کشمیر آگہی کری ایٹیو آئیڈیاز

مغربی ممالک میں موجود پاکستانی اور کشمیری تنظیموں کو یہ اسٹریٹ تھیٹر آرگنائز کرانے ہوں گے


سید معظم حئی October 09, 2019
[email protected]

دنیا بھر میں سراہی جانے والی وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر پہ بڑی اپوزیشن پارٹیوں اور مذہب کو اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے ان کے ساتھیوں کی بودی تنقید کا ہم عام پاکستانیوں کو برا نہیں ماننا چاہیے۔

یہ بے چارے دائمی بسیار خوری میں مبتلا دکھیارے لوگ ہیں جو پچھلے چالیس پچاس سال سے اپنے چاروں ہاتھوں پیروں سے اس این آر او زدہ ملک کا مال اپنے پیٹوں میں پہنچا رہے ہیں مگر شکم سیری ہے کہ اب تک انھیں نصیب نہ ہوسکی ہے بلکہ ہل من مزید کی ایسی چاہ ہے کہ انھیں بھٹکی روحوں کی طرح بے چین رکھتی ہے۔

ایسے مظلوموں کی دل جوئی کرنے کے بجائے ان کی خوش حالی اور ان کی بجٹ ہضم، قرضہ ہضم ، کمیشن ہضم والی کشادہ انتڑیوں کا حاسد یہ بد ذوق زمانہ ان سے کھایا پیا مال اگلوانے کے درپے ہے تو درد قولنج تو قدرتی امر ہے کہ زور پکڑے گا، اب یہ درد قولنج کچھ ایسا بے درد ہے کہ آدمی ہذیان بکنے پہ اتر آتا ہے۔ خیر جو ہوا سو ہوا البتہ عمران خان کے کھائے پیے خوشحال سیاسی، مذہبی اور صحافتی مخالفوں نے ایسی زبردست تقریر پہ زبردستی کی تنقید کر کے قوم کے سامنے اپنا سیاسی، مذہبی اور صحافتی قد کچھ مزید گھٹا دیا۔

ان لوگوں نے ثابت کر دیا کہ یہ سیاسی، ذہنی اور صحافتی طور پہ اتنے پست قامت ہیں کہ کبھی بھی اپنے سیاسی اور مالی مفادات سے بلند ہوکر اپنے مخالف کی اس ملک کے مفاد میں کی گئی کسی بات کی بھی تعریف نہیں کرسکتے، اگر مجبوراً دکھاؤے کو جوکبھی نیم دلی سے کریں بھی تو پہلے خبث باطن کی مینگنیاں اس میں ملا کر کرتے ہیں۔

خیر چھوڑیے کہ کرپشن اور مزید کرپشن کی ہوس کے لاعلاج عارضے میں مبتلا ان لوگوں کا زیادہ ذکر کرنا وقت کا زیاں اور الفاظ کا اسراف ہے۔ اس وقت تو ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہا پسند ہندو فاشسٹ بھارتی حکومت کے کشمیر پہ ناجائز قبضے اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کی نہتے کشمیریوں کے خلاف جاری ریاستی دہشت گردی کے بارے میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ اور مسلسل بتایا جائے۔کشمیری کیونکہ عیسائی یا بدھ مذہب کے پیرو کار نہیں بلکہ مسلمان ہیں اس لیے خطرہ اس بات کا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف کئی عشروں سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کی طرح کشمیریوں پہ جاری ہندو انتہا پسند فاشسٹ بھارتی حکومت کے مظالم بھی دنیا خصوصاً مغربی دنیا کے لیے ایک معمول کا روٹین بن جائیں گے۔

چنانچہ ہمیں مغربی ممالک میں حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پہ بھی مسئلہ کشمیر کو مسلسل زندہ رکھنے اور اس کے بارے میں آگہی زیادہ سے زیادہ بڑھاتے رہنے کے لیے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ کری ایٹیو یعنی نئے اور تخلیقی آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک آئیڈیا '' اسٹریٹ تھیٹر'' کا ہوسکتا ہے۔

یہ اسٹریٹ تھیٹر مغربی ممالک کے مختلف شہروں کے معروف چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے جہاں جہاں بھی مقامی اتھارٹی سے اجازت مل سکے دکھایا جاسکتا ہے۔ اس اسٹریٹ تھیٹر میں فنکارکشمیریوں پہ فاشسٹ بھارتی حکومت کے مظالم کی تمثیل پیش کریں گے۔ یہ اسٹریٹ تھیٹر عام لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا کے مسئلہ کشمیر پر آگہی پیدا کرے گا، جس سے ان ممالک کی رائے عامہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں اپنے منتخب ارکان پارلیمنٹ پہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے پہ زور ڈالے گی۔ ان اسٹریٹ تھیٹر میں نہ صرف پاکستانی اورکشمیری بلکہ دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے فنکار رضاکارانہ طور پہ پرفارم کرسکتے ہیں۔

مغربی ممالک میں موجود پاکستانی اور کشمیری تنظیموں کو یہ اسٹریٹ تھیٹر آرگنائز کرانے ہوں گے۔ ان اسٹریٹ تھیٹر کے لیے اسکرپٹ اور مکالمات تحریرکروانے کے لیے پاکستانی اورکشمیری صحافیوں اور قلم کاروں سے رابطہ کیا جانا چاہیے کہ وہ بھی رضاکارانہ طور پہ یہ قومی فریضہ انجام دیں۔

ایک اور ایسا آئیڈیا ''ہیومن پکچر گیلری'' کا ہوسکتا ہے کہ جس میں لوگ اپنے گلوں میں کشمیریوں پہ دہشت گرد بھارتی فوج کے مظالم کی بڑی بڑی تصاویر لٹکا کر مغربی ممالک کے اہم شہروں کے فٹ پاتھوں، چوراہوں، پارکس اور پارلیمنٹ وغیرہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔ ہر تصویر پہ اس ملک کی مقامی زبان اور انگریزی میں تصویر کے بارے میں معلومات درج ہوں اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہے تو یہ تصاویر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال وہاں سے گزرتے ہر انسان پہ عیاں کردیں گی۔

ہر روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں پاکستانی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز مثلاً یو ٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹا گرام پہ روزانہ اپنے سیکڑوں ویڈیو اور تصاویر وغیرہ اپ لوڈ کرتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی وی لاگرز ایسے ہیں کہ جن کے فالوورز کی تعداد ہزاروں میں ہے بلکہ کچھ کی تو لاکھوں میں ہے۔ کیا ہی بھلا ہو کہ وزیر اعظم عمران خان اگر ان تمام لوگوں سے صرف یہ اپیل کردیں کہ وہ اپنے ہر ویڈیو کے آغاز، درمیان یا آخر میں ایک چھوٹا سا پیغام کشمیریوں پہ ہٹلر مودی کی فاشسٹ حکومت کے مظالم کے بارے میں بھی دے دیں اور ساتھ ہی اپنے فالوورز سے بھی کہیں کہ وہ بھی اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اس طرح دنیا بھر میں ہر روز کئی کئی ملین لوگوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگہی ہوسکے گی۔

اب خیر سے ذکر خیر جو جناب وزیر اعظم عمران خان کا چلا ہے جو پاکستان کے پہلے سیلبرٹی وزیر اعظم ہیں کہ جن کے دنیا بھر میں ہر شعبے میں فینز یعنی مداح موجود ہیں تو کیوں نہ لگے ہاتھوں ہم وزیر اعظم سے یہ بھی درخواست کر ڈالیں کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً مغربی ممالک بشمول روس، ان کے علاوہ چین، ترکی، ملائیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا کے ان ممتاز شوبز اور اسپورٹس کے ستاروں کو جوکہ اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے کے علاوہ انسانیت اور دنیا کی بھلائی کے لیے بھی سرگرم ہیں انھیں پاکستان میں اپنے مہمان کے طور پر مدعو کریں اور ان کی آمد پہ انھیں کشمیریوں پہ فاشسٹ ہٹلر مودی حکومت کے نازی مظالم کے بارے میں بھرپور بریفنگ دیں۔

ان سیلبرٹی مہمانوں سے ہمارے وزیر اعظم اپیل کریں کہ وہ کشمیریوں پہ ہونے والے مظالم کے بارے میں اپنے فالوورز اور فینزکو آگاہ کریں اور ان سے بھی کہیں کہ وہ اس پیغام کو آگے تک پھیلائیں۔ ایسی بین الاقوامی سیلبرٹیز کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور چینلز ہیں جن پہ صرف وہ اپنے ایک میسج سے دنیا بھرکے کئی کئی ملین لوگوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی فراہم کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم ان سیلبرٹیزکو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ ان کا مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے لیے بات کرنا کوئی بھارت کے خلاف قدم نہیں ہوگا کیونکہ ایسی ہی آوازیں اب خود بھارت کے دانشور، شوبز، تعلیمی اور میڈیا کے حلقوں سے بھی کشمیریوں کے لیے اٹھائی جا رہی ہیں۔

آپ یقین جانیے کہ یہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے فنکار اور کھلاڑی مسئلہ کشمیر پہ ایسی بین الاقوامی آواز اٹھا سکتے ہیں جو ہماری حکومتی کمیٹیوں کے کئی کئی درجن غیر ملکی دورے بھی نہیں پیدا کرسکتے۔ اگر ہمیں کشمیریوں کی آزادی کے لیے دنیا کو اپنا ہمنوا بنانا ہے تو ہمیں روایتی حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسے غیر روایتی اور کری ایٹیو آئیڈیاز پہ بھی عمل کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں