''کوپتھر تونہیں مارسکتے تھے جوہمارے دل میں ہے اورجو حق ہے لیکن یہ کرسکتے ہیں کہ اسے کہانی کی زبانی بیان کریں۔ہمارے گاؤں میں دو گڈریے تھے جواپنے اپنے ریوڑملا کرچراتے تھے۔
کھانا پینا بھی اکٹھے کیاکرتے تھے اور ایک دوسرے کے دوست بھی تھے اور دشمن بھی۔ گڈریے لوگ چونکہ سارا دن بلکہ تمام عمر عام زندگی سے کٹے رہتے ہیں اس لیے ان کی دنیابھی محدود ہوتی ہے اور عقل بھی۔یعنی تقریباً ریوڑ کے جانوروں سے قدرے''انیس بیس''کے حساب سے کچھ زیادہ۔ایک دن دونوں میں کچھ کھٹ پٹ اور ان بن ہوگئی اور معاملہ سیریس ہوتے ہوتے علیحدگی تک پہنچ گیا، دونوں نے اپنی بھیڑیں الگ کیں اور علاقے کویوں بانٹا کہ سڑک کے مشرق کا علاقہ ایک کا اور مغرب کا علاقہ دوسرے کا۔دونوں اپنے اپنے علاقے میں اپنے ریوڑ چرائیں گے اور دوسرے کے علاقے میں مداخلت نہیں کریں گے جس کا وہ علاقہ تھا۔
جہاں یہ معاملہ پہلے ''طے''اور پھر''پا''گیاتھا ،ایک کاریوڑ تووہیں تھا اور دوسرے نے اپناریوڑ ہانک کراپنے علاقے میں پہنچانے کا قصد کیا، ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیاتھا کہ پیچھے سے دوسرے نے آوازدی ٹھہرو۔ایک بات تورہ گئی۔دوسرا ٹھہرگیا ، تویہ اس کے پاس جاکربولا۔مگرتالاب تو تمہاری طرف رہ گیا اس کا کیا؟ آخر میں اپنی بھیڑوں کوپانی کہاں سے پلاوں گا؟دوسرے نے کہا ، ٹھیک ہے پانی پلانے کے لیے تم اپنا ریوڑ میرے علاقے میں لاسکتے ہو۔لیکن صرف پانی ہاں۔اگرکسی بھیڑ نے منہ نیچے کرکے چرنے کی کوشش کی تومجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔وہ تواب بھی تم سے برا کوئی نہیں ہے۔
دوسرے نے فٹ سے جواب مارا۔ہاں تیرے سوا۔پھردونوں میں ایک اور معاملہ پہلے ''طے''اور پھر''پا'' گیا۔کہ تم بھی تھوڑا تھوڑا اپنا ریوڑ میرے علاقے میں لاسکتے ہو۔اور میں بھی تمہارے علاقے میں تھوڑا تھوڑا اپنا ریوڑ لایاکروں گا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی کیونکہ دوسرے دن دونوں نے اپنے اپنے ریوڑ ملا دیے۔ ہم نے یہ کہانی دانشور کے آگے رکھی تواس نے ایک مرتبہ پھر اپنے ماتھے اور سرکورومال سے ایک کیا اور یہ کہہ کرچلا گیا کہ وہ کوئی اور حل سوچے گا۔ہم نے پیچھے سے جواب مارا کہ ہاں بہت سارے اور بھی سوچ رہے ہیں تم بھی سوچتے رہنا اور ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیافیض
اک''برہمن''نے کہاہے کہ یہ سال اچھا ہے
اور یقیناً اچھاہے کیونکہ اس دانا دانشور سے ہمارا پیچھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیاہے۔