کیانی کو کوئی عہدہ نہیں دے رہے اب جرنیل سنیارٹی پر جگہ بنائینگے ن لیگ

آرمی چیف اور چیئرمین نیب پر مشاورت جاری ہے، کڑوی گولی پہلے حکومت نے کھائی،طالبان سے مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے


آصف زرداری کیخلاف سوئس بینکوں کے مقدمات کا فیصلہ عدالت کریگی، پرویز رشید۔ فوٹو: فائل

حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ نہیں دے رہے، اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ نئے آرمی چیف اور چیئرمین نیب کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔ دوسری جانب دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ترجمان مشاہداﷲ خان نے کہاہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اچھا اقدام ہے، ان کے اس فیصلے سے گومگوکی کیفیت ختم ہوگئی اورافواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں اِس طرح کی مثالیں نہیں ملتیں،جنرل کیانی کے بیان سے ادارے مزیدمضبوط ہوںگے۔آرمی چیف کے اس بیان کے بعدہرآنے والا جنرل سنیارٹی پراپنی جگہ بنائے گا۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے اتوار کولاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی نوعیت کے اہم فیصلوں پر ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی، آصف زرداری کیخلاف سوئس بینکوں کے کیس عدالت میں ہیں، وہی فیصلہ کریگی۔بجلی چوری روکنے کیلیے گرڈ اسٹیشنوں پر اسمارٹ میٹر لگائے جائیں گے، اگر پھر بھی چوری ہوئی تو انچارج ذمے دار ہوگا۔

کڑوی گولی حکومت نے پہلے خود کھائی ہے، پھر ان لوگوں کو کھانے کا مشورہ دیا ہے کہ جو 700یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں بندوق کے زور پر اقتدار میں آنے والوں کی وجہ سے آج چاروں جانب بندوقوں والے موجود ہیں جو ہر مسئلہ بندوق سے حل کرنا چاہتے ہیں، اگر اس وقت اقتدار میں آنے والے لوگ عوام کے ووٹوں کی وجہ سے آئے تو آج ایسے مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔ طالبان سے مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ انھوں نے کہا کہ 65 برس بعد اب جاکر خلق خدا کا راج شروع ہوا ہے، ملک میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہے اور پچھلی پارلیمنٹ نے پہلی دفعہ اپنی آئینی مدت پوری کی۔ پھر عوام نے ان لوگوں کو ووٹوں کے ذریعے گھر بیجا اورنئی حکو مت کو ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا ورنہ ہر دفعہ آمریت نے جمہوریت پر ڈاکا ڈالا ہے۔جنھوں نے بندوق کی نالی کے زور پر ملک پر حکومت کی اورجو یہ سمجھتے تھے کہ صرف وہ بندوق کے زور پر سب کچھ کر سکتے ہیں، انھی کی وجہ سے آج ہمیں چاروں طرف بندوق والوں کا سامنا ہے خواہ وہ کراچی ہو یا کے پی کے، ہر طرف آج بندوق والے یہ سمجھتے ہیں کہ تمام مسائل بندوق کے زور پر حل کیے جاسکتے ہیں۔



وزیر اطلاعات نے کہا کہ عوام کے مسائل صرف درد دل رکھنے والے حکمران حل کر سکتے ہیں جن پر احتساب کے خوف طاری ہوں وہی جمہوری نظام کو اچھے طریقے سے چلاسکتے ہیں۔گزشتہ 3ماہ میں ہمارے پاس حکومت کرنے کے 2 طریقے تھے کہ یا تو ہم اسی طرح کام کرتے رہتے جس طرح پچھلی حکومت نے کیا کہ نہ دہشت گردی کے حوالے سے کوئی کانفرنس کی گئی نہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلیے عملیقدم اٹھایا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ 700یا اس سے زائد یونٹ استعمال کرتے ہیں وہ بجلی کی اصل قیمت قیمت اداکریں۔حکومت میں آنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ تمام اداروں کے 30فیصد اخراجات کم کیے جائیں ،کوئی نئی گاڑی یا دفتر نہ بنایا جائے، پھر ہم نے کڑوی گولی کا مشورہ ان کو دیا کو ہضم کر سکتے تھے۔جو لوگ 200یونٹ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے کوئی قیمت نہیں بڑھائی گئی ۔ پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اگر بے نظیر دور میں تیل کی بجائے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کیے جاتے تو آج بجلی اتنی مہنگی نہ ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ ملک کو پانی اور کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ توانائی بحران پر قابو پانے کا سستا ذریعہ ہے، اس سلسلے میں مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ حکومت کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر قائم کرے گی جس سے6600 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔انھوں نے کہا کہ ہم اگر لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کے خاتمے کے ساتھ عوام کو اچھی گورننس نہ دے سکے تو آئندہ انتخابات میں کس منہ سے عوام کے پاس ووٹ لینے کیلیے جائیں گے۔ ہماری حکومت نے 100روز میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور دیگر مسائل کے حل کیلیے جو اقدامات کیے، ماضی کے حکمران 5 سال میں نہیں کرسکے۔ این این آئی کے مطابق وفاقی وزیر نے کہا کہ آمرانہ حکومتوں کے تمام تجربے ناکام رہے ہیں ۔ بندوق کی نالی سے جنم لینے والی حکومتوں کی لمحہ بھر کی غلطیوں کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر ہم16روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرکے 6روپے میں فراہم کریں گے تو حکومت 600ارب روپے کی مقروض ہوجائیگی اور ہمیں پھر نئے نوٹ چھاپنا پڑیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں