نجکاریحقیقت یا فسانہ
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے اسٹیل مل،PIA اور ریلوے سمیت تقریباً31 قومی اداروں اور بڑے صنعتی اداروں کی ...
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے اسٹیل مل،PIA اور ریلوے سمیت تقریباً31 قومی اداروں اور بڑے صنعتی اداروں کی نجکاری کے فیصلے کا اعلان کیا۔یوں ایک بار پھر یہ بحث چھڑگئی کہ اس نجکاری کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ماہرین معاشیات اس سلسلے میں دوحصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ صنعتیں چلانا ریاست کا کام نہیں ہے۔اس لیے صنعتیں وہ لوگ چلائیں ،جو اس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔جب کہ ایک دوسرے حلقے کاخیال ہے کہ نجکاری کے براہ راست اثرات محنت کشوں پر مرتب ہوتے ہیں اوران کا روزگار اور اس کا تحفظ متاثرہوتا ہے،اس لیے اس سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھ رہاہے کہ آیا بعض بیمار قومی اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں کیا قومی خزانے کو اس قدر فائدہ ہوسکتا ہے کہ اس کے مالیاتی بوجھ میں کسی قدر کمی آسکے گی یا نہیں؟کچھ ماہرین معاشیات یہ سمجھتے ہیں کہ صنعتوں اور قومی مالیاتی اداروں کی نجکاری سے پہلے اس کے اہداف کاتعین کیا جانا ضروری ہے،یعنی نجکاری کرنے کا مقصد کیا ہے؟کیا محض خسارہ کم کرنے کے لیے نجکاری کی جارہی ہے؟ یا دوسرے قومی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کی جارہی ہے؟
اس سلسلے میں معاشرے کی مختلف سطحوں پر مباحثے جاری ہیں،جو اس عمل کے بارے میںریاستی فیصلہ سازی میں معاون ثابت ہوں گے ۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(SZABIST)جو مختلف سیاسی، سماجی،معاشی اور ثقافتی موضوعات پر مذاکروں اور لیکچر زکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے،تاکہ طلبا وطالبات کے ساتھ متوشش شہریوں کو اہم قومی امور پر آگہی فراہم کی جاسکے۔ گزشتہ دنوں اس نے تعلیمی ادارے نے اس موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا،تاکہ اس کے مختلف پہلوئوسامنے آسکیں۔اس سیمینار کا عنوان نجکاری:حقیقت یا فسانہ تھا۔اس سیمینار کے کلیدی مقررحکومتِ بلوچستان کے اقتصادی مشیر ڈاکٹر قیصر بنگالی اورانٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کے سابق ڈائریکٹر ظفر شہید تھے۔ ابھی ہم اس سیمینار کے مندرجات پر اظہاریے کے نکات مرتب کررہے تھے کہ ہمارے دوست نجم الحسن عطا کا اس حوالے سے ایک طویل مضمون سامنے آیا،جس میں اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر مزید وضاحت کے ساتھ سے بحث کی گئی تھی۔
نجکاری پر بحث کرنے سے قبل صنعتکاری کے عمل کا مطالعہ ضروری ہے۔قیام ِپاکستان سے قبل اس خطے میں مغلپورہ لاہور کے ریلوے کیرج ورکشاپ کے علاوہ کوئی بڑاصنعتی ڈھانچہ نہیں تھا۔جب کہ کراچی چار لاکھ آبادی کامرکنٹائل شہراورمغربی حصے کی واحد بندرگاہ تھا۔قیام پاکستان کے بعد 1949 میں صنعتکاری کاآغاز ہوا۔اس کے پس پشت دو عوامل کارفرماء تھے۔ اول،کولمبو پلان کے تحت پاکستان کومختلف عالمی اداروں کی طرف سے صنعتکاری کے لیے اقتصادی اور ٹیکنیکل امداد ملی،جس کے نتیجے میں پاکستان نے کراچی اور حیدرآباد کے قریب کوٹری میں صنعتی علاقے(SITE)قائم کیے۔دوئم،ہندوستان کی ریاستوں مہاراشٹراور گجرات سے آنے والے کاروباری طبقات نے ان دوشہروں میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگائیں۔حکومت پاکستان نے 1950 میں PIDC Act, 1950(XLV of 1950) کے تحت پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن(PIDC)قائم کی۔جس کا مقصد پاکستان میں پبلک سیکٹرمیںصنعتکاری کے علاوہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں کو فنی تعاون فراہم کرناتھا۔اس کارپوریشن کے پہلے سربراہ غلام فاروق خان مرحوم(سابق صدر غلام اسحاق خان کے بڑے بھائی) تھے۔1955 میں ون یونٹ کے قیام کے بعداسے دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا ۔تاکہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں صنعتکاری کے عمل کو بہتر اندازترقی دی جاسکے۔
لیکنPIDC نے 1960 کے عشرے میںاپنی بعض اہم صنعتی منصوبے نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کردیے،جو اس کے قیام کے بنیادی فلسفے کے برخلاف تھے ۔ اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں صنعتکاری کا عمل یک طرفہ ہوگیااور قومی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے صنعتکاری کا سلسلہ رک گیا۔ اس کے علاوہ 1958-59 میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس(PIDE) کی جانب سے کراچی کاپہلااور آخری وسیع البنیاد سروے کیا گیا۔ اس کے بعد نہ کراچی اور نہ ہی کسی دوسرے شہر میں صنعتکاری کے لیے درکار ضروریات کا اندازہ ہوسکا۔حالانکہ صنعتی معاشروں میں اس قسم کے کے سروے صنعتی ترقی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔حکومت کے اس رویے نے صنعت کاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا۔1957 میںصنعتکاروں کی مالی معاونت اور عام شہریوں کو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے لیے پاکستان انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ کارپوریشن (PICIC)قائم کی گئی۔مگر یہ ادارہ بھی مختلف وجوہات کی بناپر اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔اس کی غیر فعالیت کودیکھتے ہوئے حکومت نے 2007 میں اسے سنگاپور کے بینکNIBکے ہاتھ فروخت کردیا گیا۔یوں اس وقت سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ نہیں جو صنعت کاری کے عمل کی مانیٹرنگ یانجی شعبے کے صنعتکاروں کو فنی مہارت مہیاکرسکے۔
1972 میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے بیشتر صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔قومیائے جانے کی اس پالیسی کو جہاں محنت کش طبقات کے علاوہ بیشتر ماہرین معاشیات کی جانب سے بڑے پیمانے پر سراہا گیا، وہیں بعض ماہرین معاشیات نے اس پر شدید تنقید بھی کی۔ اس عمل کی حمایت کرنے والوں کا موقف تھا کہ اس عمل سے محنت کشوںکے روزگار کو تحفظ حاصل ہوا۔سوشل سیکیورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹ اسکیموںکی وجہ سے ان کا معاشی اور سماجی تحفظ یقینی ہوا۔اسٹیل مل سمیت کئی قومی صنعتوں نے قومی خزانے کو خطیر منافع پہنچایا۔اس کے برعکس وہ حلقے جو اس نظام کے مخالف تھے، ان کے خیال میں اس عمل کی وجہ سے صنعت کاری کے عمل کو کئی نقصان پہنچے۔اول، صنعت کاروں میں مایوسی پھیلی اور انھوں نے سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔دوئم، پیپلزپارٹی نے مطلوبہ اہلیت اور گنجائش کا خیال رکھے بغیر اپنے کارکنوں کو بھاری تعدادکی ان اداروں میں بھرتیاں کیں، جس سے ان کے مالیاتی بوجھ میں اضافہ ہوا۔سوئم،پیپلز پارٹی کی جانب سے کارکنوں کی تقرری نے دیگر جماعتوں کو مختلف قومی اداروں میں اپنے افراد بھرتی کرنے کی راہ دکھائی اور سیاسی وابستگیوں کی بنیادپر مختلف اداروں میں تقرریوں کا نا ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوا۔ جس کی وجہ سے مختلف ایسے شعبے جہاں پیشہ ورانہ مہارت کی انتہائی اشد ضرورت ہوتی ہے، ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔چہارم،قومیائے جانے کا عمل انتہائی عجلت میں کیا گیااور متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے بجائے بیوروکریٹس کے تقرر نے بھی صنعتوںکی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا اور بیشتر صنعتیںدیوالیہ ہوگئیں۔
جس زمانے میں مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی، دنیا میں کارپوریٹ کلچر کا آغاز ہورہاتھا۔دوسری طرف جنرل ضیاء الحق،جو مسٹر بھٹو کے پاکستانی سیاست پرموجود اثرات سے خوفزدہ تھے، ان کی خواہش تھی کہ مسٹربھٹو کے ان تمام فیصلوں کوتبدیل کیاجائے، جو مسٹر بھٹو کو سیاسی دوام بخشنے کا سبب بن سکیں۔لہٰذا انھوں نے قومیائی گئی صنعتوںاورتعلیمی اداروں کی ان کے سابقہ مالکان کو واپسی کافیصلہ کیا۔یہ عمل بھی انتہائی عجلت میں کیا گیا اور اس بارے میں پہلے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ جنرل ضیاء کے ان اقدامات پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ آسمان سے گرا کھجورمیںاٹکا۔یعنی اگر مسٹر بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کے نام پر بیوروکریٹائز کرنے کی پالیسی نے صنعتوں کی کارکردگی کو متاثرکیا،توجنرل ضیاء کی پالیسی نے محنت کشوں کے مستقبل کو مشکوک بنادیا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق نہ قومیانے کی پالیسی کے دوررس نتائج برآمد ہوئے اور نہ ہی ان اداروں کی نجکاری نے کوئی فائدہ پہنچایا،کیونکہ حکمرانوں کے سامنے کوئی واضح ایجنڈا نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ آج بھی حکمران اس سوال پر غور نہیں کررہے کہ وہ قومی اداروں کی نجکاری کیوں کررہے ہیں؟آیا ان کامقصد ان اداروں کی فروخت سے Revenueحاصل کرناہے، تاکہ قرضوں سے چھٹکاراحاصل کیا جاسکے؟تو ان ادارں سے اتنی رقم ملنے کی توقع نہیں کہ حکومت قرضہ ادا کرسکے، کیونکہ یہ ادارے غلط انتظامی ڈھانچے کہ سبب تباہی کے آخری دہانے تک جاپہنچے ہیں۔ دوئم ،ان سے اتنی رقم حاصل ہوجائے کہ دوسرے اداروں کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے، تو یہ بھی ممکن نظر نہیں آرہا، کیونکہ حکومت اس قسم کے انتظام (Management)میں کسی قسم کی واضح اہلیت نہیں رکھتی۔
پاکستان کے مخصوص حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت بعض اہم قومی اداروں خاص طورپر بڑے صنعتی اور منفعت بخش اداروں کی نجکاری کے بجائے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماحول کو فروغ دے تاکہ ایک طرف سرمایہ کاروں کوسرمایہ کاری میں دلچسپی پیدا ہو ا اور ریاست کی شرکت سے محنت کشوں کو تحفظ کا احساس رہے۔ اس سلسلے میں حیدر آباد سے میرپورخاص تک تعمیر کی جانے والی سڑک کی مثال دی جاسکتی ہے، جوپبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بہتری مثال ہے۔ لہٰذا حکومت اہم قومی اداروں کی مکمل نجکاری کے بجائے انھیںپبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے جدیداصولوں پر چلانے کی کوشش کی جائے تو شاید بہتر نتائج برآمد ہوں۔