سندھ کا نوحہ’’نمرتا‘‘
آج کل تبدیلی کی فضا میں ریاست کے قانون کا نقارہ صرف بے مصرف تبدیلی کی آواز نکال رہا ہے۔
میری حالت سندھ کے اس مضمحل باپ کی سی ہے جسے میری ریاست کا غیظ وغضب پابندی کے نام پر اپنی بیٹی کے سفاکانہ قتل پر نہ نوحہ لکھنے دے رہا ہے اور نہ میری بیٹی کے بے گناہ لہوکیے جانے پر مرثیہ پڑھنے کی اجازت، اس کیفیت میں بھلا سندھ کے کن کن زخموں کا ذکرکروں؟
حواس باختہ دکھ میں جس زخم کوکریدتا ہوں تو میرے سندھ کے لہوکی چھینٹوں میں مجھے کہیں'' فوزیہ بھٹو'' کا نوابشاہ میں لہو دکھائی دیتا ہے، توکہیں سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں'' نائلہ رند'' کی نامعلوم خودکشی کی تصویر اپنی بے بسی پر ماتم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اگر بات کا خاتمہ اسی سفاکی اور غیر انسانی فعل کے احتساب اور حکومتی نا اہلی کی کمی پر ٹہر جاتا تو میں اور میرا سندھ مسلسل اب تک آخرکیوں آنسو بہا رہا ہوتا، مجھے تو اب تک نہ'' رنکل'' کا سراغ مل سکا اور نہ ہی مجھے یہ بتایا گیا کہ میرے سندھ کے بنیادی مالک ہندوؤں کو مذہب ترک کرنے کی طرف کون سی قوتیں دھکیل رہی ہیں اورکیوں؟ طاقت کے بہیمانہ طریقوں سے میرے سندھ کے جسم کوگودا جا رہا ہے اور حکمران ہیں کہ چین کی بانسری کی قومی سلامتی دھن پر ٹھنڈے ٹھارکمروں اور بلاوجہ کی پریس کانفرنسز میں مصروف عمل ہیں۔
سوچتا ہوں کہ کیا میرے سندھ کی مائیں اپنی بیٹیوں کو اس لیے جنم دیتی ہیں کہ چند طاقتور بھیڑیئے اپنی من مرضی کے تحت میرے سندھ کی بیٹی کو ہانکیں یا اپنے حکم کا غلام بنائیں یا جب چاہیں میرے سندھ کی بیٹی کے ذہین اور بہادر ہونے کو ''عبرت''کا نشان بنا دیں؟ یہ کیسا سنسار بنا دیا گیا ہے کہ جہاں طاقت کے گدھ اپنی ہوسناکیوں میں بدمست اور ریاست کا دم بھرنے والے کنٹوپ سجائے سندھ کی دکھی نگری میں ''سب اچھا ہے'' کا راگ الاپتے پھر رہے ہیں؟ میرے سندھ کی جنم دینے والی ماں اور بیٹیوں کے باپ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ صبرکرو اور ظلم و زیادتی برداشت کرتے چلوکہ زمانے کا چلن ایسا ہی ہوتا ہے لہذا ''صبر'' کی گولی سے اپنا جی بہلا لوکہ ریاست کے حاکموں نے طے کر رکھا ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار اور طاقت کے نشے سے اس وقت ہی نکلیں گے جب سندھ کی زمین کی کوکھ '' بیٹی اگلنے'' سے مکمل بانجھ نہ کردی جائے۔
دوسری جانب لگتا ہے کہ ریاست کے ہرکارے انصاف کی نس بندی میں مصروف عمل ہیں ، ریاست میں پولیس اور عدالتی نظام کو ''صرف'' قومی سلامتی کی حفاظت کرنے کی اجازت ہے۔ باقی عدالت یا پولیس کو اس بات کی بالکل چھوٹ نہیں کہ وہ عوام کے دکھ درد کی داد رسائی کریں یا عوام کو انصاف بر مبنی معاشرے کی کوئی امید دلائیں،کیونکہ آج کل تبدیلی کی فضا میں ریاست کے قانون کا نقارہ صرف بے مصرف تبدیلی کی آواز نکال رہا ہے۔
اب اس لنگڑی لولی تبدیلی میں میرے سندھ کی بیٹی'' ڈاکٹرنمرتا ''کے سفاکانہ اور نا معلوم قتل پر اس کے بھائی ، ماں باپ اور میڈیکل کی اس طالبہ کے بہیمانہ خاتمے پر دکھی سندھ اور ہمدردی رکھنے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ''نمرتا'' کے کالج ہاسٹل میں قتل کو ''خودکشی'' اور اپنی مرضی کا قتل سمجھ کر کالج انتظامیہ اور ریاستی اداروں سے شکوہ شکایت نہ کریں بلکہ ''مرن گھر'' کے شرکاء تھپڑوں کے آگے اپنے گال کرلیں تاکہ بھرپور طمانچے دکھی لواحقین کا مقدر بنا دیے جائیں، پیغام ہے کہ ریاست ابھی دیس سے زیادہ پردیس کے انسانی حقوق کی جنگ میں مصروف، لہذا ''نمرتاکیس'' میں فی الحال سندھ کے باشندے عدالتی کارروائی کے لولی پوپ سے دل بہلائیں تاکہ ریاست پہلے پردیس واسیوں کے انسانی حقوق کی جنگ لڑ لے،جونہی ریاست اس اہم کام سے فارغ ہوگی تو سندھ میں ہندوؤں کی بہن بیٹیاں بھی محفوظ کر لی جائیں گی۔
ڈاکٹر نمرتا چندانی قتل کیس کی تفتیش کا حال اور اب تک کامنظر نامہ یہ ہے کہ تفتیش کے پہلے مرحلے میں ''تھپڑ والی سرکار'' نے ایسے غیر مستند ڈاکٹرز سے تفتیشی رپورٹ تیارکروائی ،جو واردات کی اصلیت کو چھپانے کی کوشش قرار دیے جا رہے ہیں، ڈاکٹر نمرتا کیس کی عدالتی کارروائی کے حکم کے بعد کیس کی رفتار میں مختلف حیلے بہانوں سے سست روی برتی جا رہی ہے جو ماہرین کے نزدیک اصل حقائق کو منظر عام پر نہ لانے کی ایک مذموم کوشش دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر نمرتا کے قتل کے بعد جہاں اس کے لواحقین اور برادری فکر مند اور خوف میں گھری ہوئی ہے، وہیں دوسری جانب یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ ہفتے بھر سے پورے سندھ کے شہر اور دیہات تک میں ڈاکٹر نمرتا کے قتل کی سازش کے خلاف احتجاج اور غم وغصہ کے اظہار میں شدت آرہی ہے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈاکٹر نمرتا کے بہیمانہ قتل کیس کے اس سلسلے میں عوامی سطح پر مظاہروں کا لگا تار سلسلہ بھی بے پرواہ سندھ حکومت یا انتظامیہ پر کوئی اثر ڈالنے میں اب تک ناکام ہے ، جوکسی بھی طور پر تسلی بخش عمل نہیں کہا جا سکتا۔
ڈاکٹر امرتا کے قتل کے انکشاف سے پہلے یا فوری بعد کہیں بھی اس کے کلاس فیلوزکا ذکر نہیں تھا ، مگرکچھ دنوں سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر نمرتا کے اس قتل کیس کو دوستوں کے مابین جھگڑے کی نوعیت میں تبدیل کردیا جائے ۔
گو ڈاکٹر نمرتا کیس سندھ میں خودکشی کے گھناؤنے کھیل سے پردہ اٹھانے کا وہ اہم کیس ہے جس کی شفاف تحقیقات کے بعد شاید ہم اپنے سندھ میں روزمرہ بیٹیوں کے قتل کو خودکشی کا لبادہ ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کے بھیانک کردار کو سامنے لا سکیں تاکہ سندھ کی خودکشی کے الزام میں قتل کی جانے والی بیٹیوں کے اصل قاتل اور محرکات سامنے آ سکیں۔
اس سلسلے میں ایک وقت تھا کہ انسانی حقوق کمیشن ایک فیکٹ فائنڈنگ کا مربوط نظام رکھتا تھا ، جس کے ذریعے بے گناہوں کے قتل کو منظر عام پر لانے میں مدد ملتی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب انسانی حقوق کمیشن میں معروف وکیل عاصمہ جہانگیر اور شکیل پٹھان ایسے نڈر اور انسانی درد رکھنے والے افراد متحرک تھے، مگر عاصمہ جہانگیر کی موت کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کے متحرک کردارکو کسی انجانے خوف نے آجکڑا ہے کہ سندھ میں جاری بیٹیوں کے قتل اور نام نہاد خودکشیوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پھرتی کا مظاہرہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
جس کی ضرورت سندھ میں اب پہلے سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر نمرتا کیس کے سلسلے مں اظہار ہمدردی کے قافلوں کا گھوٹکی جانا ایک مثبت اور جرات مندانہ قدم ہے جس میں سندھ کے باشعور افراد بغیر جنس کی تخصیص کے ڈاکٹر نمرتا کو انصاف دلانے میں متحرک ہیں۔ امید ہے کہ سندھ کے باشعور افراد کی یہ تحریک ڈاکٹر نمرتا سمیت سندھ کی بیٹیوں کی خودکشی کے پردے میں قتل کے اس بھیانک عمل کو عوام کے سامنے لائے گی جس سے عوام کا سیاسی اور سماجی شعور آگے آئے گا۔ باہمی دکھ بانٹنے کا یہی جذبہ ڈاکٹر نمرتا کو امر کر کے میرے سندھ کی بیٹیوں کی آزادی اور خود مختاری کا وہ استعارہ بنے گا جس ذریعے ہم سندھ کو پھر سے امن آشتی اور پیار کی ''سندھو''بنا سکیں گے کہ اب سندھ میں انصاف کی پہچان اور امید ہی ڈاکٹر نمرتا چندانی ہے۔