جدوجہد جاری رہے
پاکستانی حکومت اگرچہ ٹرمپ کی ثالثی کا دم بھر رہی ہے مگر وہ بھی ایک دھوکہ ہے۔
جس طرح کراچی والوں نے ایم کیو ایم کے بھارت پرست رہنماؤں کو پہچاننے میں دیر کی اسی طرح پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی بھارت نوازی کو جاننے میں غلطی کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ کیا وطن پرست دشمن کے نظریے کا ساتھ دے سکتے ہیں؟
جب اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیر اعظم کشمیریوں کا اہم ترین مقدمہ پیش کر رہے تھے عین اس وقت کراچی والوں، پختونوں اور بلوچوں پر نام نہاد ظلم کا پرچار اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے کیا جا رہا تھا۔ کیا اس طرح وطن عزیز کے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کو تقویت نہیں پہنچائی جا رہی تھی؟
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ اگر ان کی پارٹی ''را'' کے نیٹ ورک اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف آواز بلند نہ کرتی تو کراچی والے اب بھی قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کے نرغے میں پھنسے ہوتے۔ چونکہ نیویارک میں مودی کی تقریرکے وقت ایک بڑے احتجاجی اجتماع کا پہلے سے اعلان کردیا گیا تھا چنانچہ بھارتی اہلکاروں نے امریکا میں مقیم اپنے زرخرید غلاموں کو عمران خان کے خطاب کے وقت وہاں احتجاج کرنے کے لیے اکٹھا کرلیا تھا مگر یہ مٹھی بھر لوگ کشمیریوں کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے عشر عشیر بھی نہیں تھے بس وہی ندیم نصرت، واسع جلیل اور گلا لئی اسمٰعیل کے چہرے نظر آرہے تھے۔ وہ بھارتی صحافیوں کو نام نہاد ظلم و ستم کی کہانیاں گھڑ رہے تھے چونکہ ان میں جھوٹ کی جھلک تھی اور بے اثر تھیں اس لیے کسی عالمی نشریاتی ادارے نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی ۔
عمران خان نے کشمیریوں کے مقدمے کی ایک تجربہ کار اور مدبر وکیل کی طرح وکالت کی جس میں وہ کامیاب رہے۔ وزیر اعظم نے فی البدیہہ تقریر کی اور ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ لکھی ہوئی تقریر کے وہاں چوری ہونے کی عام روایت ہے اور پھر عمران خان کی اہم تقریر تو فوراً ہی چوری ہوجاتی کیونکہ بھارتی گماشتوں کو اس کی ازحد ضرورت تھی تاکہ وہ اس کا توڑ پیدا کرسکتے مگر خوش قسمتی سے ایسا کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔
عمران خان نے پینتالیس منٹ تک خطاب کیا جب کہ مودی کی تقریر صرف پندرہ منٹ تک محدود رہی جس میں کشمیر کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔ مودی کا خیال تھا کہ عمران خان کی تقریر غیر موثر رہے گی مگر جب عمران خان نے اپنے خطاب میں مودی اور آر ایس ایس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں تو بھارت کو فوراً ہی ''جواب کے حق'' کی ضرورت پیش آگئی۔ بھارتی مندوب ودیشا مترا نے یہ حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف زہر تو اگلا مگر عمران خان نے اپنی تقریر میں مودی اور آر ایس ایس کے بارے میں جو حقائق بیان کیے تھے وہ ان کا جواب نہ دے سکیں۔ اس کی تقریر اس لیے بھی بے اثر رہی اس لیے کہ یہ بے وقت کی راگنی تھی۔
مودی کی تقریر بھی عالمی رہنماؤں کے پلے نہیں پڑی تھی اس لیے کہ وہ ہندی میں تھی۔ عمران خان کی تقریر تکنیکی لحاظ سے بھی مودی سے بہتر تھی۔ مودی کی تقریرکو سوشل میڈیا پر ایک لاکھ سے بھی کم لوگوں نے فالو کیا جب کہ عمران خان کی تقریر کے فالوورز کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ تھی جس میں بھارتی بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ عمران خان کی تقریر کا خاص طور پر وہ حصہ جس میں مودی اور آر ایس ایس کی پول کھولی گئی تھی کانگریسیوں اور سیکولر بھارتیوں کی خاص توجہ کا مرکز بنا۔
کانگریس پارٹی کے علاوہ کئی دیگر سیاسی جماعتیں مودی کی جانب سے جموں کشمیر سے بھارتی آئین کی دفعہ 35A اور 370 کو ہٹائے جانے کے سخت خلاف ہیں۔ ان پارٹیوں نے وہاں کی سپریم کورٹ میں ان دفعات کے ختم کیے جانے کے خلاف درخواستیں ضرور دائر کی ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا۔ چونکہ اس وقت میڈیا کی طرح سپریم کورٹ بھی آر ایس ایس کے غنڈوں سے مرعوب ہے۔ اس وقت بھارت میں آمریت سے بدتر حالات ہیں۔ کوئی بھی سیاسی رہنما آر ایس ایس ہی کیا مودی کے خلاف بھی اپنی زبان نہیں کھول سکتا اور اگرکوئی ایسا کرتا ہے تو اسے بھارت کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔
آر ایس ایس کے خوف کی وجہ سے وہاں کے اخبارات اور ٹی وی چینل مودی کی تعریفوں کے گیت گا رہے ہیں اور اگر کوئی اخبار یا ٹی وی چینل مودی کی مخالفت کرتا ہے تو پھر اسے بند کرا دیا جاتا ہے یا پھر اس کے مالکان کے خلاف سی بی آئی کے ذریعے کارروائی کرائی جاتی ہے۔ اس کی مثال این ڈی ٹی وی کے مالک سی دی جاسکتی ہے۔ این ڈی ٹی وی نے گزشتہ دنوں کشمیر کی حقیقی صورتحال بھارتی عوام کے سامنے پیش کردی تھی جس کی پاداش میں اس کے مالک کے گھر پر نہ صرف سی بی آئی سے چھاپہ ڈلوایا گیا بلکہ اس کے مالک کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے خطاب میں مودی کو اگر ایڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی ہے تو وہ بالکل درست ہے۔ اس وقت بھارت بالکل نازی جرمنی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ بھارت کے کثیر الاشاعت اخبار ٹائمز آف انڈیا نے یہاں تک لکھا ہے کہ عمران خان کے خطاب نے بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے اس کے مطابق مودی کے پاس اپنی تقریر میں کشمیر کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے تھا ہی نہیں اس لیے کہ اس نے کشمیریوں کے ساتھ وہ برتاؤ کیا ہے جیساکہ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
عمران خان نے درست ہی کہا ہے کہ اگر صرف آٹھ ہزار یہودیوں کو یرغمال بنالیا جائے تو پورا مغرب مضطرب ہوکر انھیں یرغمالی سے نجات دلانے کے لیے ہر قسم کے اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہوجائے گا مگر کشمیری چونکہ مسلمان ہیں اس لیے مغرب کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مغرب کا یہ دہرا معیار پوری دنیا کے سامنے ہے کہ تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو انڈونیشیا اور سوڈان سے آزادی دلانے کے لیے انھوں نے ان اسلامی ممالک پر ایسا دباؤ ڈالا کہ انھیں آزادی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ بھارت اور اسرائیل پر ایسا ہی دباؤ کیوں نہیں ڈالتے؟
اگر مغربی ممالک اسی طرح دنیا کے سفید و سیاہ کے مالک بنے رہے اور اپنے تعصب سے باز نہ آئے تو پھر دنیا کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اگرچہ اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کرنے میں حکومت کامیاب نہیں ہوسکی مگر اب دنیا اور خاص طور پر اسلامی ممالک کی بے حسی کا کیا علاج کہ وہ بھی بھارت کی سوا ارب کی منڈی کی اسیر ہوچکے ہیں تاہم یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ ترکی، ملائیشیا اور چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھانے میں کوئی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ کشمیر کے محصور مسلمانوں کے بارے میں شدید احتجاج کے باوجود بھی امریکی حکومت مودی کی تعریفیں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے اور نئے الیکشن کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اصل مسئلہ دفعہ 340 اور 35A کی بحالی کا ہے جس کے ہٹائے جانے سے یہ متنازعہ خطہ بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے پھر کشمیر میں حق خود اختیاری کے تحت رائے شماری کرانے کے بجائے نئے انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی ہے اس طرح واضح طور پر مودی کے موقف کی ترجمانی کی گئی ہے اور اس نے کشمیریوں کے ساتھ جو ناانصافی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اس کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔
پاکستانی حکومت اگرچہ ٹرمپ کی ثالثی کا دم بھر رہی ہے مگر وہ بھی ایک دھوکہ ہے ٹرمپ کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ بہرحال اب عمران خان سفارتی سطح پر بھارت کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد کشمیریوں کی آزادی کے لیے دوسرے راستے تلاش کریں ساتھ ہی اب ملک کی دگرگوں معاشی حالت کو سدھارنے پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام بے حال ہو رہے ہیں اس پر قابو پانے کے لیے کچھ سوچا جائے۔ چونکہ ملک پر دشمن کے حملے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس لیے ملک میں قومی یکجہتی کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو کھل کر اپنا کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلامی ممالک نے اس لیے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا کیونکہ ہم نے کاسہ گدائی ہر طرف گھما کر اپنے بھرم کو خود ہی نقصان پہنچایا ہے ورنہ مسلم ممالک میں ہماری اتنی بری پوزیشن کبھی نہ تھی۔