وزیر اعظم کی تقریر کے تناظر میں
درندے میدان میں آگئے ہیں اور مہنگائی کا اژدھا لوگوں کو ڈسنے کے لیے پیچھے دوڑ رہا ہے۔
بے شک 27 فروری اور 27 ستمبر پاکستان کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں ،جس کا ذکر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹوئیٹ میں کیا تھا۔ 27 فروری بھارت کے لیے ندامت کی دلدل میں دھنس جانے اور چلو بھر پانی میں ڈوب جانے کا دن تھا ، لیکن بھارت کو نہ چلو بھر پانی نصیب ہوتا ہے اور نہ وہ کھائی جہاں مودی اور اس کی حکومت اپنے کرتوتوں کی بنا پر چھلانگ لگا دے۔
کیا بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کشمیریوں کو ایک طویل مدت سے گھروں میں قید کر رکھا ہے لیکن شرم ہوتی، ضمیر زندہ ہوتا تب یہ گجرات جیسا گھناؤنا کھیل نہ کھیلتا اورگھروں کو مذبح خانے میں تبدیل کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔
27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوئی جو عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہہ رہے تھے اور باقاعدہ تحریک چلا رہے تھے جب کہ وہ ایک سچا مسلمان، نڈر لیڈر، اسلام کا سپاہی، محب وطن، جس کی تقریر کا ہر لفظ ہر جملہ امت مسلمہ پر ہونے والے مظالم کی عکاسی کر رہا تھا، وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے صرف اور صرف پاکستان اور کشمیرکے مظلوموں کی بات نہیں کی بلکہ انھوں نے دنیا کو مغرب کا وہ چہرہ دکھایا جہاں مسلمانوں سے تعصب، نفرت اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنائے جاتے رہے ہیں اور جن پر باقاعدہ عمل کیا جاتا ہے۔
عمران خان کی تقریر تدبر، حکمت عملی اور رسول پاکؐ کی محبت اور عقیدت سے پُر تھی۔ انھوں نے غیر مسلموں کی سرزمین پر بیٹھ کر بڑے اعتماد اور وقار کے ساتھ ان کی ظالمانہ روش کا ذکر کیا اور اس بات کی بھی وضاحت کی کہ مذہب اسلام دہشت گردی نہیں سکھاتا ہے بلکہ دہشت گردی کا مسلمان خود شکار ہیں۔ جنونی انتہا پسند صرف مسلمان نہیں ہوتا بلکہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت میں بھی ایسے جنونی پائے جاتے ہیں، خودکش حملے نائن الیون والا مسلمان نہیں کرتا ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے بھی امریکا کے جہازوں پر ایسے فدائی حملے کیے اس کے علاوہ ہندو تامل ٹائیگرز بھی سری لنکا میں اس طرح کے حملے کرتا رہا ہے لیکن یہاں انسانوں کا نام آیا ہے مذہب کا نہیں۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی موقع پر انسانوں کو اپنی نفرت اور تعصب کا نشانہ نہیں بنایا جب کہ کفار کے دل امت مسلمہ کے لیے بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ نفرت و تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اس کی خاص وجہ مسلمانوں کی شاندار کامیابیاں ہیں، ان کی شجاعت، بہادری اور جرأت ہے، صلیبی جنگوں میں ٹیپو سلطان، سلطان صلاح الدین ایوبی اور دوسرے بادشاہوں کا عزم و حوصلہ اور کامیابی انھیں ہضم نہیں ہوتی ہے۔ وہ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد بھی اس کے رعب و جلال عزم صمیم کے اسیر رہے۔
ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم میں 10 ملین سے زیادہ لوگوں کا خون بہایا، سوویت یونین کے ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کا نام بھی قاتلوں کی صف میں سرفہرست ہے جس نے تقریباً 20 ملین انسانوں کا خون بہایا، اطالوی ڈکٹیٹر مسولینی نے 4 لاکھ افراد کو موت کی نیند سلا دیا اور اگر ذرا قریب کی طرف دیکھیں تو جارج بش نے محض تیل کی دولت ہتھیانے کے لیے عراق کو تہہ و بالا کردیا۔ 5 لاکھ معصوم بچے اور لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، بوسنیا، ہرزگوینا، افغانستان، فلسطین ان سب خطوں میں موت کو بانٹنے والے بے رحم انسان غیر مسلم تھے، میڈیا نے انھیں دہشت گرد کہہ کر نہیں پکارا۔
وزیر اعظم عمران خان نے مغرب کی غلط فہمیوں کی نشاندہی مدلل انداز میں کی۔ انھوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ بعض سربراہان مملکت اسلامی دہشت گردی اور بنیاد پرستی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مغرب میں مخصوص طبقات جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں، مسلمان قیادت مغرب کو اسلام اور رسول پاکؐ کے بارے میں اپنا موقف بتانے میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے حجاب کا بھی ذکر کیا کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا مشکل بنا دیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقدمہ لڑا۔ مودی کے چہیتوں کے سامنے ہی مودی کا مکروہ چہرہ اور آر ایس ایس سے تعلق کے بارے میں کھل کر بات کی۔
یہ بھی کہا کہ کشمیریوں پر محض ان کے مسلمان ہونے پر ظلم کیا جا رہا ہے ۔ انھوں نے ہولو کاسٹ کا بھی تذکرہ کیا کہ امریکا میں اس پر بات نہیں کی جاتی ہے کہ یہودیوں کا دل نہ دکھے۔ رسول پاکؐ کے بارے میں کہا کہ رسول پاکؐ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں اور دل کا درد جسم کے درد سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔عمران خان کی تقریر دنیا بھر کے باشعور لوگوں نے توجہ سے سنی اور ان لوگوں کی غلط فہمیاں دھری کی دھری رہ گئیں جو واقعی بدگمانی کا شکار تھے یا دشمن کی سازش میں شریک تھے۔
اتفاق ایسا ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ملک و وطن سے غداری کرتے ہیں اور کبھی حکومت وقت سے تو کبھی دوسرے ملکوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنوں ہی کے خلاف ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں جو حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کا پیش خیمہ بنتے ہیں، ہمارے ملک میں کل بھی تھے اور آج بھی وطن دشمنوں کی کمی نہیں ہے بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے اور ان لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے جو سچے مسلمان اور امت مسلمہ کی بقا کے خواہش مند تھے۔
سرسید احمد خان کو ہی لے لیجیے، محض انگریزی زبان کو ترویج دینے کے لیے انھوں نے ایسے اقدامات کیے تھے تاکہ ملازمتوں اور دوسرے کاموں کی تکمیل اور ضروریات زندگی سے محروم نہ رہیں انھوں نے انگریز مصنفین اور سیاسی مبصرین کو جوابات دیے تھے جن باتوں پر وہ اعتراض کر رہے تھے، رسالہ بغاوت ہند آثار الصنادید، رسالہ تہذیب الاخلاق اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت پاک پر تحریریں لکھیں جو کتب و جرائد کی شکل میں شایع ہوئیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی انگلیاں اٹھائی گئی تھیں۔
اور پھر وقت نے یہ ثابت کردیا کہ اسلام کا داعی اور قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے والا کون تھا اور ان کے چہرے بھی سامنے آگئے جو مسلمانوں کی ترقی اور تعمیر پاکستان میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ آج عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی حالات درپیش ہیں لیکن وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
ترکی کے صدر طیب اردگان، ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو مسلمانوں کے زوال کا شدت سے احساس ہے۔اسی وجہ سے وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور بے بس و مظلوم مسلمانوں کو دشمن کے شکنجے سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن دنیا بھر کے مسلمان مغرب کی چالوں میں پھنس چکے ہیں ان کے رسم و رواج اور طور طریقوں کے اسیر ہیں، عبادات سے غافل اور اسلامی اصولوں سے بے پرواہ اور پھر اللہ کے احکامات سے منہ موڑنے کا نتیجہ وہی نکلا اور حالات نے پھر ماضی میں لے جاکر کھڑا کردیا جہاں مسلمانوں کی ہولناک تباہی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اندلس پر آٹھ سو سال قائم ہونے والی حکومت ختم ہوگئی۔
بخارا اور ثمرقند جہاں امام بخاری اور ابو مسلم جیسے امام موجود تھے جنھیں عبادت و ریاضت کے اعتبار سے بلند مقام حاصل ہے ان مقامات پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا اور ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ مساجد میں تالے لگ گئے، داڑھی رکھنے پر پابندی اور جب اللہ کی طرف سے مہلت تھی تو فرائض کی ادائیگی کا ہوش نہیں تھا اسی طرح جب کشمیر میں سکھوں کا دور تھا اور سری نگر میں گھوڑے باندھے جاتے تھے، نمازیوں کے جسموں سے کھالیں اتاری جاتی تھیں اور عورتوں کے ساتھ بدکاری کرنا عام بات بن گئی تھی، مسلمانوں کی داڑھیوں کے بال نوچے جاتے تھے، برما میں بھی ایسے ہی حالات رہے، مساجد و مکاتب کو ختم کردیا گیا، علما کو قتل اور مسلم خواتین کو کھڑا کرکے آگ لگائی جانے لگی جب مسلمان دین کے ساتھ مخلص نہیں رہے تو اللہ نے بھی ایسے لوگوں کو مسلط کردیا جنھوں نے مسلمانوں کے خون سے تاریخ رقم کردی۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ملکی حالات کو بھی سدھارنے کی جلد سے جلد کوشش کرنی چاہیے۔ درندے میدان میں آگئے ہیں اور مہنگائی کا اژدھا لوگوں کو ڈسنے کے لیے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے۔