پولیس اور بیوروکریسی کی جنگ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کمزور ہو رہے ہیں

پولیس اصلاحات لازمی ہونا چاہئیں اور اس میں کوئی دباؤ یا بلیک میلنگ برداشت نہ کی جائے۔


رضوان آصف October 02, 2019
پولیس اصلاحات لازمی ہونا چاہئیں اور اس میں کوئی دباؤ یا بلیک میلنگ برداشت نہ کی جائے۔

وفاقی و صوبائی حکومت کی عدم توجہ،کمزور پالیسیوں اور مضبوط حکومتی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری محکموں کی ناقص کارکردگی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدارکی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اٹھانے لگی ہے۔

حکومتی،انتظامی اور معاشرتی ڈھانچہ مفلوج ہو چکا ہے اور سرکاری محکمے اپنے بنیادی فرائض کی بخوبی انجام دہی میں بھی کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی اس حکومتی اور محکمانہ خامیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔

عمران خان کی جانب سے پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کے دعووں کو پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کی خوفناک حد تک بڑھتی وارداتوں اور پولیس تشدد سے ہلاکتوں اور جرائم کے واقعات کی کمزور تفتیش نے چکنا چورکردیا ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ سنگین واقعات پولیس تشدد اور معصوم بچوں کے اغوا،زیادتی اور قتل کے حوالے سے سامنے آئے ہیں اور حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں قصور کے ایک دیہی علاقے میں پورنو گرافی سکینڈل منظر عام پر آیا تھا جبکہ اس کے بعد زینب کیس میں 10 سے زائد معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے معاملے نے پورے ملک میں خوف وہراس پیدا کردیا تھا۔ ن لیگی حکومت اتنے بڑے معاملے کو ٹیسٹ کیس بنا کر مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے پالیسی بنانے میں ناکام رہی اور تحریک انصاف کی حکومت نے بھی بچوں کے اغواء اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی۔

دو روز قبل چونیاں کے انڈسٹریل ایریا سے اغواء شدہ تین معصوم بچوں کی لاشیں بھی وزیر اعلی عثمان بزدار کی محکمانہ گرفت اور پالیسی میکنگ کی صلاحیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہیں ،گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران پنجاب میں بچوں کے اغواء، زیادتی اور قتل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔کچھ عرصہ قبل لاہور کے علاقہ گجر پورہ میں تین سالہ بچی حبہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا، 12 سالہ زہرہ کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا جبکہ اسلام آباد میں 10 سالہ بچی فرشتہ کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا لیکن وفاقی و صوبائی حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے ایک قابل عمل حکمت عملی بنا سکی اور نہ ہی پنجاب پولیس نے کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔

چونیاں میں قتل ہونے والے تینوں معصوم بچے دو ماہ کے عرصہ میں مختلف مقامات سے اغواء ہوئے تھے لیکن دو ماہ تک پولیس ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پورنو گرافی سکینڈل اور زینب کیس کے بعد حکومت اور پولیس حکام نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے حوالے سے زیادہ سنگین کیسز قصور سے سامنے آرہے ہیں تو خصوصی توجہ اس شہر پر دی جائے۔

پنجاب میں بچوں کے اغواء، جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ واقعات لاہور ڈویژن میں پیش آئے ہیں، قصور بھی لاہور ڈویژن میں شامل ہے۔ پولیس تشدد کے بڑھتے واقعات عمران خان اور عثمان بزدار کی''بے بسی'' کا ثبوت ہیں۔ نئے پاکستان میں تھانہ کلچر بدلنے کے دعویدار پرانی پولیس کا رویہ بدلنے میں ناکام رہے ہیں، تھانوںمیں عوام کی تذلیل تو کی جاتی تھی لیکن اب اعلی پولیس افسروں کے دفاتر میں بھی عوام کو ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی حالیہ مثال آئی جی آفس میں ایک 80 سالہ خاتون کے ساتھ تھانیدار کی بدتمیزی کی ویڈیو میں سامنے آئی ہے۔ نجی عقوبت خانوں اور پولیس تشد د سے ملزمان کی ہلاکت کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔

رحیم یار خان پولیس کی حراست میں صلاح الدین کی پولیس تشدد سے ہلاکت اور لاہور میں سی آئی اے پولیس ملازمین کے نجی عقوبت خانے میں عامر نامی شخص کی ہلاکت کے واقعات نے سول سوسائٹی کو خوفزدہ کردیا ہے۔ اس سے قبل ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی جانب سے ایک خاندان کے 4 افراد بشمول ایک معصوم بچی کو قتل کیئے جانے کے واقعہ نے بھی عوام میں خوف پیدا کردیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعہ پر سخت ایکشن لینے اور پولیس نظام میں انقلابی تبدیلیوں کا وعدہ کیا تھا لیکن نہ تو نظام تبدیل ہو سکا اور نہ ہی مظلوم خاندان کو مکمل انصاف ملا بلکہ محکمہ پولیس نے روایتی طریقوں سے اس کیس کو الجھا کر کمزور بنا دیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس اصلاحات کا ارادہ کیا تو پنجاب میں پولیس اور سول بیوروکریسی ایکدوسرے کے مد مقابل آگئی اور اس وقت ''گھمسان کارن'' پڑا ہوا ہے ، پولیس افسروں کی جانب سے ''بغاوت'' کے اشارے دیئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب سول بیوروکریسی اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے بھرپور لابنگ میں مصروف ہے۔ سردار عثمان بزدار کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اس قدر الجھ جائے گا۔

لہذا اب یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ویسے تو اجتماعی طور پر پاکستان کی پولیس کی ساکھ بہتر نہیں ہے لیکن پنجاب پولیس اپنی بربریت، رشوت ستانی ،سیاسی خدمت گزاری اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے۔ پنجاب پولیس ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس ہے اور اس کا سالانہ بجٹ 115 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ پنجاب پولیس شاید سب سے زیادہ سیاست زدہ محکمہ ہے کیونکہ ہر حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے ،اراکین اسمبلی نے اپنے حلقوں میں اپنی برتری قائم کرنے کیلئے اس کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔

اس وقت ایس ایچ او سے لیکر ڈی پی او تک تقریبا 85 فیصد عہدوں پر وہ لوگ تعینات ہیں جنہیں سفارش کے زور پر یہ پوسٹنگ ملی ہے۔جب کوئی افسر کسی مخصوص مقام پر پوسٹنگ لینے کیلئے سفارش کا استعمال کرتا ہے تو اس کا مقصد اپنے''عزائم'' اور''اہداف'' کی تکمیل ہوتا ہے۔تین دہائیوں سے ہر حکومت تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا نعرہ مارتی چلی آئی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا ہے، عمران خان نے خیبر پختونخوا میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران پولیس اصلاحات کے حوالے سے کافی توجہ دی اور اس کے کسی حد تک مثبت اثرات بھی سامنے آئے اس حوالے سے سابق آئی جی ناصر درانی نے بہت کام کیا ہے لیکن پنجاب کا معاملہ مختلف ہے۔

یہاں کا کلچر خیبر پختونخوا سے مختلف ہے وہاں کی پولیس نرم مزاج اور مقامی روایات کی پاسدار ہے جبکہ پنجاب پولیس سخت گیر اور آمرانہ انداز سے کام کرتی ہے۔ پنجاب پولیس کے حوالے سے اعلی عدلیہ کے تحفظات اور سخت ریمارکس بھی سامنے آتے رہتے ہیں اور تمام سنجیدہ اور باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ پولیس میں تطہیر اور تنظیم نو ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔تفتیش کا نظام تباہ و برباد ہو گیا ہے، جس کے گلے میں پھندا فٹ آجائے وہی پولیس کے نزدیک مجرم بن جاتا ہے۔

پولیس کے اندر احتساب کا نظام کمزور ہونے کی وجہ سے اب نئی اصلاحات کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ بھی اہم ہے کہ پولیس کے ساتھ بعض معاملات میں زیادتی بھی ہوتی ہے۔ تفتیش کیلئے فنڈز کم ہیں، پٹرولنگ کیلئے پٹرول کم ہے جبکہ 8 گھنٹے کی بجائے 16 گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔ سول بیوروکریسی کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پولیس پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور اسی لئے ماضی میں شہباز دور حکومت میں بھی یہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔

پولیس اصلاحات لازمی ہونا چاہئیں اور اس میں کوئی دباؤ یا بلیک میلنگ برداشت نہ کی جائے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سول اور پولیس بیوروکریسی میں اختیارات، چیک اینڈ بیلنس میں توازن برقرار رکھا جائے تا کہ کوئی ایک سروس گروپ دوسرے کو اپنا''اسیر'' نہ سمجھنے لگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں