جنگوں کا انجام مذاکرات یا تباہی
پاکستان میں ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، لیکن ابھی تک کوئی واضح پیش رفت ہوتی۔۔۔
KARACHI:
پاکستان میں ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، لیکن ابھی تک کوئی واضح پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دی۔ روز اس حوالے سے کوئی نئی خبر سننے کو ملتی ہے۔ کچھ لوگ ہرصورت طالبان سے مذاکرات کرنے پر مُصرہیں اوربعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ ہرگز مذاکرات نہیں ہونے چاہییں۔ دونوں جانب کے لوگ اپنے مؤقف کو ہر حال میں درست ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس سے پوری قوم گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔ حالانکہ اپنے مؤقف پر اس قدر سختی سے قائم رہنے سے معاملہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ ان حالات میں ملک و قوم کے لیے زیادہ مفید کون سا راستہ ہے؟ مذاکرات، آپریشن یا ان کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ ؟ جو راہ ملک و قوم کے لیے زیادہ مفید ہو، ایک بار ٹھیک طریقے سے اسی پر چل کر دیکھ لیا جائے۔
اگر آپریشن پر غور کیا جائے تو اس سے اب تک کوئی زیادہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوپائے۔ متعدد بار طالبان کے خلاف چھوٹے بڑے آپریشن کیے جاچکے ہیں، اس کے باوجود نہ تو ابھی تک ملک میں امن قائم ہوا ہے اور نہ ہی طالبان اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹے ہیں،بلکہ اس تصادم میں اب تک پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بدامنی میں اضافہ ہی ہوا ہے، امن نہیں آیا۔ اگر مزید طاقت استعمال کی گئی تو اس سے بدامنی میں مزید اضافہ ہی ہوگا، کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ بڑے سے بڑے آپریشن کے ذریعے بھی پاکستان سے طالبان کا وجود ختم نہیں کیا جاسکتا، طالبان چند افرادکا کوئی چھوٹا سا گروپ نہیں جنھیں آسانی سے ختم کردیا جائے بلکہ طالبان کے بقول وہ ملک کے ہر شہر میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ لوگ اپنے مقصد میں نہایت پرعزم ہیں اور زیر ہونے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کو کسی کی مخالفت کی کوئی پروا نہیں ہے اور نہ ہی یہ لوگ کسی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ان کو ملک سے ختم کرنا ممکن نہیں اور ہتھیار وہ پھینکیں گے نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جنگ مسلسل چلے گی۔ جس سے یقیناً ملک کا بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ اگر جنگ کسی دوسرے ملک سے ہو تو لڑنا آسان ہوتا ہے لیکن جب جنگ اپنے ہی شہروں میں بسنے والے لوگوں سے ہو تو یہ زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔فتح یا شکست کسی کی بھی ہو نقصان تو ملک کا ہی ہوگا اورلڑائی کے نتیجے میں جو مزید بے شمار بے گناہ لوگ مارے جائیں گے ان کا ذمے دار کون ہوگا؟۔
ویسے بھی خون ریزی کبھی بھی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوا کرتی۔ لڑائی کے ذریعے کبھی بھی لڑائی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جس ملک میں بھی آج تک لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں سوائے بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ خانہ جنگی اور طاقت کے استعمال سے کہیں بھی امن قائم نہیں ہوسکا۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہیرے اور قیمتی لکڑی والا ملک لائبیر یا نے جب لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی تو ملک برباد ہوگیا تھااور دارالحکومت کے لوگ دو سال تک پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے، یہاں تک کہ دنیا اس ملک کو عالمی قبرستان کا نام دینے پر مجبور ہوئی۔ انگولا سے روزانہ بیس لاکھ بیرل تیل نکلتا تھا، یہ دنیا میں ہیروں کا دوسرا بڑا سینٹر بھی تھا، خانہ جنگی اس ملک کے 20 لاکھ لوگوں کو کھاگئی اور ملکی معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یوگنڈا کی فی کس آمدنی 949 ڈالر تھی، بدامنی کی وجہ سے پانچ سال بعد اس کی فی کس آمدنی 31 ڈالر رہ گئی۔
اریٹریا کا اسمارہ دنیا کا واحد مقام تھا کہ امریکا سمیت پوری دنیا ٹیلی کام کے جدید نظام کے لیے اس کی محتاج تھی مگر یہ ملک بھی اندرونی تنازعوں کا شکار ہوا اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا۔ایسے متعدد ممالک ہیں جہاں لڑائی کو لڑائی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ برباد ہوگئے۔ آج بھی جن ممالک میں دنگا فساد ہورہا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ''کچھ لو، کچھ دو '' کے اصول پر عمل نہیں کررہے، اگر آج وہ اس اصول پر عمل کرلیں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مذاکرات ہی امن قائم کرنے کا پہلا اور آخری حل ہیں۔جنگوں کا انجام مکمل تباہی یا پھر مذاکرات ہی ہوتا ہے۔تاریخ ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ بہت سے ممالک میں برسوں جاری رہنے والی جنگ و جدل کے بعد بھی مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا قیام ممکن ہوا۔ آج تک بہت سے ممالک نے امن کے قیام کے لیے خطرناک دشمنوں سے بھی مذاکرات کیے ہیں۔ الجیریا میں دس سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے، پورا ملک برباد ہوگیا،دس سال بعد متحارب گروپوں سے مذاکرات ہوئے، معاہدے ہوئے، معافی تلافی ہوئی اور الجیریا میں ایک بار پھر امن قائم ہوگیا۔ امریکا کو پہلے ویت نام اور اب گیارہ سال جنگ کے بعد اپنے خطرناک دشمنوں طالبان کے ساتھ بالآخر مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔ برطانیہ، سری لنکا، فلپائن، بھارت اور بہت سارے ممالک مسلح باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے طویل لڑائی کو ختم کرکے امن سے رہ رہے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور بے شمار مذہبی شخصیات کا اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات انتہائی ضروری ہیں تو فی الحال اس بحث کو نہیں چھیڑنا چاہیے کہ مذاکرات ہوں یا نہیں۔ بلکہ سیاسی، مذہبی، قبائلی اور عسکری قیادت کو مل کر ایسا جامع منصوبہ بنانا چاہیے جس کے ذریعے طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کسی طرح مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔ اصل مقصد تو ملک میں امن کا قیام ہے وہ چاہے کسی طرح بھی قائم ہو۔
دشمن تو کسی حال میں بھی ہمارے ملک میں امن نہیں چاہتا، وہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہے،اس لیے اگر مذاکرات کے معاملے کو خفیہ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس حقیقت کے بعد فریقین اگر واقعی امن کے قیام میں سنجیدہ ہیں تو انھیں مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر پھر بھی حکومت طالبان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو کوئی ایسی تیسری راہ نکالی جائے جس سے ملک و قوم کا نقصان بھی نہ ہو اور امن بھی قائم ہوجائے۔
یہ سوچنا عوام کا کام نہیں کہ امن کیسے قائم ہوگا، بلکہ امن کا قیام ریاست کی ذمے داری ہے۔ اصل مقصد تو امن کا قیام ہی ہے، یہ مقصد جس طرح بھی ہو، حاصل کرنا ہے۔ لیکن موجودہ حالات سے لگ رہا ہے کہ ملک میں امن کے قیام کے حوالے سے کوئی بھی فریق سنجیدہ نہیں ہے، کیونکہ نہ تو حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی مضبوط لائحہ عمل سامنے آیا ہے اور نہ ہی طالبان کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں،بس قوم سے کھلواڑ کیا جارہا ہے!