ڈگری برائے فروخت

پشاور میں قیام کے دوران مجھے ایسا لگا کہ گرجا گھر اور قصہ خوانی بازار کے المناک واقعات کے بعد ابھی تک شہر...


راؤ منظر حیات October 06, 2013
[email protected]

پشاور میں قیام کے دوران مجھے ایسا لگا کہ گرجا گھر اور قصہ خوانی بازار کے المناک واقعات کے بعد ابھی تک شہر سوگ کی کیفیت میں ہے۔ رات کو پشاور جانے والی موٹر وے تقریباََ ویران ہوتی ہے۔ مجھے ایک اور چیز بھی محسوس ہوئی کہ فیصلہ سازوں اور اس پر عملدرآمد کرانے والے نچلی سطح کے افراد میں ایک غیر مرئی دیوار ہے۔ ایک ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ صبح اپنے بیوی بچوں کو آخری بار مل کر آتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شام کو زندہ گھر واپس نہ آ پائے۔ ہر تیسرے چوتھے گھر کی داستان ایک نوحہ ہے۔ لاہور میں بیٹھ کر میں کبھی اس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا جو مجھے پشاور کے گلی کوچوں میں نظر آئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار بہت حد تک اس بات پر بھی ہے کہ حکومت اور طالبان میں سے پہلے کون تھکتا ہے۔ یہ جنگ پنجاب کا رخ کب کرتی ہے'اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا یہ جنگ ہم لاہور فیصل آباد راولپنڈی اور ملتان میں لڑ سکتے ہیں۔ یہ بہت اذیت ناک سوال ہے لیکن کیا کروں اس ٹریفک کانسٹیبل کے لفظ مجھے گھیر چکے ہیں، ''میں روزانہ اپنے بیوی بچوں سے آخری بار مل کر آتا ہوں۔''

پاکستان میں تعلیم کے متعلق بہت لفاظی ہوتی ہے۔ ہر حکومت' غیر ملکی حکومتیں، نجی شعبہ کے لوگ اس ملک میں نظام تعلیم اور گرتے ہوئے تعلیمی معیار کے متعلق بظاہر بہت فکر مند نظر آتے ہیں۔ آج بھی M.B.A کو عملی زندگی کی کامیاب سیڑھی گردانا جاتا ہے۔ پاکستان میں کل چالیس کے لگ بھگ یونیورسٹیاں اور کالج یہ ڈگری کرواتی ہیں۔ ان میں نجی اور سرکاری دونوں شعبوں کے ادارے شامل ہیں۔ یہ ادارے کراچی سے لے کر خیبر تک ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ مانسہرہ ڈیرہ اسماعیل خان خیر پور اور مظفر آباد ہر جگہ آپ کو M.B.A کروانے والے ادارے نظر آئیں گے۔ صبح اور شام کے کورس ملا لیے جائیں تو کم از کم 20 سے 25 ہزار طالب علم آپ کو ان درسگاہوں میں ملیں گے۔ میں اپنے آپ کو صرف M.B.A تک محدود کر رہا ہوں۔ ویسے تو لاکھوں بچے اور بچیاں یہاں زیر تعلیم ہیں۔ کراچی اور لاہور میں ایسی نجی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن میں کسی طالب علم کا داخلہ ہو جائے تو والدین کے لیے یہ فخر کی بات ہوتی ہے۔

لیکن اگر آپ دنیا کی بہترین درسگاہوں کی ترتیب نکالیں تو پاکستان کی کوئی بھی یورنیورسٹی پہلی دو سو یونیورسٹیوں میں نہیں آتی۔ آپ دنیا کو چھوڑ دیں۔ ایشیا کی پہلی دس یونیورسٹیوں میں چین بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں۔ ہماری کوئی ایک درسگاہ ایشیا میں بھی کسی مقام پر نہیں ہے۔ آپ تعلیمی شعبہ کی طرف نظر ڈالیں تو آپ کو اکثر جگہ بلند و بانگ دعوے اور سطحی قسم کی علمیت نظر آئے گی۔ اساتذہ کی بہت بڑی تعداد قابلیت اور اہلیت سے محروم ہے۔ کیرئیر پلاننگ سرے سے ناپید ہے۔ اگر کوئی طالب علم یہ جاننا چاہے کہ وہ اس ڈگری کے حصول کے بعد کیا کر سکتا ہے تو اس کی رہنمائی کرنے کے لیے اکثر درسگاہیں خاموش ہیں۔ اکثر درسگاہوں کی فیس اور طالب علموں کو دی جانے والی سہولتوں میں کوئی توازن نہیں۔ اگر ایک طالب علم کسی درسگاہ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کو اپنی فیس واپس لینا تقریباََ ناممکن ہے۔کئی درسگاہیںخود کو غیر ملکی یونیورسٹیوں سے منسلک بتاتی ہیں مگر حقیقت میں ان غیر ملکی یونیورسٹیوں کی اکثریت کی اہلیت بھی ایک سوال ہے۔ امریکا لندن اور آسٹریلیا میں بے شمار درسگاہیں ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں اور وہ ڈگری بانٹنے میں مصروف کار ہیں۔ پاکستان کی ایک M.B.A درسگاہ کا لندن کی ایسی ایک یونیورسٹی سے الحاق تھا جو اصل میں نرسنگ اسکول تھا۔ آن لائن ڈگریوں کا سیلاب الگ ہے۔

نور علی مہمند ایجنسی کا رہنے والا تھا۔ اس کے والد کی کریانہ کی ایک دکان تھی۔نور علی کی خواہش تھی کہ وہ کسی بڑی کمپنی کا باس بنے یا کسی بڑے بینک کا انچارج ہو۔ نور علی کی والدہ کو چند سال پہلے فالج ہو گیا تھا اور وہ چلنے پھرنے سے مکمل معذور ہو چکی تھی۔ اس کی بہن کی اوائل عمری میں ہی شادی کر دی گئی۔ نور علی کا پشاور کے ایک اچھے کالج میں داخلہ ہو گیا مگر ماں کی بیماری آڑے آئی۔ باپ نے نور علی کو کریانہ کی دکان پر بٹھا دیا۔ دکان بہتر چلنے لگی۔ مگر نور علی شدید کرب کا شکار تھا۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا۔ والد کو بتائے بغیر اس نے پرائیوٹ بی اے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ اس کی والدہ کو جب اس کی کامیابی کا پتہ چلا توخوشی سے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ نور علی بہت اچھی یونیورسٹی سے M.B.A کرنا چاہتا تھا۔ اخبار میں اس نے لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کا اشتہار دیکھا۔ وہ اشتہار بہت متاثر کن تھا۔ غیر ملکی ادارے سے الحاق اور ڈگری کے بعد اچھی نوکری سب کچھ موجود تھا۔ یہ اشتہار اس کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ والد سے بہت مشکل سے اجازت ملی اور نور علی لاہور آ گیا۔ اس نے اتنا بڑا شہر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ شہر دیکھ کر حیران ہوگیا۔

اس کی یونیورسٹی لاہور کے ایک رہائشی علاقہ میں تھی۔ پہلے سمسٹر کی فیس18 ہزار روپے تھی جو نور علی کے والد نے کہیں سے قرض لیے تھے۔ فیس ادا کرنے کے بعد نور علی نے محسوس کیا کہ اشتہار میں دی گئی سہولتیں اور اس کی درسگاہ میں عملی طور پر بڑا فرق ہے۔ ہاسٹل کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ اس نے وحدت روڈ پر ایک نجی ہاسٹل میں کمرہ لے لیا۔ نور علی کو اپنی یونیورسٹی کی لائبریری بھی متاثر نہ کر سکی ۔ مگر وہ پڑھتا رہا۔ وہ ہر سمسٹر میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا۔ تعلیم کے اخراجات کو اس نے ٹیوشن پڑھا پڑھا کر پورے کرنے کی کوشش کی ۔ وہ ٹیوشن سے پیسہ بچا کر گھر بھی بھجواتا رہا۔ اچانک اس کا والد قبائلی دشمنی کا شکار ہو گیا۔ وہ گھر پہنچا تو ہر طرح کے مسائل اس کے سامنے تھے۔ والدہ کی حالت اس سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس نے بہن کو منت سماجت کر کے اپنے گھر میں رہنے کے لیے مجبور کیا تا کہ وہ والدہ کا خیال کر سکے۔ مگر بہن کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر مستقل یہاں آنا بہت مشکل تھا۔ نور علی نے اسے کہا کہ وہ اچھی نوکری ملتے ہی سب مسائل کو حل کر دے گا۔ صرف چند مہینوں کی بات ہے۔

لاہور واپس آ کر اس نے فائنل سمسٹر پاس کیا۔ ڈگری دینے کی تقریب گارڈن ٹاون کے ایک بہت بڑے شادی گھر میں منعقد کی گئی۔ ایک مرکزی وزیر نے کامیاب طالب علموں میں ڈگریاں تقسیم کیں۔ نور علی کو حیرت تھی کہ اس کی یونیورسٹی نے تمام طالب علموں کو پاس کر دیا اور سب کو ایک جیسے نمبر دے دیے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کئی لوگ جو ڈگری وصول کر رہے ہیں وہ تو اس درسگاہ میں کبھی بھی نہیں آئے۔ تقریباََ پچاس فیصد چہرے بالکل اجنبی تھے۔ لیکن وہ بہت خوش تھا۔ اس نے وزیر صاحب کے ساتھ تصویر بنوائی اور اسے فریم کروا کر اپنے گھر میں لگوانے کے لیے فوٹو گرافر کو دے دیا۔ پہلی بار یونیورسٹی کے مالک کو دیکھا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ لاہور کا ایک بہت کامیاب ٹھیکے دار ہے ۔ نور علی کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ وہ ہر اشتہار کو غور سے پڑھ کر اپنی درخواست بھیجتا تھا۔ مگر اسے ہر جگہ ناکامی ملی۔ کیونکہ اس کی تنخواہ بارہ سے پندرہ ہزار بتائی جاتی تھی۔ اتنی کم تنخواہ میں نور علی اپنا گزارہ نہیں کر سکتا تھا اور اپنے گھر والوں کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن ایک دن اس پر قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی۔ اسے تیس ہزار روپے میں ایک بینک میں نوکری مل گئی۔ اب نور علی اپنی ماں کو لاہور لانا چاہتا تھا۔ نور علی نے بینک میں کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ صبح سے رات تک کام کرتا تھا۔ اس کا منیجر اس سے بہت خوش تھا۔اسے ایک میٹنگ کے لیے کراچی بھی بھیجا گیا۔ نور علی نے پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کیا تھا۔

لاہور واپس آیا تو منیجر کا رویہ بہت روکھا تھا'اسے آتے ہی حکم ملا کہ وہ اپنے زونل چیف کے پاس جائے مگر کیوں۔ اس کا جواب اسے بہت جلد معلوم ہو گیا۔ اسے بتایا گیا کہ جس یونیورسٹی سے اس نے تعلیم حاصل کی ہے وہ فراڈ نکلی ہے۔ حکومتی اداروں کی تحقیق کے مطابق اس درسگاہ کو M.B.A کرانے کی کوئی اجازت نہیں تھی اور اس کا کسی بھی ملکی یا غیر ملکی ادارے سے الحاق نہیں تھا۔ نور علی کی کی ڈگری صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس پر قیامت گزر گئی۔ اسے لگا کہ وہ دکھ سے مر جائے گا مگر وہ زندہ رہا۔ وہ بہت بوجھل قدموں سے اپنے گھر واپس گیا۔ بہن کے لیے اب اپنے گھر سے دور رہنا ناممکن تھا سو وہ واپس چلی گئی۔

نور علی کام کرنا چاہتا تھا۔ ماں کو لے کر وہ پشاور اپنے ایک عزیز کے گھر آ گیا۔ اور ایک میڈیکل اسٹور پر نوکری کر لی۔ اب اس کا کوئی خواب نہیں تھا۔ اس کی تنخواہ پندرہ ہزار تھی جو اسے ہر ماہ مل جاتی تھی۔ ماں کی بیماری اس کی اپنی تکلیف اور اس کے ساتھ کیے گئے تعلیمی فراڈ نے اسے ایک خاموش دیوار میں تبدیل کر دیا تھا۔ مگر وہ ہمت والا جوان تھا۔ اس نے اسٹور کے بعد رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ اس کی آمدنی اور اپنی تنخواہ سے وہ دو کمروں کا مکان لینے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ مشین کی طرح کام کرتا تھا۔ بغیر بات کیے ہوئے اور بغیر کسی جذبات کے۔

ایک دن اس نے ٹریفک سگنل پر رکشہ کھڑا کیا تو اچانک وہ ایک خود کش حملے کا شکار ہو گیا۔ نور علی کو علم نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے سگنل پر کھڑا ہے جہاں اس کے ساتھ کچھ سرکاری گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور وہ سرکاری افسر دہشت گردوں کا ٹارگٹ تھے۔ دھماکے سے نور علی بے ہوش ہو گیا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو وہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں تھا اور اس کی دونوں ٹانگیں کاٹی جا چکی تھیں۔ ایک سرکاری شخصیت اس کی عیادت کے لیے آئی اور بہت افسوس کا اظہار کیا۔ اسے بتایا گیا کہ زخمیوں کو حکومت ایک لاکھ روپے دے گی۔ اس کو اسپتال سے نکلتے ہوئے لکڑی کی دو بیساکھیاں مفت دی گئیں اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ وہ بہت مشکل سے اپنے گھر پہنچا۔ ماں نے اسے بیساکھیوں پر دیکھا تو اس پر سکتا طاری ہو گیا ۔ وہ کئی دن اپنی ماں کے کمرے میں لیٹا رہا۔ دونوں خاموش تھے۔ اس نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اپنی بیساکھیاں بیچ کر ایک چھوٹی سی ریڑھی بنوائی جو ہاتھوں سے چلتی تھی اور چوراہوں پر جا کر بھیک مانگنی شروع کر دی۔ نور علی نے اپنی قمیض اتار کر ڈگری کو گلے میں ڈال لیا۔ آج نور علی پشاور کے چوراہوں میں اپنی ڈگری دکھا کر بھیک مانگتا ہے۔ اگر آپ پشاور جائیں اور پیدل پھریں تو ہو سکتا ہے کہ نور علی آپ کو کہیں نظر آ جائے۔

آج ایک طرف دہشت گرد ہمیں مار رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ تعلیمی دہشت گرد ہمارے نوجوانوں کو اس نفیس طریقے سے قتل کر رہے ہیں کہ ان کے ماں باپ کو بھی علم نہیں کہ ان کے لعل کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آخر ہم لوگ کہاں پناہ لیں؟ ہمارے مسائل آخر کیوں حل نہیں ہوتے؟ ہم کہاں جائیں؟ ہمارے جگر کے ٹکڑے اتنی بے وقعتی اور ظلم کا شکار کیوں ہیں؟ کوئی ہے جو اس خوفناک سکوت کو ختم کر سکے؟ مجھے یقین ہے کہ میری آواز کوئی نہیں سنے گا اور پھر کیوں سنے؟ مگر شاید آپ مجھے سن پائیں؟ شاید آپ کسی اپنے نور علی کو بیروزگار اور اپاہج ہونے سے محفوظ رکھ سکیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں