فاتحانہ پسپائی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
آج کے دور میں عالمی تنازعات کو حل کرنے کا بہترین راستہ مذاکرات کو سمجھا جاتا ہے لیکن امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات نے دنیا بھرکی محکوم اقوام کو یہ سبق دیا ہے کہ مذاکرات اسی وقت آگے بڑھتے ہیں جب کمزورکے ہاتھ میں بھی بندوق ہو اور وہ مرنے مارنے پر اتر آئے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہم توکشمیرکا مسئلہ مذاکرات سے چاہتے ہیں لیکن دنیا کو اس کا بھی علم ہے کہ بھارت اس میز پر آنے کے لیے کبھی تیار نہیں، وہ دلیل اور منطق کی زبان نہیں سمجھتا یوں بھارت کے خلاف نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بڑی جنگ ہمارے '' قومی مقدر'' میں لکھ دی گئی ہے۔ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ ہمیں ہر حال میں حل کرنا ہے اور ہم ایک ایسی حالت جنگ میں بھی تا دیر زندہ نہیں رہ سکتے جو لڑے بغیر ہمارے وسائل اور ہمارے قومی سکون کو کھاتی چلی جائے۔
اگر ہم میں سکت ہے تو کشمیر کو بھول جائیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ہمیں بھارت کے خلاف ایک ہمہ گیر اور بھرپور جنگ کی تیاری کر لینی چاہیے اور اس کے لیے سب سے اہم ضرورت موثر ، طاقتور اور پرمغز لیڈر شپ کی ہوگی۔ ایک ایسی قیادت جس میں دانش بھی ہو، جرأت بھی، شجاعت بھی اور حب الوطنی بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ 72 سالوں میں پہلی بار نہایت نازک اور فیصلہ کن موڑ پر آگیا ہے اور مزید گمبھیر ہوتے ہوئے پوری توجہ اور سنجیدگی کا تقاضا کر رہا ہے۔ وقت کی تکرار ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں اور اپنے گریبانوں میں نظریں دوڑائیں کشمیریوں کی حد سے تجاوزکرتی قربانیوں اور مودی کی جارحانہ حرکتوں کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ہماری پہلی قومی توجہ کا متقاضی بن گیا ہے۔کشمیری نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اپنی عصمت بچانے کے لیے سر توڑکوشش کر رہی ہیں لیکن اب یہ کسی طور محفوظ نہیں رہا۔ ہزاروں لاکھوں کشمیری خواتین کی عصمتوں اور عزتوں کو ہی ذہن و دل میں لے آنا چاہیے۔ حال ہی میں 300 سے زائد جواں سال گھروں میں دبکی کشمیری لڑکیوں کو زبردستی آرمی بیرکس میں مودی کے مسلح بدمعاشوں نے پہنچا دیا لیکن کہیں سے کوئی احتجاج تک بلند نہیں ہوا۔
سیدھی اور کھری بات تو یہی ہے کہ ہماری قوم میں ہمت اور شجاعت کی حد درجہ کمی ہے۔ قوم کے صرف ایک حصے میں یہ خصوصیت دیکھی جاسکتی ہے لیکن اس محدود سی صلاحیت کو بھی کون بروئے کار لائے گا؟ ہر کوئی بھارت کو للکار رہا ہے اور احتجاج کر رہا ہے اور بس۔ کم سے کم 60 برسوں سے تو ہم یہ فاتحانہ پسپائی اپنے ارباب اختیار کی طرف سے دیکھتے چلے آرہے ہیں، جنگ تو بھارت سے دور کی بات وہ اس حوالے سے قربانی و ایثار جیسی گفتگو کو بھی بے کار کی باتیں سمجھتے ہیں۔ کشمیری اکیلے ہیں اور پاکستان عجیب گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے کرتوتوں کی وجہ سے برسوں سے عالمی تنہائی کا شکار ہے۔
پاکستان کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی عالمی طاقت کھڑی نہیں ہے، حد تو یہ کہ چین بھی اس رول کے لیے تیار نہیں جو اس نے ویت نام کی جنگ میں ادا کیا تھا۔ عرب دنیا تو اس حوالے سے ہمارے ساتھ بالکل نہیں وہ تو مودی کو اپنا بھائی کہتی اور اسے ایوارڈ دیتی ہے۔ وقت ثابت کرچکا کہ مودی عربوں کی آنکھ کا تارہ ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے وہ اچھے تعلقات رکھتا ہے لیکن بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے وہ نفرت کرتا ہے۔
ہمارا مشاہدہ اور مطالعہ کہتا ہے کہ مودی کا رول ماڈل اسرائیل ہے جو سات دہائیوں سے فلسطینی مسلمانوں کے سینے میں خنجر گھونپے بیٹھا ہے۔ ماضی میں اسلامی ممالک کا اسرائیل کے خلاف اتحاد اور جنگیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں بلکہ اسے مزید علاقے ہتھیانے کا باعث بنیں۔ اسرائیل کے بعد بھارت بھی امریکا کو پیارا ہے اور اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ امریکا سمیت تمام دولت مند مسلمان ممالک نے بھارت میں حد درجہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کوئی بے وقوف ہی اس سامنے کی سچائی سے انکاری ہوگا کہ مودی بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور اپنے ملک بھارت میں وہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔ ہمیں کشمیر کے علاوہ آسام کے مسلمانوں کا المیہ بھی سمجھنا چاہیے۔ اور اس لرزہ خیز سچائی کو بھی کہ آنے والے وقت میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، میانمار اور افغانستان پر بھی بھارت قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
بدقسمتی سے کشمیر کے معاملے میں ہم نے سفارت کاری کے میدان سمیت ہر محاذ پر شکست قبول کرلی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب ہمیں مودی یا بھارت کا غرور خاک میں ملانے اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے اللہ کی بے آواز لاٹھی کا ہی انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لاٹھی پست ہمت، شکست خوردہ اور بزدل لوگوں کی مدد کو کبھی نہیں آتی، ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف احتجاج ہی کرتے رہیں اور دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے اور اسی طرح کی بے عملی کا مظاہرہ کرتے رہے تو اس سے وہی کچھ ہوگا جو گزشتہ 72 سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
ہماری دانست میں کشمیر کی آزادی کا سب سے اچھا موقع 1962 میں ہمیں ملا تھا جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی، چین نے ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ بھارتی فوج چین کی سرحد پر اکٹھی ہے، کشمیر خالی ہے اسے آزاد کرا لو، لیکن امریکی صدر کینیڈی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرلڈ نے ایوب خان کو کشمیر پر حملے سے باز رکھا ، اور آج پوری اقوام عالم کے کہنے کے باوجود بھارت کشمیر میں جارحیت سے باز نہیں آرہا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں اپنی مشہور زمانہ کتاب The Myth of Independence میں لکھا تھا کہ نہرو اور سارے انتہا پسند ہندوؤں کی سوچ اکھنڈ بھارت ہی ہے اور وہ نہ صرف کشمیر پر قبضے کی کوشش کریں گے بلکہ پاکستان کو بھی توڑنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ٹھیک چار سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھٹو نے یہ بھی لکھا تھا اپنی اس کتاب میں کہ پاکستان کے خلاف ہر سازش میں بھارت کو امریکا کی تائید حاصل رہی ہے اور آیندہ بھی حاصل رہے گی۔ یہ دونوں مل کر پاکستان کا وجود مٹانا چاہتے ہیں اور کشمیری پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا لیکن خدارا بھٹو کی 1967 کی وارننگ کو نظرانداز نہ کریں کیونکہ دشمن کی نظر صرف آزاد کشمیر پر ہی نہیں بلکہ پاکستان پر بھی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے، اسے نہ ڈوگرہ فوج دبا سکی اور نہ ہی بھارتی فوج کبھی ختم کرسکے گی۔ کشمیریوں کا جذبہ حریت بغاوت کا روپ دھار چکا ہے اور یہ بغاوت فلسطینی مسلمانوں کی مانند جاری و ساری رہے گی۔ جدوجہد، ظلم و ستم اور شہادتیں لگتا ہے اب دنیا بھر میں مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہیں، خدا جانے یہ سلسلہ کب اور کیسے رکے گا؟