مشروم صحت اور منافع کے لیے ایک جادوئی فصل

مشروم یا کھمبی کی کاشت پر زیادہ خرچ نہیں آتا اور اسے گھروں میں بھی آسانی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔


Hassaan Khalid October 06, 2013
اکثر لوگ غذائیت سے بھرپور مشروم کے فوائد سے لاعلم ہیں۔ فوٹو : فائل

قدیم مصر میں لوگ کھمبیوں کے اگنے کو کسی جادوئی عمل کا نتیجہ سمجھتے تھے، کیونکہ یہ راتوں رات اگ آتی ہیں۔

رفتہ رفتہ جب اس کے بارے میں جانکاری بڑھی تو پتا چلا کہ یہ کسی جادوئی عمل کے نتیجے میں نہیں اگتے، بلکہ ان کی کاشت کا اپنا ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ تاہم وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگرچہ یہ جادو سے نہیں اگتی، لیکن غذائیت اور منافع کے حصول کے لیے ایک جادوئی اثر ضرور رکھتی ہے۔

مستقبل میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور چھوٹے کسانوں کی معاشی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ زرعی نظام میں غیر روایتی فصلوں اور دوسری غذائی اجناس کو بھی شامل کیا جائے جن کی طرف ہمارے ہاں عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس ضمن میں مشروم یا کھمبی کی کاشت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس پر زیادہ خرچ نہیں آتا اور اسے گھروں میں بھی آسانی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ کھمبی میں پروٹین زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے' اس لئے ترقی پذیر ملکوں میں اسے خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔

یہ ذیابیطس' فشار خون اور دل کے مریضوں کے لئے بھی فائدہ مند قرار دی گئی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک مثلاً امریکہ' چین' جاپان اور تائیوان میں کمرشل بنیاد پر اس کی کاشت کی جاتی ہے اور وہاں یہ معقول قیمت پر دستیاب ہے۔ پاکستان' ہندوستان' تائیوان' تھائی لینڈ اور چین اس کی برآمد سے غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں۔ بہت سی ڈشز کی تیاری میں بھی کھمبیوں کا استعمال کیا جاتا ہے' جن کی مقبولیت دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ذائقہ دار اور غذائیت سے بھرپور سوپ کی تیاری کے علاوہ اسے ٹماٹر' پیاز' سبزیوں اور گوشت کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں پندرہ لاکھ ٹن مشروم کی پیداوار ہو رہی ہے اور اس مقدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔



بارشوں کے موسم میں کھمبیوں کی ایک بڑی مقدار قدرتی طور پر جنگلوں میں پائی جاتی ہے۔ کھمبی کے دو حصے ہوتے ہیں' بالائی کیپ اور تنا۔ کیپ کی نچلی تہہ پر بڑی تعداد میں بیج پیدا ہوتے ہیں' جو کہ گردونواح میں پھیل جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ساز گار ماحول دستیاب ہوتا ہے' اس جگہ اگ آتے ہیں۔ کھمبیوں کی مختلف اقسام پاکستان میں قدرتی طور پر کئی جگہوں میں پائی جاتی ہے۔ اسے مقامی طور پر ''کنڈیر' کھپا' ہنڈا یا گچھی'' کے نام دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پائی جانے والی کھبیوں کو ''گچھی'' کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا شمار قدرتی طور پر اگنے والی انتہائی مہنگی مشروم میں ہوتا ہے۔ اس کو دھوپ میں خشک کر کے بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 90 ٹن گچھی پاکستان یورپ کو برآمد کرتا ہے۔

دنیا بھر میں کھمبیوں کی تقریباً1500 اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کھانے کے قابل ہیں جبکہ دوسری زہریلی ہیں۔ پاکستان میں کھمبیوں کی 56 اقسام کھانے کے قابل ہیں' ان میں چار بلوچستان' تین سندھ' پانچ پنجاب اور 44 اقسام خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں پائی جاتی ہیں۔ مشروم کی چار مقبول ترین اقسام بٹن یا یورپین مشروم' جاپانی مشروم' چینی مشروم اور اویسٹر (Oyster) مشروم کہلاتی ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کے اویسٹر مشروم دستیاب ہیں، جن کی مزید درجہ بندی سفید' سنہری' سرمئی اور گلابی اویسٹر مشروم کے ناموں سے کی گئی ہے۔ یہ مختلف اقسام ملک بھر میں پیدا ہوتی ہیں اور عام طور پر مون سون کے بعد دستیاب ہوتی ہیں۔

مشروم کو اکتوبر اور مارچ کے درمیان کاشت کیا جا سکتا ہے۔ مشروم کی کاشت کے لئے بڑے رقبے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ اسے چھوٹے گھروں میں جزوقتی کام کے طور پر آسانی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ مشروم کی کاشت کے دو طریقے رائج ہیں: کھلے میدان میں کاشت اور کنٹرولڈ (جس میں ایک خاص درجہ حرارت اور ماحول خود مصنوعی طریقے سے برقرار رکھا جاتاہے) حالات میں کاشت۔ کاشت کے سات دن بعد' مشروم سے کامن پنوں کی طرح بارک سر نمودار ہوتے ہیں' جو کہ تین سے پانچ دنوں میںمزید مشروموں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

اس کی شاخوں کو، جو کہ پانچ سے سات انچ لمبی ہوتی ہیں، پودوں سے الگ کر کے خشک کر لیا جاتا ہے۔ ان شاخوں کو جن کو فلشز(Flushes) کا نام دیا جاتا ہے' پکا کر کھانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے' یا انہیں مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ شاخیں توڑنے کے دس دن بعد پودوں پر نئی شاخیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ نئی شاخیں اگنے کا دورانیہ بہت کم ہے' اس لئے یہ بہت زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں۔

فیصل آباد ایگری کلچر یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹی کلچرل سے وابستہ ڈاکٹر محمد ندیم کہتے ہیں کہ مشروم کی صرف ایک شاخ سے آپ ہر ہفتے کے بعد تین ماہ تک آدھا کلو سے زیادہ خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک سو بیڈز میں مشروم کی کاشت سے ایک ہفتے میں 120 کلو گرام مشروم حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ 150روپے فی کلو گرام کے حساب سے ایک ہفتے میں 18 ہزار' جبکہ مہینے میں 72000 روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ امریکہ میں ایک پاؤنڈ اویسٹر مشروم تقریباً چھ ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے۔ 200 مربع فٹ میں کاشت کی گئی مشروم سے ایک فصل میں 800 پاؤنڈ' جبکہ سال بھر میں تقریباً5000 پاؤنڈ مشروم حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کی قیمت تیس ہزار امریکن ڈالر بنتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مشروم کی یہ قسم کاشت کر کے اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔



تاہم اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ مشروم کی زہریلی اقسام کو مد نظر رکھتے ہوئے' اس کا بیج' جسے Spawn کا نام دیا جاتا ہے، خصوصی ماہرین کی نگرانی میں تیار کرانا چاہئے۔ اس کا بیج یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد اور دوسرے حکومتی اسٹیشنز پر دستیاب ہے۔ یونیورسٹی آف ایگری کلچر سے وابستہ ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ اب ہمارے ہاں مقامی طور پر اس کا بیج تیار کیا جاتا ہے' جو کہ دوسرے ممالک کے بیج سے زیادہ بہتر کوالٹی کا حامل ہے۔

ایسے کسان جو کھبمی کی کاشت کرنا چاہتے ہیں' انہیں کاشت کے موسم سے پہلے اپنا آرڈر دے دینا چاہیے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس کی طلب کے سیزن میں یہ دستیاب نہ ہو سکے۔ مشروم کی کاشت کو نفع بخش بنانے کے لئے بنیادی تربیت کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد کا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ شارٹ کورسز کا بھی اہتمام کراتا ہے۔ نیز اس ادارے کی مشروم لیب سے وابستہ ماہرین سے وہ لوگ مشورہ کر کے ہدایات حاصل کر سکتے ہیں' جو اس نفع بخش کاروبار کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ گھروں میں کاشت کرنے والے خواہش مند لوگ اس ضمن میں رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ گھروں میں بھی آسانی سے ذاتی استعمال اور کاروباری مقاصد کے لئے کاشت کی جا سکتی ہے۔

زرعی ماہر حافظ وصی محمد کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام طور پر مشروم کی اہمیت سے لوگ لا علم ہیں اور اس کو کھانے کا رجحان بھی کم ہے' جس کی وجہ سے اس کی طلب کم ہے اور لوگ بھی اسی وجہ سے اس کی کاشت میں زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اس کی مناسب مارکیٹنگ کی جائے تاکہ اس کو مستقبل میں فروغ مل سکے اور یہ مستقبل میں ہماری غذائی ضروریات پوری کرنے اور زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن جائے۔

زہریلی مشروم کی شناخت
بارش کے بعد جنگل میں خودبخود اگنے والی مشروم میں سے کچھ زہریلی ہوتی ہیں۔ ایسی مشروم کو کسی صورت استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چند ٹیسٹوں اور مشاہدے کی مدد سے ان زہریلی مشروم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ زہریلی مشروم کی بالائی کیپ کی نچلی سطح سفید ہوتی ہے اور تنے کے بالائی حصے میں رنگ (Ring) سی نظر آتی ہے، اس کے تنے کے نچلے حصے میں بھی کپ کی طرح شکل نظر آتی ہے۔ زہریلی مشروم چمکدار اور خوبصورت نظر آتی ہیں۔

مشروم غذائیت سے بھرپور غذا ہے، جس میں بہت سے ایسے اجزاء شامل ہیں جو کہ انسانی جسم کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے بارے میں چند مفید باتیں درج ذیل ہیں۔
٭ ایک سو گرام مشروم میں، گندم سے بنی ہوئی بریڈ کے ایک سلائس سے زیادہ بالترتیب 2.5 گرام اور 2.0 گرام خوردنی ریشہ ہوتا ہے۔
٭ زیادہ تر سبزیوں کی نسبت مشروم میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
٭ وٹامن ڈی کے چند قدرتی ذرائع میں سے ایک مشروم بھی ہے، جو کہ صحت مند ہڈیوں اور دانتوں کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
٭ وٹامن بی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ مشروم ہیں۔ اس میں مزید یہ اجزاء پائے جاتے ہیں۔
تھیامن: (Thiamin) یہ کاربوہائیڈریٹ سے توانائی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ربو فلوکسن: (Ribofloxin) یہ خون کے سرخ خلیوں کو صحت مند بناتا ہے، اس سے جلد صحت مند اور بصارت تیز ہوتی ہے۔
نیاسین: (Niacin) یہ پروٹین اور چربی سے توانائی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے، تاکہ نظام انہضام اور اعصابی نظام کو اچھی حالت میں چلایا جا سکے۔


٭ اگرچہ وٹامن بہت سی سبزیوں میں پائے جاتے ہیں، لیکن جب یہ ابلتے ہوئے پانی میں پکائی جاتی ہیں تو یہ وٹامن ضائع ہو جاتے ہیں۔ لیکن کھمبیوں کو عام طور پر ابلتے ہوئے پانی میں نہیں پکایا جاتا، اس لیے ان میں یہ قیمتی غذائی جزو محفوظ رہتا ہے۔
٭ مشروم میں کوئی نمک نہیں پایا جاتا۔
٭ دوسرے پھلوں اور سبزیوں کی نسبت مشروم میں زیادہ مقدار میں پوٹاشیم پائی جاتی ہے۔
٭ مشروم کی ایک قسم برائون مشروم میں کیلے سے زیادہ پوٹاشیم ہوتی ہے۔
٭ مشروم قدرتی طور پر سیلینئم کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں جو کہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور کینسر اور دوسری بیماریوں سے بچائو میں مدد کرتی ہے۔
٭ مشروم زنک کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں۔ یہ مدافعتی نظام اور جنسی صلاحیت کی بہتری کے لیے مددگار ہے۔
٭ مشروم کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں بھورے کاغذ کے بنے ہوئے بیگ میں پیک کر کے ریفریجریٹر کے نچلے حصے میں رکھ دیں۔ یا پھر اس کے متبادل کے طور پر کپٹرے کے تھیلے کا استعمال کیا جائے۔
٭ کھمبی کی جٹر ضروری غذائی اجزاء اور فلیور (Flavour) کا اچھا ذریعہ ہیں، اس لیے ان کو الگ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ کسی ڈش کے لیے اس کو ہٹانا چاہتے ہیں تو اس کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر سوپ اور دوسری چیزوں میں استعمال کریں۔
٭ جنگلی مشروم کے ضمن میں خصوصی احتیاط کریں، کیونکہ ان میں سے اکثر زہریلی اور زندگی کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کسی اچھی دکان سے خریدیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔