امت مسلمہ کی تباہی کیوں…

بلاشبہ دنیا اور آخرت کے کاموں میں توازن قائم رکھنا ہی ہمارے لیے راہ نجات ہوسکتا ہے۔


قمر عباس نقوی October 04, 2013

پوری دنیا میں مجموعی طور پر آبادی کے اعتبار سے امت مسلمہ کا شمار عیسائیت کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اسلام ایک آفاقی اور بلا امتیاز رنگ، نسل، ذات، مذہب، زبان انسانیت کی بھلائی کا دین ہے۔ عفو و درگزر، صبر و استقامت، غرض کہ کائنات میں رہنے والی ہر زندہ مخلوق سے دلی محبت و پیار کی لازوال تربیت کا حصول اور اس پر عمل درآمد صرف اور صرف دین کے مکمل نفاذ ہی سے ممکن ہے۔ پاکیزہ ذہنی خیالات و جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے رہنما اصول بھی بذریعہ اسلام دنیا کے طول و عرض تک پھیلے۔ حقوق اﷲ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی پاک و مقدس تعلیمات اور آخری الہامی کتاب ''قرآن مجید'' میں خصوصی تلقین کی گئی ہے۔ دین حنیف کسی جبر اور ظلم کا نام نہیں بلکہ بھائی چارگی، محبت و پیار، اچھے اور مثبت اخلاق کا نام ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کس طریقے سے طاغوتی قوتیں بڑی کامیابی سے اسلام اور امت مسلمہ کی باہمی قوت و اتحاد کو تقسیم کرکے ان میں فتنہ و انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ مذہب کی طرف جنونی حد تک لگائو، جب کہ دین کی ترجیحات میانہ روی ہے۔ دنیا میں اس طرح زندگی گزارو کہ دنیا بھی قائم رہے اور آخرت کا سامان بھی تیار ہوتا رہے۔ بلاشبہ دنیا اور آخرت کے کاموں میں توازن قائم رکھنا ہی ہمارے لیے راہ نجات ہوسکتا ہے۔

کویت پر امریکا کا غاصبانہ قبضہ، مشرقی وسطیٰ کے دو مسلم ممالک ایران اور عراق کے درمیان طویل خلیج پیدا کراکے ایک خونخوار جنگ کو مسلمانوں پر مسلط کرنا۔ کیونکہ جنگ تباہی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ لیبیا پر اپنی طاقت کے ذریعے وہاں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی، فلسطین میں ایک طویل عرصے سے جاری یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام، مصر میں اندرونی سیاست میں انتشار، بھارت کے زیر کنٹرول مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کی خوبصورت سر زمین آزاد جموں و کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم کی داستانیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس وقت بھی پوری دنیا کے ذرایع ابلاغ عامہ اور الیکٹرانکس میڈیا کی توجہ کا مرکز مشرقی وسطیٰ کا ایک اہم مسلمان ملک شام بیرونی قوتوں کے ذاتی مفادات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ گو کہ حالیہ اطلاعات کے مطابق روس کی سفارتی مداخلت کی مدد سے معاملات سرد مہری اختیار کرگئے ہیں۔ بقول دانشور بزرگ کے سب سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دشمن کی شناخت کرو، اس کا پیچھا کرو اور اس سے بچائو کی حکمت عملی تیار کرو۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مساجد، امام بارگاہیں، مذہبی عبادت گاہیں تو دہشت گردی کا شکار تو تھیں ہی اور اب عیسائیوں کے گرجا گھر بھی مبینہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے۔

مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مصروف ترین شہر کراچی کے مختلف حصوں میں کھلے ہوئے شراب کے اسٹورز سرِعام شراب کی فروخت میں مصروف ہیں مگر آج تک کہیں یہ خبر سننے کو نہیں ملی کہ ان شراب خانوں پر بھی جہادی اور عسکری تنظیموں کی طرف سے تخریب کاری اور خودکش دھماکے کیے گئے ہوں۔ صرف مسلمانوںکے مختلف مکاتب فکر کی مساجد و امام بارگاہوں، عیسائی بھائیوں کی عبادت گاہوں پر خون ریز حملے کیوں؟ یہ ایک اہم سوالیہ نشان ہے جو ذی شعور انسان کے لیے غور طلب ہے۔ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر عقل و شعور کے بجائے جذباتیت کے مرض میں مبتلا ایک قوم ہیں۔ مسلمان دشمن قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ ہم ترقی اور معاشی خوشحالی کے بجائے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مہلک امراض کا شکار ہوجائیں۔ جنگوں کا مزاج یکسر بدل چکا ہے اب سائبر اور سول وار کا زمانہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں واقع بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان میں واقع 18 کروڑ کی آبادی پر مشتمل ''پاکستان'' اسلامی ایٹمی طاقت تو بن چکا ہے مگر بدقسمتی سے اندرونی اقتصادی، سیاسی، سماجی انتشار اور شدید کرپشن کا شکار ہے۔ توقع ہے ایران بھی عنقریب ایک ایٹمی قوت بن جائے گا۔

امت مسلمہ کی مثال اس کھجور کے درخت کی ہے جو بے پناہ خداداد خوبیوں کا مالک ہے۔ کھجور کا درخت ایک ایسا درخت ہے جس میں سراسر بھلائی پنہاں ہے، وہ سایہ دار ہونے کے علاوہ پھل بھی دیتا ہے، گھٹلیاں اونٹوں کی خوراک بن جاتی ہیں، پتیاں چٹائیاں بنانے میں بے حد مفید ثابت ہوتی ہیں، جب کہ تنا اور شاخیں مکان کی تعمیر میں استعمال ہوجاتی ہیں، جنھیں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غرض مشرقی وسطیٰ کا یہ روحانی درخت ہر لحاظ سے منافع بخش ہے۔ اس کی ضروریات بھی محدود ہیں۔ یہی حال امت مسلمہ کا ہے، مسلمانوں کی زندگی اور شخصیت اس کے اقوال اور افعال، بے کار اور بے معنی نہیں۔ وہ دوسروں کا مدد گار اور آپ کے دکھ سکھ میں شریک کار رہتا ہے۔ دنیا میں اس کا وجود بجائے زحمت کے رحمت کا باعث ہے۔ گویا وہ ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں آسمان کی وسعت کو چھو رہی ہیں، وہ ہمیشہ پھل دار درخت ہونے کی وجہ سے سارا سال کھجور کی پیداوار وافر مقدار میں جاری رکھتا ہے۔ اس درخت کی طرح مسلمان کی دنیاوی ضرورت بڑی محدود ہیں۔ وہ نامساعد حالات میں بھی زندگی گزار لینے کے فن سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔

آپ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ فرقہ واریت کا کہیں تصور تک نہیں تھا۔ خداداد مملکت پاکستان تمام فرقوں اور مسلکوں کے باہمی اتحاد کا ہی ثمر ہے۔ کسی قسم کا تضاد نہ پہلے تھا نہ اب ہے، نہ مستقبل میں ہو گا، ہم ایک اﷲ اور رسول ﷺ کی امت ہیں۔ ہر سال محرم اور ربیع الاول کے مقدس مہینوں میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ، ان کے اہل خانہ اور رفقائے کار کی لازوال قربانیوں کی یاد میں مجالس کا سلسلہ اور روح پرور محفلوں کا انعقاد بلا تفریق تمام مسالک کی جانب سے نہایت عقیدت و احترام سے کرانا، باہمی اتحاد ہی کا نتیجہ ہیں۔ غرض منزل سب کی ایک ہے، بس تھوڑے سے طریقوں میں فرق ہے۔

سید علی رضا زیدی نے بچپن میں اپنے والد صاحب کے سنائے ہوئے قصے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے جو حقیقت میں کسی حد تک امت مسلمہ پر ٹوٹنے والی قیامت کی وجوہات کی عکاسی کرتا ہے۔ ''ایک ریاست میں ایک طاقتور جادوگر رہا کرتا تھا، وہ بے انتہا سفاک و ظالم تھا، دور دور تک لوگ اس کی ہیبت سے خوفزدہ تھے۔ ایک بستی میں رہائش پذیر خوبصورت شہزادی کو اس نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے بزور قوت اغوا کرلیا۔ کسی بھی شخص کی اتنی جرأت نہیں تھی کہ جادوگر کا مقابلہ کرسکے اور شہزادی کو اس کے چنگل سے چھڑائے۔ بے بس لوگوں نے اس کی رہائی کے لیے بستی کے ایک نامور دلیر جوان کو یہ ذمے داری سونپی۔ چنانچہ نوجوان نے جادوگر سے مقابلے کا تہیہ کرلیا اور شہزادی کو آزاد کروانے کے لیے روانہ ہوگیا۔ جب وہ اپنی منزل پر رواں دواں تھا تو راستے میں اسے ایک پری ملی اور اس نے نوجوان سے پوچھا تم کہاں جا رہے ہو؟ نوجوان نے پری کو سارا واقعہ سنایا، جس پر پری نے اس کے نیک کام میں مدد کرتے ہوئے اسے مشورہ دیا کہ اگر تم اس جادوگر کو زیر کرنا چاہتے ہو تو میں جادوگر کی ایک کمزوری بتاتی ہوں۔ پری نے نوجوان کو بتایا ''جادوگر کی جان ایک بلبل نما پرندے میں محفوظ ہے، اگر تم اس پرندے کو کسی بھی طریقے سے اپنے حصار میں لے لو تو یکدم جادوگر کی طاقت ختم ہوجائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔''

آج کے عالمی تناظر میں یہ طاقتور جادوگر مغربی استحصالی قوتیں ہیں اور بلبل نما پرندہ اسرائیل ہے۔ جادوگر کے ہاتھوں قید شہزادی اسلامی غیرت اور حمیت کا نام ہے۔ یہ راز عرب کے چند مٹھی بھر غیور لوگوں نے سمجھ لیا مگر افسوس کہ حکمران اس سے خائف اور قطعی ناواقف ہیں۔ پس صہیونی قوتوں پر امت مسلمہ کا غلبہ اسی صورت ممکن ہے جب تحقیق اور تخلیق کے شعبوں میں متحد ہوکر کام کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں