اہدافی کارروائیوں پر متحدہ اورحکومت آمنے سامنے

قومی اسمبلی کے حلقے این اے256 میں دھاندلی کے انکشاف کے بعد تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ایک بار بھرآمنے سامنے آگئےہیں۔


Rizwan Tahir Mubeen October 08, 2013
این اے 256 میں 20ہزار291ووٹ جعلی قرار پائے جبکہ 57 ہزار 642 ووٹوں کے نشانات خراب ہونے کے باعث غیر تصدیق شدہ ثابت ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

گزشتہ ہفتے رینجرزکی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے دفترسے بھارتی اسلحے کی برآمدگی کے دعوے سے شہر کی سیاست میں ایک بار پھر ایک بھونچال سا پیدا ہوگیا۔

ساتھ ہی کراچی پولیس کی جانب سے مقتول وکیل نعمت رندھاوا کے قتل کے الزام میں متحدہ کے کارکن کاظم عباس رضوی کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور بتایا گیا کہ ملزم کا تعلق نارتھ ناظم آباد سے ہے اور اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔ پولیس اور رینجرز نے گزری کے علاقے میں مشتبہ جان کر اسی شخص کو روکا جس سے بغیر لائسنس اسلحہ برآمد ہوا، جس پر اسے حراست میں لے لیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بھارتی اسلحے کی برآمدگی کے الزام کو سختی سے مسترد کیا اور اسے جناح پورِ، مہاجر ریپبلکن آرمی اور نیٹو کنٹینر غائب کرنے کی طرح کا ایک الزام قرار دیا اور کہا کہ متحدہ ایک محب وطن جماعت ہے، اس پر الزام لگا کر میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ بھارتی اسلحے کی برآمدگی کا الزام بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔ رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر صغیر کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے خون کا گھونٹ پیا ہے۔ کارروائی کے دوران بے گناہوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر صغیر نے لانڈھی دفتر پر چھاپے سے متعلق بتایا کہ اس دوران 15 سے زاید کارکنان اور ہم دردوں کو گرفتار کیا اور دفتر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے تہس نہس کر نے کے ساتھ متحدہ کے قائدین کے خلاف نازیبا الفاظ بھی لکھے گئے۔ آخر ہمارے خلاف اس اظہار نفرت کا کیا جواز ہے۔ دوسری طرف رینجرز کی جانب سے دفتر میں توڑ پھوڑ اور چاکنگ کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ دفترسے سامان کی چوری اور چاکنگ بھی جرائم پیشہ عناصر کی ہی کارروائی ہے۔ متحدہ کے دفتر سے بھارتی اسلحے کی برآمدگی اس بات کا ثبوت کے مذکورہ جماعت میں ملک دشمن عناصر موجود ہیں۔

متحدہ کی جانب سے کاظم عباس رضوی کے حوالے سے لگائے گئے الزام کے حوالے سے کہا گیا کہ اہل محلہ گواہ ہیں کہ کاظم رضوی کو 27 ستمبر کو ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا، لیکن ان کی گرفتاری کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے آج ظاہر کر کے انہیں نعمت رندھاوا کے قتل میں ملوث قرار دیا۔ متحدہ کو نعمت رندھاوا کے قتل میں ملوث کرنا ایک سازش ہے۔ اس حوالے سے انہوںنے صدر وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔

بعد ازاں رابطہ کمیٹی کے ارکان طارق جاوید اور محمد اشفاق نے صدر، وزیراعظم کو اللہ اور رسولﷺ کا واسطہ دیتے ہوئے اپیل کی کہ خدارا پاکستان کو بچانے کے لیے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ ان کی سربراہی میں متحدہ کے کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث اور انہیں ماورائے عدالت قتل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ شاہد حیات کو عہدے سے ہٹانے کے مطالبے پر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی میں کسی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ شاہد حیات کی تقرری اہلیت پر ہوئی۔ وہ ایک ایمان دار اور بہادر پولیس افسر ہیں۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کا فرمایشی پروگرام اب مزید نہیں چلے گا۔ کسی کو اعتراض ہے تو عدالت سے رجوع کرے۔

الطاف حسین نے کہا کہ حکومت سندھ مہاجروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا آغاز کر چکی ہے۔ بھارتی اسلحے کے برآمدگی کے جھوٹے الزام کے ذریعے بھارت کا ہم نوا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکی ہے، اس قسم کے الزامات کی پس پردہ حقیقت سے بچہ بچہ واقف ہے۔ متحدہ کے قائد کے بیان پر پیپلزپارٹی کے سینئر راہ نما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ الطاف حسین مہاجر کی اصطلاح دوبارہ متعارف نہ کرائیں۔ ہم مہاجر نہیں، بلکہ سندھ اور پاکستان کے اردو بولنے والے شہری ہیں۔

ہماری مادری زبان پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان ہے۔ اپنے آپ کو کم تر شہری یا مہاجر تصور کرنا توہین آمیز ہوگا۔ حالیہ اہدافی کارروائی کسی بھی زبان بولنے والوں کے خلاف نہیں۔ جرائم پیشہ ہر زبان بولنے والوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی یہ بیان دیا کہ سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں، جس پر سندھ اسمبلی میں متحدہ کے ڈپٹی پارلیمانی راہ نما خواجہ اظہار الحسن نے حیرت کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو قائد حزب اختلاف بتائیں، سندھ کے وزیر اعلا ہاؤس کے عملے میں کتنے اردو بولنے والے ہیں، جنہیں وہ سندھی کہہ رہے ہیں۔

سندھ سیکریٹریٹ کے چپراسی سے لے کر اعلا افسران تک اردو بولنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ پورے سندھ کی پولیس اور انتظامیہ میں اہلکارو افسران اور کراچی سمیت سندھ بھر میں کتنے ایڈمنسٹریٹر اور صوبائی وبلدیاتی محکموں کے سربراہان اردو بولنے والے ہیں؟ اگر سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں تو پیپلزپارٹی نے آج تک کسی اردو بولنے و الے کو سندھ کا وزیراعلا کیوں نہیں بنایا اور کوٹا سسٹم نافذ کرکے سندھ کے عوام میں تقسیم اور تفریق کیوں پیدا کی؟ الغرض گزشتہ ہفتے دونوں جانب سے اس طرح کے بیانات کا سلسلہ خاصے زور و شور سے جاری رہا۔

سندھ حکومت کی جانب سے قیام امن کے لیے جاری کارروائی کو پر اثر بنانے کے لیے تین ماہ کے لیے اسکائپ اور وائبر سمیت دیگر ویب سائٹس کی بندش کا اعلان کیا گیا، جب کہ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ صرف ایک صوبے میں اس طرح کی پابندی ممکن نہیں، اگر بند کیا گیا تو پورے ملک میں ہی یہ بندش کرنا پڑے گی۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ نے بڑھتی ہوئی منہگائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔ عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔

عام انتخابات میں کے نتائج کے حوالے سے این اے 258 کے بعد اب این اے256 میں بھی دھاندلی کا انکشاف ہوا ہے۔ جس میں تحریک انصاف کے امیدوار زبیرخان نے متحدہ کے امیدوار اقبال محمد علی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ 84 ہزار 748 ووٹ میں سے صرف6ہزار815 ووٹوں کی تصدیق ہوسکی ہے۔

20ہزار291ووٹ جعلی قرار پائے، جب کہ 57 ہزار 642 ووٹوں کے نشانات خراب ہونے کے باعث غیر تصدیق شدہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ الیکشن ٹریبونل جسٹس (ر) ڈاکٹر ظفر احمد خان شیروانی کی ہدایت پر صوبائی حلقے 128 کا انتخابی ریکارڈ نادرا کو بھجوا دیا ہے۔ یہ اقدام نواز لیگی امیدوار سلطان جوہری کی شکایت پر اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے حلقے 114 پر نواز لیگ کے ٹکٹ پر جیتنے والے عرفان اللہ مروت نے ووٹوں کی تصدیق کا عمل روکنے کے لیے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے حلقے میں شفاف انتخابات ہوئے۔ ووٹوں کی تصدیق کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ٹریبونل کے دفتر کے علاقے میں مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر ہیںاور وہاں نقل وحرکت جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں