لالٹین زندہ باد
خالی نعرہ بازی میں کیا رکھا ہے اور اگر غصے میں آ کر آپ نے کسی بس کو پھونک ڈالا اور بیچ سڑک پر ٹائروں کا ڈھیر لگا...
خالی نعرہ بازی میں کیا رکھا ہے اور اگر غصے میں آ کر آپ نے کسی بس کو پھونک ڈالا اور بیچ سڑک پر ٹائروں کا ڈھیر لگا کر آگ لگا دی تو بھی پھر کیا۔ ایسے بے ہنگم جلوسوں، مظاہروں کا آخر کیا فائدہ۔ جلوس ایسا نکالو جس کا معنی و مطلب ہو۔ ارے تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو ان بیبیوں سے کچھ سیکھو جنہوں نے لالٹین بردار جلوس نکالا ہے۔ لاہور پریس کلب کے سامنے جا کر یہ جلوس رکا اور تب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ہر بی بی کے ہاتھ میں ایک لالٹین ہے۔ تب ہمیں انیس کا یہ شعر یاد آیا؎
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
تب ایک دوست نے ہمیں سمجھایا کہ تب ہی تو ان بیبیوں نے لالٹین جلائی نہیں ہیں۔ حالانکہ صورتحال کا تقاضا یہ تھا کہ لالٹین روشن ہوتیں کہ عقل کے اندھوں کو کچھ تو سُجھائی دیتا۔ اب تو وہ اندھا دھند چیزوں کی قیمتیں بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ارے خالی بجلی پہ موقوف تھوڑا ہی ہے۔ وہ کونسی چیز ہے جس کی قیمت دم کے دم میں اتنی نہیں ہو گئی کہ آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ لو آج کے ایک اخبار نے یہ کمال دکھایا ہے کہ اخبار کی شہ سرخی میں اچانک مہنگی ہو جانے والی اشیا کے نام گنا ڈالے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ بسکٹ، مٹھائی، اے سی، فریج، ٹیلی ویژن، آٹو پارٹس، فوم، اسلحہ، بارود، ٹافی، چاکلیٹ، اوون، کوکنگ رینج، بلب، ٹیوب لائٹ، پنکھے، الیکٹرانک استری، واشنگ مشین، فیبرکس۔
ارے یہ تو وہ مضمون ہو گیا کہ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اے ہمارے مہربان ارباب بست و کشاد، چیزوں کی قیمتیں بڑھاتے وقت کچھ تو چھوٹے بڑوں کی ضروریات کا لحاظ کر کے تھوڑی رعایت برتی ہوتی۔ بچوں کے ساتھ رعایت نہیں برتی اور چاکلیٹ ٹافی کے بھی نرخ بڑھا دیے۔ مگر کم از کم اسلحہ بردار تیس مار خانوں کی ضروریات کو تو سمجھا ہوتا۔ اگر ہتھیار اور گولہ بارود بھی مہنگے ہو گئے تو سوچو کہ کُشتوں کے پُشتے کیسے لگیں گے پھر موت کے بازار کی رونق ماند نہ پڑ جائے گی۔
ویسے معاملہ کی بات یہ ہے کہ دو اشیائے صرف کی قیمتوں کے اتار چڑھائو سے ان کے شائقین کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اول شراب، دوم پستول بندوق، گولہ بارود۔ شرابی تو شراب پئے ہی پئے چاہے اس کے لیے اسے گھر کے برتن بیچنے پڑ جائیں۔ اور شکاریوں کا معاملہ ہے کہ کارتوس مہنگے ہو جانے سے مرغابی قاز اور ہرن کے شکاریوں کے شکار میں بیشک فرق آ جائے۔ مگر نوع انساں کے شکاریوں کے لیے تو سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ ایک در بند بھی ہو جائے تو ان کے لیے کیا فرق پڑے گا۔ کتنے اور در ان کے لیے کھل جائیں گے اور پھر یاروں کی مہربانی سے انسانی جانیں کتنی سستی ہیں۔
اے لو ہم بہک کر کدھر نکل گئے۔ ذکر لالٹین بردار نسوانی جلوس کا تھا۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ لالٹین روشن ہو یا نہ ہو۔ بہرحال وہ لالٹین ہے جب وہ کسی غریب کے گھر میں روشن ہوتی ہے تو اندھیرے میں اجالا کرتی ہے اور جب بیبیاں لالٹین ہاتھ میں لے کر جلوس نکالیں تو اس کی حیثیت علامتی ہوتی ہے۔ اور جب لالٹین یا شمع یا مٹی کا دیا علامتی رنگ پکڑ لے تو اس سے دوسری طرح کی روشنی پھیلتی ہے۔ اس کی معنویت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ عقل رکھنے والوں کے لیے وہ چراغ ہدایت بن جاتی ہے۔ باقی جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں تو وہاں تو گیس کے ہنڈلے بھی لا کر رکھ دیے جائیں تو وہ اندھے کے اندھے ہی رہیں گے۔
ویسے جہاں تک بجلی کی مہنگائی کا معاملہ ہے تو ارباب بست و کشاد کو اب یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس لالٹین بردار جلوس کی علامتی معنویت کیا ہے۔ ہر چند کہ یہ علامتی افسانہ نہیں ہے۔ علامتی جلوس ہے۔ پھر بھی علامتی مفہوم دیر ہی سے سمجھ میں آتا ہے۔ مگر یہاں یہ ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے علامت ولامت کے چکر میں پڑے بغیر تھوڑی روشنی دکھا دی اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔
اس پر ایک عزیز نے ٹھنڈا سانس بھرا اور بولا ''ابھی کیا کہا جا سکتا ہے۔ تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔''
ہم نے کہا کہ عزیز وہ تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ محاورے کے حساب سے بھی اور واقعہ کے حساب سے بھی۔ اصل میں بجلی کے نرخوں میں کچھ اس کمال سے اضافہ کیا گیا کہ صارفین کی آنکھوں میں اندھیرا آ گیا۔ اس بوکھلاہٹ میں کسی کا دھیان اس طرف گیا ہی نہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اچانک کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اصل میں سمجھدار طبیبوں کا طریق کار یہ چلا آتا ہے کڑوی دوا ہو تو تھوڑی تھوڑی خوراک دے کر اسے مریض کے حلق میں اتارو۔ مگر ہمیں طبیب ایسے ملے ہیں جو سوچتے ہیں کہ کڑوی دوا کا لمبا گھونٹ آنکھیں بند کر کے مریض کے حلق میں انڈیل دو۔ جیسے تیسے وہ اسے نگل ہی لے گا۔
مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ قطعی اور آخری خوراک تھی۔ سو کام و دہن میں جتنی تلخی ہونی تھی وہ ہو گئی۔ یہ تو ایک پورا کورس ہے۔ کتنی خوراکیں وہ جو چلے گئے ہمیں پلا گئے۔ کتنی خوراکیں ان نووارد اطبّا کے ہاتھوں ہمیں پینی ہیں جو موٹے مسٹنڈے ہیں انھیں تو سو طرح کی رعایتیں ملی ہیں۔ مشق ستم تو ان بے حیثیت اور کم مقدرت مخلوق پر ہو رہی ہے جس کا پہلے ہی حالات کے ہاتھوں پتلا حال ہے۔ مرے کو ماریں شاہ مدار۔ مطلب یہ کہ حکومت اصلاح احوال کے لیے جو قدم اٹھاتی ہے اس کی زد اسی مخلوق پر پڑتی ہے۔ اب اس سے مفر بھی نظر نہیں آتا۔
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بیچارگی