لیاری لٹریچر فیسٹیول ایک کامیاب کوشش
بے نظیر یونیورسٹی میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ایک امید کی نوید ہے۔
لیاری کراچی کا دل ہے جس نے تحریک آزادی کے دوران اور پھر آزادی کے بعد سیاسی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر لیاری صرف سیاسی تحریکوں میں ہی آگے نہیں رہا بلکہ ادبی ، ثقافتی اور کھیل کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں رہا ہے۔ اس نے صرف سیاستدان ہی پیدا نہیں کیے بلکہ ادیب، شاعر، صحافی،جج، فنکار ، فٹ بالرز اور باکسنگ کے نامور کھلاڑی بھی پیدا کیے۔ مکینوں نے غربت کی زندگی میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگرکیا ۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں لیاری ، گینگ وار کا شکار ہوا اور نئی صدی کا ایک عشرہ جنگ و جدل میں گزر گیا، یوں پورے ملک میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ لیاری میں صرف ٹارگٹ کلنگ ، اغواء ، تشدد اور بھتے کی وصولی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ عوام نے گینگ وار کے کارندوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ لیاری کے حقیقی امیج کو ظاہر کرنے کے لیے منظم انداز میں کوشش کی جائے، یوں لیاری میں ثقافتی سرگرمیوں کو منعقد کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ پیپلزپارٹی کے تیسرے دور میں لیاری میں خاطرخواہ ترقی ہوئی۔ لیاری میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی قائم ہوئی، ایک میڈیکل کالج بنا، بہت سے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔
بے نظیر یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ بنے۔ ڈاکٹر اختر بلوچ لیاری کی گلیوں میں جوان ہوئے ہیں۔ انھوں نے بھی زندگی کا ابتدائی حصہ طلبہ تحریک میں گزارا ہے۔ ڈاکٹر اختر بلوچ نے بے نظیر یونیورسٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔
انھوں نے نہ صرف تدریسی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے بلکہ غیر تدریسی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر اختر بلوچ ، سماجی کارکن سعدیہ بلوچ، پروین ناز اور فہیم ناز وغیرہ نے بے نظیر یونیورسٹی میں لیاری لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ یہ کسی یونیورسٹی میں منعقد ہونے والا پہلا لٹریچر فیسٹیول ہے۔ یہ فیسٹیول یونیورسٹی کی ہفتہ وار تعطیلات یعنی ہفتہ اور اتوار 21 اور 22 ستمبر کو منعقد ہوا۔ اس فیسٹیول میں ادب، شاعری، صحافت، ماحولیات اور تجاوزات کے مسائل،ٹی وی شو، شہری مسائل، لیاری کی صورتحال، انتہاپسندی کے خاتمے میں کلچر اور یونیورسٹیوں کے کردار اور دیگر موضوعات پر سیشن منعقد ہوئے۔
پھر مشاعرہ ہوا۔ ایک دن قوالی ہوئی، موسیقی کے پروگرام منعقد ہوئے۔ مختلف قومیتوں کی ثقافتی زندگی اور مختلف علاقوں کی موسیقی پر ڈاکیومینٹری دکھائی گئی۔ بلوچ ثقافت کے ورثہ کی نمائش کے لیے اسٹال لگے۔ مختلف پبلشرز نے کتابوں کے اسٹال لگائے۔ ان اسٹالوں پر اردو، سندھی، بلوچی اور انگریزی زبان کی کتابیں رکھی گئیں۔ یوں اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔
ان میں خواتین کی بھاری تعداد بھی شامل تھی۔ نوجوان لڑکیاں بلوچ کڑھائی والے کپڑوںمیں ملبوس فیسٹیول میں دودن تک متحرک رہیں۔ فیسٹیول میں لیاری کے شاعروں،ادیبوں کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے شاعر ن م دانش جو عرصہ دراز سے امریکا میں مقیم ہیں انھیں بھی یاد کیا گیا۔ لٹریچر فیسٹیول کا تصور بھارت کے شہر جے پور سے آیا۔ جے پور ایک تاریخی شہر ہے۔ اس شہر میں راجستھانی ثقافت کی نمایندگی کرنے والی عالیشان عمارتیں موجود ہیں۔
دنیا بھر سے ادیبوں، شعراء، فنکاروں کو تین دن تک جے پور میں جمع کیا جاتا تھا۔ ان تین دنوں میں بہت سے موضوعات پر سیشن منعقد ہوتے تھے۔ اس فیسٹیول کا ایک بڑا مقصد سیاحت کو ترقی دینا تھا۔ دنیا بھر سے سیاح تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے جے پور جاتے ہیں۔ اس لٹریچر فیسٹیول سے سیاحت کے شعبہ کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔
کتابوں کے بین الاقوامی پبلشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کراچی میں لٹریچر فیسٹیول شروع کیا۔ یہ فیسٹیول کراچی شہر کا ایک بڑا ادبی ایونٹ بن گیا۔ اس فیسٹیول میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب، شعراء، تاریخ دان، صحافی، فنکار اور انسانی حقوق کے کارکن مدعو ہوتے اور دنیا بھر کے موضوعات پر ماہرانہ رائے دیتے، یوں کتابوں کے اسٹال لگتے۔ ڈاکیومینٹریز دکھائی جاتیں، موسیقی پیش کی جاتی، ہزاروں افراد پورے سندھ سے اس فیسٹیول میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ پھر لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد وغیرہ میں بھی لٹریچر فیسٹیول منعقد ہونے لگے۔
کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے سندھ لٹریچر فیسٹیول منعقد ہوتا ہے۔ اس فیسٹیول میں ادیب، شعراء، دانشور، فنکار اور اساتذہ کو مدعو کیا جاتا ہے جو مختلف سیشن میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اس فیسٹیول میں اردو اور سندھی بولنے اور لکھنے والے ادیب، شاعر اور اساتذہ بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہیں۔ اس سال کے شروع ہونے والے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے مہمان خصوصی دور حاضر کے مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی تھے۔
جنھوں نے سندھ کی تاریخ اور عوامی تاریخ کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی تھی مگر لیاری لٹریچر فیسٹیول اپنی نوعیت کا منفرد فیسٹیول تھا۔ اس فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ لیاری کے نوجوانوں کی تعداد خاصی تھی جس میں نوجوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ شہر کے مختلف علاقوں سے نوجوان آئے تھے۔
کچھ نوجوان تو بلوچستان سے بھی آئے تھے۔ اس طرح جو مختلف موضوعات اس فیسٹیول میں زیر بحث رہے وہ زندگی کے بنیادی معاملات کے بارے میں تھے۔ ان موضوعات پر اظہار خیال کرنے والوں میں نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ زیادہ تھے۔ اس فیسٹیول میں لیاری کے نوجوانوں کو خوب اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر آصف علی آصف نے اردو مشاعرہ میں اپنی نظم ''منظوم'' پیش کی۔
لیاری کے پرانے سیاسی کارکن عثمان بلوچ نے لیاری میں تجاوزات اور ماحولیات کے موضوع پر ہونے والے سیشن میں کہا کہ لیاری کے قدیم باسیوں کو نظرانداز کیا گیا اور باہر سے آنے والوں نے حالات خراب کیے مگر قدیم باسیوں نے جدوجہد کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ اسی طرح ایک سماجی کارکن سعید بلوچ نے کہا کہ ایک زمانے میں لیاری میں جامن اور دیگر پھلوں کے درخت ہر طرف نظر آتے تھے، یوں ماحول بہتر تھا، کے ڈی اے والوں نے درخت کاٹ دیے۔
کنکریٹ کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت ہوگئی۔ لیاری کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوگیا اور ماحولیات تباہ ہوگئی۔ ناہید اسرار نے ایک سیشن میں کہا کہ کراچی کے عوام میں زبردست تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ ان کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہر رکشہ اور بس کے پیچھے لکھی ہوئی شاعری اور تصاویر سے ہوتا ہے۔ معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ تخلیقی ذہن انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ سرکاری یونیورسٹی میں موسیقی، رقص، قوالی، شاعری اور آزادی رائے کا اظہار طلبہ اور اساتذہ کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔
بے نظیر یونیورسٹی میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ایک امید کی نوید ہے۔ انتہاپسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی اور رقص انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ فیسٹیول نے لیاری کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ لٹریچر فیسٹیول ایک غیر سرکاری تنظیم ''مہردر پروڈکشن'' نے بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد کیا۔یہ مہر در پروڈکشن اور بے نظیر یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کی پہلی کوشش تھی جس پر یہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ایسے فیسٹیول صوبے کی ہر یونیورسٹی میں منعقد ہونے چاہئیں۔