جزیرہ جو اچانک نمودار ہو گیا

لوگ جزیرے پر جانے سے گریز کریں کیونکہ یہ اچانک واپس سمندر میں گم ہوسکتا ہے۔


Muhammad Akhtar October 06, 2013
آخر یہ جزیرہ کیسے ابھر آیا اور کیا یہ بھی پہلے کی طرح سال ڈیڑھ سال بعد غائب ہوجائے گا؟ فوٹو : فائل

گذشتہ ماہ کے اواخر میں جہاں بلوچستان بالخصوص آواران کے علاقے میں زلزلے سے سینکڑوں ہلاکتیں لوگوں کے لیے سوگواری کا باعث بنیں، وہیں یہ زلزلہ لوگوں کے لیے ایک حیرت بھی لے کر آیا۔

7.7 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے باعث پاکستانی صوبے بلوچستان کے بہت سے علاقے لرز اٹھے لیکن کچھ دیر بعد گوادر کے مکین یہ حیرت انگیز منظر دیکھ رہے تھے کہ ساحل سے کچھ فاصلے پر ایک جزیرہ نمودار ہو گیا تھا۔

ساحلی شہر گوادر کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ منظر دوسری مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔1968ء میں بھی ایک زلزلہ آیا تھا اور اس کے نتیجے میں ایک جزیرہ سمندر میں ابھر آیا تھا تاہم یہ جزیرہ زیادہ دیر قائم نہ رہا اور صرف ایک سال بعد دوبارہ سمندر میں غائب ہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ صرف 1968ء نہیں بلکہ برطانوی ریکارڈ کے مطابق 1940ء میں بھی ایک ایسا جزیرہ سمندر میں نمودار ہوا تھا اور صرف چند ہفتوں بعد غائب ہوگیا تھا۔



ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ جزیرہ ابھرنا اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ زلزلہ بہت زیادہ شدت کا تھا کیونکہ طاقتور شدت کا زلزلہ ہی سمندرکی تہہ سے بھی نیچے موجود مواد کو اس طرح باہر کی جانب دھکیل سکتا ہے۔انہوں نے عوام کو بھی خبردار کیا کہ وہ اس جزیرے پر جانے سے گریز کریں کیونکہ یہ اچانک واپس نیچے کی طرف دھنس سکتا ہے۔انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو وہاں جانے سے باز رکھے۔یہ جزیرہ گوادر کے ساحل سے صرف آٹھ سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ساحل پر سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

جزیرے کیسے ابھرا؟
آخر یہ جزیرہ کیسے ابھر آیا اور کیا یہ بھی پہلے کی طرح سال ڈیڑھ سال بعد غائب ہوجائے گا؟ زلزلے کے علم کے ماہرین یا Seismologists کا کہنا ہے کہ یہ جزیرہ ایک عارضی صورت ہے جو مٹی کے آتش فشانی دھماکے کے باعث زمین کی تہہ سے اوپر آگیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ سمندر کی تہہ سے بھی نیچے موجود مٹی کا پہاڑ ہے جو آتش فشاں کے پھٹنے سے سمندر کے اوپر آگیا۔یہ مٹی ، ریت اور پانی کا مرکب ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی لامونٹ ڈوہرٹی ارتھ آبزرویٹری (Lamont Doherty Earth Observatory at Columbia University) سے وابستہ سسمالوجسٹ جون آرم برسٹر اس واقعے کی ان الفاظ میں توجہیہ رپورٹیں کرتے ہیں: ''زلزلے کے نتیجے میں زیرزمین موجود ایک ریتیلی پرت لرزی اور مٹی کے ساتھ مل کر سخت ہوگئی ۔ اس نے سخت ہوکر پانی پر دباؤ ڈالا اور یہ اوپر کی طرف پھوٹ پڑی اور یوں مٹی اور ریت کا ایک پہاڑ جزیرے کی شکل میں سطح آب پر ابھرآیا۔''

اگرچہ مٹی اور ریت پر مشتمل مائع کی تہہ ہر زلزلے کے بعد بنتی ہے تاہم اس قسم کے ''جزیرے'' عام طورپر 7 یا 8 شدت کے طاقتور زلزلے کے بعد ہی ابھرتے ہیں ۔آرم برسٹر کا کہنا ہے کہ زلزلے کے مرکز سے جزیرے کا جو فاصلہ ہے وہ خاصا حیران کن ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اس جزیرے پر موجود بھل خاصی نرم ہے۔

آرم برسٹر نے برطانوی ہندوستان کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1940ء کی دہائی میں اسی طرح کا ایک جزیرہ اس وقت سمندر سے ابھرا تھا جب کراچی کے نزدیک شدید زلزلہ آیا تھا۔برٹش انڈین جیالوجیکل سروے کے ریکارڈ کے مطابق یہ جزیرہ بالکل نیا اور اتنا بڑا تھا کہ لوگ کشتیوں کے ذریعے اس پر چلے گئے تھے اور اس پر گھومنے لگے تھے۔صرف چند ہفتوں بعد یہ جزیرہ غائب ہوگیا تھا۔بعض رپورٹوں کے مطابق 1999 اور 2005 کے زلزلے میں بھی اس طرح کے جزیرے ابھرتے اور غائب ہوتے رہے ہیں۔

اس قسم کی رپورٹیں بھی آرہی ہیں کہ یونائٹڈ سٹیٹس جیالوجیکل سروے کے محققین اس نئے جزیرے کے بارے میں تحقیق کررہے ہیں۔ ادارے کے جیالوجسٹ پال ارل نے این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی تاہم اس کے بارے میں حتمی تصدیق کرنا ابھی باقی ہے۔پال ارل کا موقف ہے کہ جزیرہ اس وجہ سے تخلیق نہیں ہوا کہ زلزلے نے زمین کو نیچے سے باہر کی طرف دھکیل دیا ہو بلکہ زیادہ امکان ہے کہ یہ بھل کی شفٹنگ کا ذیلی اثر ہے۔انہوں نے اس بات کے امکان سے بھی اتفاق کیا کہ اس کی وجہ مٹی کا آتش فشاں پھٹنا بھی ہوسکتی ہے تاہم اس قسم کے آتش فشانوں کو پھٹنے کے لیے زلزلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔انہوں نے بتایا کہ ییلو سٹون میں ایسے کئی مٹی کے آتش فشاں ہیں جو زلزلے کے بغیر ہی پھٹتے رہے ہیں۔

جیالوجسٹ سٹیفن گراہم کے مطابق بلوچستان کے ساحل سے کچھ ہی فاصلے پر ایسے کئی مٹی کے آتش فشاں موجود ہیں جو اصل میں پانی اور نرم بھل کی ایک تہہ ہیں اور یہ بھی اسی طرح ایک جزیرے کی شکل میں پانی سے باہر آسکتے ہیں جس طرح مذکورہ بالا جزیرہ باہر آیا ہے۔اس طرح کے جزیرے دنیا کے کئی اور سمندروں میں بھی ابھرتے رہے ہیں۔

سٹیفن گراہم نے مزید کہا کہ یہ مٹی کے آتش فشاں عام طورپر فالٹ لائنوں کے ساتھ ساتھ اس مقام پر واقع ہوتے ہیں جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں ایک دوسرے کے اوپر نیچے سرک رہی ہوتی ہیں۔نیوزی لینڈ کے زیر زمین ایسی حرکت ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں سان اینڈریز کی فالٹ لائنیں جہاں پر بحرالکاہلی پلیٹیں اور شمالی امریکی پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی اور سرکاتی ہیں ، وہاں پر اس قسم کے جزیرے ابھرنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ماہرین کا مطابق تین یا چار شدت کے زلزلے سے ایسے جزیرے ابھرنے کا امکان نہیں ہوتا اور کم ازکم سات سے زیادہ کی شدت کے زلزلے سے ہی ایسا ہوسکتا ہے۔

نیشنل سیسمک مانیٹرنگ سنٹر کے پرنسپل سسمالوجسٹ زاہد رفیع کا کہنا ہے کہ اس طرح کا زمینی ٹکڑا سمندر میں اس وقت ابھرتا ہے جب زمین کے نیچے پھنسی ہوئی گیسوں کو اچانک باہر آنے کا موقع ملتا ہے۔موقع ملتے ہی یہ گیسیں ایک زور دار دھماکے کے ساتھ باہر نکلتی ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی مٹی کیچڑ اور چٹانی مواد بھی ساتھ لے آتی ہیں۔یہ مٹی کے آتش فشاں کی طرح ہوتا ہے۔یاد رہے کہ زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ سات سو میل دور نئی دہلی میں بھی محسوس کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب زلزلے کے نتیجے میں دباؤ پیدا ہوتا ہے تو اس طرح کے جزیرے ابھرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اندازوں کے مطابق ننھے جزیرے کی اونچائی 18 میٹر ، لمبائی 30 میٹر اور چوڑائی 76 میٹر ہے



اس جزیرے کی مٹی اور سطح کی ساخت کن چیزوں پرمشتمل ہے، اس کے بارے میں پتہ چلانے کے لیے ماہرین کو جزیرے کی سطح زمین کے نمونے لاکر ان کا معائنہ کرنا ہوگا۔اس معائنے سے پتہ چلے گا کہ اس کی مٹی نرم ہے یا پتھروں کی طرح سخت ہے۔ساخت کا پتہ چلنے پر اس کے بارے میں پیشگوئی کی جاسکے گی کہ یہ کتنا عرصہ قائم رہے گا۔

رپورٹس کے مطابق پاکستانی بحریہ کی ایک ٹیم واقعے کے فوری بعد اس جزیرے پر پہنچ گئی تھی۔نیوی کے جیالوجسٹ محمد دانش کا کہنا ہے کہ جزیرہ ساٹھ فٹ اونچا ، سو فٹ لمبا اور اڑھائی سو فٹ چوڑا ہے۔اس میں پتھر اور مٹی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں تاحال گیس نکل رہی ہے اس لیے لوگ اس پر جانے سے گریز کریں۔تاہم اس وارننگ کے باوجود درجنوں افراد اس جزیرے پر پہنچ گئے۔گوادر کے ڈپٹی کمشنر طفیل بلوچ بھی کشتی کے ذریعے جزیرے پر گئے۔انہوں نے بتایا کہ جزیرے کے کناروں کے ساتھ بلبلے نکل رہے تھے جو اس بات کاثبوت تھاکہ سطح کے نیچے گیس موجود ہے۔جزیرے پر سے گیس کی بو آرہی تھی اور سگریٹ سلگانے سے بھی آگ لگ رہی تھی۔جزیرے کے ساتھ مردہ مچھلیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں جبکہ مقامی لوگ یاد گار کے طور پر اس کے پتھر لے کر جارہے تھے۔

جزیرے پر جانے والے ایک عینی شاہد قادر بلوچ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جزیرے پر آکر ایک عجیب سنسنی محسوس کررہا ہے۔اسے لگ رہا ہے جیسے وہ کسی نئی دنیا میں آگیا ہو۔جزیرے کے پتھر اور مٹی چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔زمین اس قدر ٹھوس ہے کہ یقین نہیں آتا کہ جزیرہ واپس سمندر میں غائب ہوسکتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ اسے یقین ہے کہ جزیرہ کئی ماہ تک قائم رہے گا اور اگر ایسا ہوا تو وہ اپنی فیملی کے دیگر لوگوں کو بھی یہاں لے کر آئے گا۔ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ جزیرے کا ابھرنا ایک یاد گار واقعہ ہے اور وہ اپنی اس یاد کو ہمیشہ کے لیے تازہ رکھنے کے لیے خاص طورپر جزیرے پرآیا ہے۔تیس چالیس سال بعد جب اس جزیرے کا ذکر ہوگا اوراگر کوئی شخص اس کا یقین نہیں کرے گا تو وہ اسے بتائے گا کہ یہ بالکل سچ ہے کیونکہ وہ خود اس جزیرے پر جا چکا ہے۔اس موقع پر اس نے تھیلے میں بھرے ہوئے وہ خوبصورت پتھر اور مٹی دکھائی جس کو وہ یادگار کے طورپر لے جارہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں