بائیں بازو کی بے مثال جدوجہد
بائیں بازو سے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ کامریڈوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے...
KARACHI:
بائیں بازو سے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ کامریڈوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کارکنوں کی تعداد سے کبھی بھی انقلاب نہیں آتا بلکہ نظریاتی پختگی، جرأت اور پیش قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت چین اور انڈونیشیا میں تھی جب کہ انقلاب سب سے پہلے پیرس کمیون اور سوویت یونین کی شکل میں آیا۔ کیوبا میں تو چند نوجوانوں نے انقلاب برپا کردیا۔ پاکستان وجود میں آنے کے بعد 1951 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں ساری نشستیں کمیونسٹ پارٹی نے جیتی تھیں، مسلم لیگ کو صرف 9 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ یہ کمیونسٹ ہی تھے جنہوں نے پاکستان میں مزدور طبقے کو منظم کیا اور ریڈیکل جماعتوں کی شکیل دی۔ جب 1951 میں کمیونسٹ پارٹی مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوئی۔ پختونخوا میں کاکا صنوبر خان، افضل بنگش، کاکا خوشحال خان، بلوچستان میں کامریڈ گل خان نصیر اور شیر محمد مری، سندھ میں سید جمال الدین بخاری، عزیز سلام بخاری، سائیں عزیز اﷲ اور سوبھو گیان چندانی جب کہ پنجاب میں دادا فیروز الدین منصور، دادا امیر حیدر اور دادا امیر داد وغیرہ محنت کش عوام کی رہنمائی کر رہے تھے۔
کمیونسٹوں کے تین اخبار ڈیلی ٹائمز، امروز اور لیل النہار شایع ہوا کرتے تھے۔ آج بھی پندرہ روزہ ''طبقاتی جدوجہد'' 30 سال سے بلاناغہ شایع ہورہا ہے۔ مزدوروں اور کمیونسٹوں کی جدوجہد کے ذریعے ہی سالانہ چھٹی، اتفاقیہ چھٹی، میڈیکل چھٹی، بونس، گریجویٹی، اولڈ ایج بینیفٹ اور پراویڈنٹ فنڈ محنت کشوں کو حاصل ہوا۔ جہاں تک بائیں بازو کی تمام جماعتوں کے متحد ہونے کی بات ہے تو یہ دنیا میں کہیں بھی ممکن نہیں ہوا اور نہ ہوسکے گا۔ اس لیے کہ نظریاتی اختلاف ایک اصولی اور حقائق پر مبنی منطق ہے۔ یہ اختلاف پیرس کمیون، بالشویک انقلاب، انقلاب کیوبا اور انقلاب فرانس کے موقعے پر بھی موجود تھا۔ جہاں ایک کے علاوہ ساری جماعتیں ممنوع ہوں، پھر وہاں انقلاب پارٹی کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ بورژوا جماعتوں میں ایسے اختلاف تو مفادات کی خاطر ہوتے ہیں جب کہ بائیں بازو کے اختلاف بہتر نظام کی خاطر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر بورژوا جماعتیں صبح شام اپنا موقف بدلتی رہتی ہیں۔ یہ صرف اس لیے کہ لوٹ کے حصے میں کمی نہ ہو۔
اب بھی جتنی مزدور تحریکیں چلیں یا چل رہی ہیں ان میں بائیں بازو کا نمایاں کردار ہے۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے خلاف جدوجہد ہو، کے ای ایس سی کی نجکاری کے خلاف ہو یا اسٹیل مل کے خلاف ہو، یا ریلوے کے خلاف یا کے پی ٹی کے خلاف یا اب پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف تحریک چلے گی اس میں بھی بایاں بازو ہی پیش پیش رہے گا۔ ایوبی آمریت میں پاکستان کا پہلا شہید حسن ناصر کمیونسٹ تھا، جنرل ضیا الحق کی آمریت میں شہید نذیر عباسی کمیونسٹ تھا پھر کامریڈ محمد ڈاکٹر تاج بھی کمیونسٹ تھے۔ حالیہ انتخابات میں جنوبی وزیرستان سے 8 ہزار ووٹوں سے جیتنے والے کامریڈ علی وزیر کو چند پولنگ بوتھ پر ری الیکشن کروا کر 3000 ووٹوں سے ہروایا گیا۔ کامریڈ علی وزیر کی آخری انتخابی ریلی میں 30 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے کامریڈ دنیا بھر کے کامریڈوں سے مختلف ہیں۔ دنیا بھر کے سارے بورژوازی یہی کہتے ہیں خاص کر سوشل ڈیموکریٹک یعنی بے ضرر سرمایہ دار۔ فرانس کے بورژوا یہ کہتے ہیں کہ فرانس کے کمیونسٹ مختلف ہیں باقی دنیا کے اچھے ہیں۔
ہندوستان یا ایران کا سرمایہ دار بھی یہی کہے گا کہ ہمارے ہاں کے کمیونسٹ انوکھے ہیں باقی سب اچھے ہیں۔ جہاں تک کہ ثور انقلاب یعنی افغانستان کا اپریل انقلاب کی بات ہے تو افغانستان اور پاکستان کے کمیونسٹوں کا پہلے سے نظریاتی یکجہتی اور ہم آہنگی موجود تھی۔ کامریڈ نور محمد ترکئی ممبئی میں رہے اور کراچی بھی آچکے تھے۔ اب بھی کابل میں پی ڈی پی اے کا دفتر کام کر رہا ہے اور ہفت روزہ ''خلق'' نامی اخبار بلاناغہ شایع ہورہا ہے، وہاں ''مبارزہ طبقاتی'' رسالہ بھی شایع ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سال میں نورمحمد ترکئی کی چار کتابوں کے ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ ہاں مگر پاکستان کے نام نہاد لیفٹ نے (حقیقتاً قوم پرست) افغانستان میں رہ کر خوب فائدہ اٹھایا اور ڈاکٹر نجیب کی شہادت کے بعد وہاں سے بھاگ آئے۔ جہاں تک کمیونزم کے خاتمے کی بات ہے یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ اس لیے بھی کہ دنیا میں اب تک کسی بھی ملک یا خطے میں کمیونزم آیا ہی نہیں۔ کمیونزم درحقیقت اسٹیٹ لیس سوسائٹی ہوتی ہے۔ جن ملکوں کی ہم سوشلزم کی بات کرتے ہیں وہ دراصل منصوبہ بند ریاستیں تھیں۔ عالمی انقلاب کے بعد ہی کمیونزم نافذ ہوگا۔
عاقبت نااندیش کہتے ہیں کہ بائیں بازو کے ساتھیوں کو کافی ہاؤس اور ڈرائنگ روم کی سیاست کی بات کی ہے تو تمام فوجی آمریتوں میں سب سے بڑھ کر پیش پیش کمیونسٹ ہی رہے ہیں۔ جب بھی فوج کشی ہوئی تو کمیونسٹوں نے ہی مظاہرے کیے۔ حبیب جالب، فیض احمد فیض، سوبھوگیان چندانی، مرزا ابراہیم، جام ساقی کیا یہ کمیونسٹ نہیں تھے جنہوں نے سال ہا سال قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھنے سے حسن ناصر، نذیر عباسی اور ڈاکٹر تاج نہیں بنا جاسکتا، ہاں مگر وزیر ضرور بنا جاسکتا ہے۔ جو وزیر بنے یا بن رہے ہیں وہ کمیونسٹوں کے نام پر دھبہ ہیں۔ جب کہ وہ جماعتیں جو کل تک سامراج مخالف باتیں کرتی تھیں مگر کبھی پرویز مشرف کے دور میں سرکاری دورے پر مامور ہوگئے اور سامراج کے خلاف جدوجہد کرنا ترک کردیا تو ان کی جگہ پر کرنے کے لیے جعلی سامراج مخالف ملا حضرات میدان عمل میں آگئے۔ کم علمی کے لحاظ سے کمیونسٹوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے خلاف بولتے رہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مولوی برکت اﷲ بھوپالی، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا عبدالمجید سندھی، کاکا خوشحال خان، کاکا صنوبر خان اور ایسے ہزاروں کمیونسٹ تھے اور ہیں جو مذہبی ہیں۔
کمیونزم کا مطلب کافر نہیں بلکہ نسل انسانی ، برابری، مساوات، پنچایتی یا امداد باہمی وغیرہ ہے، جب کہ کافر کو انگریزی میں ایتھیسٹ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کامریڈ علی وزیر جنوبی وزیرستان میں انتخابی مہم میں 30 ہزار کے جلوس کی قیادت کرلیتا ہے۔ کوریا میں جو ''زوچے'' کا لفظ استعمال ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہ ہر ملک اپنے الگ الگ اختیار سے انقلاب برپا کرے بلکہ کورین زبان میں زوچے کا مطلب "Realiance" یعنی خود انحصاری ہے۔ نظریہ طبقاتی ہوتا ہے، ہاں اس کے اطلاق کے طریقہ کار مختلف ہوسکتے ہیں۔ جہاں شخصیت پرستی اور جی حضوری کی بات ہو تو یہ عمل عقیدت پرستی اور رجعت پرستی میں شامل ہوجاتا ہے۔ ہم سب برابر کے انسان ہیں، کوئی دیوتا ہے اور نہ کوئی غلام۔ نجکاری کے خلاف جدوجہد میں اور رہنمائی میں بایاں بازو نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ لوڈشیڈنگ، پانی، بجلی، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف پشاور، کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، رحیم یار خان، صادق آباد، ملتان، لاہور، اسلام آباد، پنڈی غرض یہ کہ ہر جگہ بایاں بازو ہی پیش پیش ہے۔
ہاں مگر متوسط طبقے کے نام نہاد دانشور اور سوشل ڈیموکریٹ انقلابی جدوجہد کی ہر تحریک میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل کے مزدوروں، چلی اور یونان کی طلبہ تحریک، پرتگال میں کامیاب ہڑتال کرکے مطالبات منوانا اور ترکی، اسپین، بلغاریہ، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ میں عوام کی ہمہ گیر جدوجہد کی رہنمائی بھی بایاں بازو ہی کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں لگتا کہ بورژوا پارٹیوں کی موقع پرستی، عوام دشمنی، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے، مال بنانے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے خلاف تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے بائیں بازو پر پتھراؤ درحقیقت ملائیت اور سامراجیت کی بالواسطہ مدد کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی انقلاب برپا ہوگا اور غیر طبقاتی سماج قائم ہوگا اور نجی ملکیت کا خاتمہ ہوگا۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔