100 روزہ حکومت کا احوال
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے
وزیراعظم نواز شریف کی تیسری حکومت نے برسر اقتدار آنے کے سو دن مکمل کرلیے۔ کرکٹ کی زبان میں اسے سنچری اسکور کرنا کہا جائے گا۔ اگرچہ یہ کوئی طویل مدت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جائے یا کوئی آخری فیصلہ صادر کردیا جائے، تاہم اس عرصہ حکمرانی کو موسمیاتی آلہ بیرومیٹر کے طور پر ضرور استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا موازنہ پی پی پی کی سابقہ حکومت کے ساتھ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ سابقہ حکومت کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد صرف 125 تھی جس کی وجہ سے اسے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسے اگر ساجھے کی ہنڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور ساجھے کی ہنڈیا اکثر چوراہے پر ہی پھوٹا کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پوزیشن اس سے بہت مختلف ہے کیونکہ اسے قومی اسمبلی میں نہ صرف سادہ اکثریت حاصل ہے بلکہ اپنے پارلیمانی حلیفوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ 342 ممبران پر مشتمل ایوان زیریں میں پی ایم ایل (ن) کو 187 نشستیں حاصل ہیں جوکہ عددی اعتبار سے بہت اچھی برتری ہے۔ چنانچہ اس سے اچھے آغاز کی توقع دیکھنا ایک فطری امر تھا۔ اس کے پاؤں میں مجبوری کی ایسی کوئی بیڑیاں نہیں پڑی ہوئی تھیں جیسی سابقہ حکومت کے پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں جو حقیقتاً پا بہ جولاں تھی۔ سابقہ حکومت کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ کوئی بھی بڑا فیصلہ اپنی حلیف کی مرضی و منشا کے خلاف کرسکے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے مگر اس کے باوجود فیصلہ سازی میں اس کے قدم انتہائی سست نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اس میں خود اعتمادی کا فقدان ہے جس کی اس سے توقع نہیں تھی۔ مثال کے طور پر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے قیام ہی کو لے لیجیے جنھیں پارلیمان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اس میں غیر معمولی تاخیر نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ قوت ارادی کی کمی کی غمازی کرتی ہے۔ ابتدائی 30 دن کی مقررہ حد گزرنے کے بعد بحران کا انتخاب اگر بمشکل تمام عمل میں آیا بھی تو ان کے چیئرمینوں کی تقرری کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے ارباب حکومت کی عدم دلچسپی کا نتیجہ کہا جائے یا سست روی کا؟ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کا رویہ اس لمحہ قطعی مختلف تھا۔ ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے بے شمار الزامات سے قطع نظر یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ موصوف اپنے چار سالہ دور میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ اسی طرح ان کی کابینہ کے ارکان کی حاضری بھی مقابلتاً بہت بہتر تھی۔ قائد پارلیمان کی حیثیت سے وزیر اعظم پارلیمان میں باقاعدگی کے ساتھ تشریف نہیں لاتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ صرف ضرورت پڑنے پر ہی پارلیمان کے اجلاس میں شرکت فرماتے ہیں۔
24 جون کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اسمبلی میں یہ اعلان کرنے کے لیے آئے تھے کہ ان کی حکومت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ 30 اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے اختتام کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں نے حکمراں جماعت پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ ٹریژری بینچوں کو ایوان کی کارروائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آگے کی نشستوں سے وزرائے کرام غیر حاضر تھے۔
اس کے علاوہ اسمبلی کا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اجلاس کے ایجنڈے پر کم ہی عمل کرتی ہے۔ بلوچستان کے اہم ممبر پارلیمان محمود خان اچکزئی کو ایک مرتبہ اسمبلی کے اسپیکر صاحب سے خصوصی درخواست کرنا پڑی کہ وہ ایوان کو قواعد کے مطابق چلائیں بصورت دیگر انھیں ایوان کی کارروائی میں شرکت نہ کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔ ایوان جس انداز میں کام کر رہا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 100 دن کے عرصے میں صرف ایک ہی بل منظور ہوسکا اور وہ بھی محض اس وجہ سے کہ قومی بجٹ برائے سال 2013-14 کو منظوری دینا مطلوب تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی یہ سست روی پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کے قانون سازی کے ریکارڈ کی یاد تازہ کرتی ہے جس میں آئین کی 18 ویں ترمیم جیسی اہم پیش رفت بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اس سست روی کے مظاہر ہمیں بعض دیگر اہم شعبوں میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں ، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے لیے ابھی تک کوئی وزراء منتخب نہیں کیے گئے ہیں۔ یہی حال سفارتی تقرریوں کا بھی ہے جس میں واشنگٹن جیسا اہم ترین سفارت خانہ بھی شامل ہے جس کے لیے تاحال کوئی مناسب امیدوار تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح کی صورت حال قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی تقرری میں بھی دیکھی گئی ہے۔
اب آئیے ان معاملات کی طرف جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ وطن عزیز کے عوام سے ہے، جس میں دہشت گردی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال کوہاٹی بازار کے گرجا گھر کا سانحہ ہے جس میں نہ صرف بہت سی قیمتی جانیں ضایع ہوئی ہیں بلکہ اقلیتی فرقے کے عدم تحفظ کی وجہ سے ملک کی ایسے وقت پر بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے جب وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا گئے ہوئے تھے۔ دوسرا اہم عوامی مسئلہ بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ کا ہے جس نے عوام کی زندگیاں اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے عوام سے بلند بانگ دعوے کیے تھے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اپنی شدت کے ساتھ جوں کا توں عذاب بنا ہوا ہے بلکہ بجلی کے نرخوں میں پے در پے ظالمانہ اضافے سے عوام بری طرح بلبلا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے 100 روزہ دور حکومت میں عوام پر جو پٹرول بم داغا گیا ہے اس کے نتیجے میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 98 روپے سے بڑھ کر 110 روپے ہوگئی ہے اور حکومت کی جانب سے عوام پر عنقریب ایک اور پٹرول بم گرایا جائے جس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور عام آدمی کی زندگی بد سے بدتر ہوجائے گی۔ اس سے قبل دال آٹے کے بھاؤ اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے گرانی کی لہر کو خطرناک حد تک پہنچادیا ہے اور خدشہ ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک ہولناک طوفان آنے والا ہے جو غریب عوام کو خس و خاشاک کی طرح بہاکر لے جائے گا۔ دوسری جانب عام آدمی کے زیر استعمال آنے والے موبائل فون کے لوڈ ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھاکر 25 فیصد کردیا گیا ہے جب کہ ٹی وی لائسنس کی فیس 25 روپے سے بڑھا کر 60 فیصد کردی گئی ہے۔
اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔ دوسری جانب ممبران پارلیمان کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ بے چارے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں رو پیٹ کر صرف 10 فیصد اضافہ کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی ہے۔ امریکی ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں ہی ہوا ہے اور پاکستانی روپے کی بے توقیری بھی اسی کے کھاتے میں شامل ہے۔ ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں متحارب گروپوں کے تصادم کی خبریں بھی روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں اور قتل و غارت گری، لوٹ مار، ڈکیتی، اغوا اور ریپ جیسے سنگین جرائم کے واقعات میں بھی کمی ہونے کے بجائے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہے مسلم لیگ (ن) کی 100 روزہ جمہوری حکومت کا مختصر احوال۔
البتہ دہشت گردی کے مسئلے کے لیے گزشتہ دنوں اے پی سی کا انعقاد اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ڈرون حملوں کی جانب اقوام عالم کی توجہ دلانا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دو مستحسن اقدامات ہیں جو یقینا قابل تعریف ہیں۔