تھری جی ٹیکنالوجی کس کی کون سی ضرورت پوری کرے گی

پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کی آمد میں تاخیر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے


Rana Naseem October 06, 2013
دنیا میں آئندہ ہونے والی معاشی و معاشرتی تبدیلیوں میں اہم کردار ٹیکنالوجی ہی کا ہوگا.فوٹو : فائل

امریکی انٹیلی جینس کونسل کی ایک تازہ رپورٹ میں اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ 2030ء تک چین دنیا کی مضبوط ترین معاشی طاقت بن جائے گا جبکہ یورپی یونین، روس اور جاپان کا کردار کم ہو جائے گا اور امریکہ واحد عالمی سپر پاور کے درجہ سے محروم ہو جائے گا۔

''عالمی رجحانات اور سیاسی متبادل2030ء'' کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئندہ 20 سال میں نئی ٹیکنالوجی ترقی پذیر ممالک میں زیادہ فروغ پائے گی بڑی بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں معلومات کی انتہائی زیادہ مقدار کی نگرانی کریں گی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی بہت فروغ پا چکی ہوں گی۔

اس رپورٹ کی اگر روح کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا میں آئندہ ہونے والی معاشی و معاشرتی تبدیلیوں میں اہم کردار ٹیکنالوجی ہی کا ہوگا۔ جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ آج دنیا کو گلوبل ویلیج کا نام دے دیا گیا جو بلاشبہ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہو سکا ہے۔ آج سات سمندر پار بیٹھا شخص آپ سے صرف ایک بٹن کی دوری پر ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون جیسے ذرائع ابلاغ نے انسان کی معاشی و شعوری ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔



ٹیبل فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون اور انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن سروسز کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں جدت لانے کی سرتوڑ کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل اور پھر موبائل پر انٹرنیٹ کے استعمال نے دنیا بھر کو انسان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح لاکھڑا کیا ہے، لیکن موبائل پر انٹرنیٹ کی کم رفتار اور ویڈیو کانفرنسز جیسی سہولیات کی عدم دستیابی انسانی شعور کی ترقی میں کسی حد تک رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس خامی پر قابو پانے کے لئے آئی ٹی کے ماہرین نے سر جوڑا اور ون جی، ٹو جی اور تھری جی جیسی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔

تھری جی یعنی تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی کی مدد سے آج متعدد ممالک نقل و حمل، تعلیم، صحت اور مالیاتی خدمات کے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اور اس کی افادیت کے مد نظر بعض ممالک فور جی تک بھی رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے تاحال تھری جی ٹیکنالوجی بھی شہریوں سے کوسوں دور دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے ہاں 2009ء میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کی باتیں شروع ہوئیں، مگر 2011ء میں جا کر حکومت کی طرف سے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تاحال 3G ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی کا عمل تک شروع نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً 12 کروڑ 50 لاکھ ہے جن میں سے 2کروڑ سے زائد صارفین موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ چلانے کی سہولت دینے والی موبائلز (خاص طور پر چائنا موبائلز) کی گرتی ہوئی قیمت موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں اسمارٹ فونز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ایشیاء کی پانچویں بڑی مارکیٹ قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی کے آنے سے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد (کُل موبائل صارف کے) 50سے 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔



شہریوں کو موبائل پر ڈیٹاٹرانسفر کی تیز ترین سہولت نہ ملنے سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ تھری جی ٹیکنالوجی کی بدولت بیرون ملک کی جانے والی ایک کال جو عام نیٹ ورک سے 20روپے فی منٹ پڑتی ہے وہ دس روپے کی سبسکرپشن سے چاہے دس گھنٹے بھی کر لی جائے تو کسی قسم کا مالی بوجھ نہیں پڑتا، اسی لئے 3Gکو ٹال فری کمیونی کیشن بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اگست 2012ء میں سابق چیئرمین پی ٹی اے فاروق سعید اعوان نے خود اعتراف کیا کہ تھری جی ٹیکنالوجی کی نیلامی میں تاخیر سے ملک کو 20 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

حالاں کہ اس ٹیکنالوجی کے لائسنس کی فروخت سے حکومت کو ایک اندازے کے مطابق 3 ارب ڈالر کا فائدہ ہونے کے ساتھ ملک میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی ہوگی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رقم ملک کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر اہمیت رکھتی ہے۔

حکومت چاہے تو اس جدت کے بل بوتے پر تعلیم اور طب کے شعبوں کی بہتری میں بھرپور مدد لی جا سکتی ہے، جیسے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہوتا ہے کہ طلبہ ممبئی یا نیو دہلی کے سکول میں بیٹھے ہیں جبکہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں لیکچر کینیڈا، امریکہ یا برطانیہ سے دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف موبائل کمپنیوں کو ایک بار سرمایہ کاری کرنا پڑے گی، پھر صارفین کی تعداد میں اضافہ سے منافع ہی منافع ہے۔



جدید ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی میں مسلسل تاخیر کی جا رہی ہے جس پر سپریم کورٹ نے 27ستمبر کو کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی اے کو اب دو ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے 3G لائسنس کی نیلامی کا حکم دے دیا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اس تاخیر نے ملک میں ٹیلی کام کے شعبے میں ترقی اور سرمایہ کاری کو متاثر کیا۔ سوال یہاں یہ ہے کہ تھری جی ٹیکنالوجی جب تینوں سٹیک ہولڈرز حکومت، شہری اور کمپنیوں کے لئے سود مند ہے، تو پھر اسے یہاں متعارف کروانے میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے جناب کہ تھرڈجنریشن ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے میں تاخیر کے ذمہ دار بھی خود یہی سٹیک ہولڈرز ہیں۔ حکومت اور بیورو کریسی کے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں کہ لائسنس کی نیلامی میں شفافیت سے زیادہ معاملہ ذاتی تناؤ، کرپشن اور حکام کی روایتی سستی کا ہے۔

تاحال حکومت یہ طے نہیں کر سکی کہ تھری جی کا لائسنس کس کو کن شرائط پر دیا جائے گا، بولی کی کیا ترکیب ہوگی اور حکومت اس کے بدلے اپنے کون کون سے مطالبات پورے کرائے گی، کیوں کہ موبائل فون کا شعبہ حکومت کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی مانند ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں جب نیلامی کی تاریخ مقرر کر لی گئی تو اس کی شفافیت پر سینیٹ میں سوال اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق نیلامی میں مدد کے لیے مشیروں کی خدمات حاصل نہیں کی گئی تھیں۔ پی ٹی اے میں بھی تھری جی سپیکٹرم کے لائسنس کی نیلامی پر تنازع منظرِ عام پر آیا۔



دوسرا سٹیک ہولڈر موبائل فون کمپنیاں ملک میں سیاسی صورتحال، دہشتگردی اور روپے کی قدر میں آئے روز ہونے والی تنزلی پر بھی گہری نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں جب ٹیلی کام کمپنیاں اپنے موجودہ سیٹ اپ اور آمدنی سے مطمئن ہیں، تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ مزید سرمایہ کاری کریں؟ تھری جی لائسنس خریدنے اور تکنیکی انفراسٹرکچر قائم کرنے لیے مزید اربوںروپے کا سرمایہ درکار ہے۔

تیسرا سٹیک ہولڈر شہری ہیں، جن کی اچھی خاصی تعداد یہ سوچتی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون نے معاشرے میں فحاشی اور بے راہ روی کو فروغ دیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی اس میں مزید اضافہ کا باعث بنے گی۔ اس سوچ میں وہ کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں کہ کیوں کہ ہمارے لوگوں کا رویے بھی یہی ہے، یہاں انٹرنیٹ کا مثبت سے زیادہ منفی استعمال ہی کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کئے جانے والے سرچ انجن گوگل پر غیر اخلاقی مواد کی تلاش کے حوالے سے پاکستان کے دنیا میں سرفہرست لسٹ میں شامل ہونے کے چرچے عام ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے سب سے زیادہ فحش مواد امریکہ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا اور ناروے سمیت دیگر مغربی ممالک میں دیکھا جاتا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 20 ویں، بھارت 21 ویں، مصر 22 ویں، ترکی 23 ویں، الجزائر 24 ویں، مراکش 25ویں، انڈونیشیا 26ویں اور ایران 28 ویں نمبر پر ہے۔

تھری جی ٹیکنالوجی کب، کہاں اور کس نے پہنچائی؟
دنیا میں 3G سب سے جدید اور ایڈوانس ہے۔ اس سے قبل 1Gیعنی فرسٹ جنریشن (Analog) اور 2Gیعنی سیکنڈ جنریشن(Digital) ٹیکنالوجی موجود تھی، لیکن ڈیٹا ٹرانسفر اور وڈیو ٹرانسمیشن کے لئے سستی اور تیز رفتار سہولت کی ضرورت نے 3G ٹیکنالوجی کو جنم دیا۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین (ITU) نے 1980ء میں اس ٹیکنالوجی پر کام کی شروعات کی، جو تقریباً 15سال میں مکمل ہوا۔ اور آج یہ دنیا بھر کی حکومتوں اور کمیونی کیشن کمپنیوں سے پسندیدگی اور منظوری کی سند حاصل کر چکی ہے۔

یکم اکتوبر 2001ء میں سب سے پہلے نیپن ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون نامی کمپنی نے جاپان میں اس ٹیکنالوجی کو تجارتی بنیادوں پر متعارف کروایا۔ پھراسی سال دسمبر میں یورپ نے اس جدید ایجاد کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے۔ مئی 2002ء میں جنوبی کوریا میں 3Gکو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور وہاں کمپنیوں کی طرف سے باقاعدہ مقابلے کی فضا قائم ہو گئی۔

جولائی 2002ء میں امریکہ اور جون 2003ء میں یہ تیزرفتار موبائل انٹرنیٹ سہولت آسٹریلیا پہنچ گئی جس کے بعد چین، بھارت، شام، عراق، ترکی، کینیڈا اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے تقریباً 130ممالک میں آج 3Gٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد سیلولر صارفین 3G سروسز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جاپان میں 81 ، امریکا میں 80اور جنوبی کوریا میں 70 فیصد سے زائد سیلولر صارفین 3G ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔

تھری جی کی خصوصیات اور ٹو جی سے موازنہ
ترقی یافتہ ممالک تھری جی کو چھوڑ کر اب فورجی کی طرف جا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے متعلقہ اداروں کی نااہلی کے باعث پاکستان میں تاحال 2G نظام ہی رائج ہے، یا چند مزید سہولیات متعارف کرا دینے کے بعد 2.5G ہو چکا ہے۔ عام طور پر ہم صوتی رابطے کیلئے چند اصطلاحات کا عام استعمال کرتے ہیں جیسے کہ GSM (Global System for Mobile Communications) یا CDMA (Code division multiple access)وغیرہ۔

پاکستان کا موجودہ سیلولر نظام GSM پر استوار ہے جس پر انٹرنیٹ صارفین کا دبائو بڑھنے سے انٹر نیٹ کی رفتار محدود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ 2G ٹیکنالوجی 30 تا 90 کلو بائیٹس فی سکینڈ ڈیٹا ٹرانسفر رفتار مہیا کرتی ہیں اوریہ صرف چند ایک ہی بنیادی سہولیات فراہم کر سکتی ہے جیسے کہ صوتی کال، ایس ایم ایس، کانفرنس کال،کالر آئی ڈی وغیرہ جبکہ 2.5G کے تحت ہم ایم ایم ایس بھیج سکتے ہیں، ویب برائوزنگ کر سکتے ہیں، چھوٹے موٹے آڈیو ویڈیو کلپ، گیمز، اور ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ جبکہ ٹو جی کے مقابلے میں 3G نظام کے تحت ڈیٹا ٹرانسفر سپیڈ دو سے تین میگا بائیٹ فی سکینڈ تک پہنچ جاتی ہے۔



اس نظام کے تحت ہم لائیو ویڈیو کانفرنس کر سکتے ہیں جس کیلئے ہمیں خود کہیں چل کر جانا نہیں پڑے گا بلکہ ہم جہاں ہیں وہیں سے کانفرنس ممکن ہو سکے گی ۔ موبائل پر اپنی مرضی کے ٹی وی پروگرام دیکھے جا سکیں گے، 3D گیمز کھیل سکتے ہیں، میوزک اسٹریمنگ کر سکتے ہیں، تیزرفتار انٹر نیٹ سرفنگ کر سکتے ہیں، LBS یعنی لوکیشن بیسڈ سروسز مہیا کی جا سکیں گی، GPSیعنی گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے ذریعے دنیا بھر کے موسم، علاقہ جات اور ٹائم کے بارے میں فوری معلومات مل سکے گی، ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دور دراز کے دیہی علاقوں میں طبی آگاہی اور معلومات دی جا سکتی ہیں۔

ہم تھری جی یا فورجی نہیں بلکہ نیوٹرل ٹیکنالوجی دینے جا رہے ہیں: یاسر قادر (ممبر ٹیلی کام)
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ممبر ٹیلی کام یاسر قادر نے تھری جی ٹیکنالوجی کے بارے میں ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس جدید سروسز کو تھری جی کے بجائے Next Generation موبائل ٹیکنالوجی کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔

ہم تھری جی یا فور جی نہیں بلکہ نیوٹرل ٹیکنالوجی دینے جا رہے ہیں، کمپنیاں جو بھی نیٹ ورک چاہتی ہیں وہ لگائیں لیکن شہریوں کو ڈیٹا سروسز کی تیز ترین سہولت ملنی چاہیے۔ جدید نیوٹرل ٹیکنالوجی سے تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر سروسز عام صارف کے ہینڈ سیٹ میں آ جائے گی، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ای ایجوکیشن، ای ہیلتھ اور ای کامرس میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ یہ فروغ بھی پائے گی۔

لائسنس کی فروخت سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اور نیلامی میں تاخیر کے بارے میں یاسر قادر کا کہنا تھا کہ نیلامی والی چیز کی پہلے سے کوئی بھی مالیت نہیں بتا سکتا لیکن یہ طے ہے کہ اس سے ہمیں بہت فائدہ ہو گا۔ نئی حکومت مذکورہ ٹیکنالوجی میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس کی نیلامی کی خواہاں ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے کی تعیناتی ہو چکی، انشاء اللہ جلد نیلامی بھی ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں