سونمیانی کھاڈی جزیرہ محل وقوع کی وجہ سے مقبول ہونے لگا

سمندر میں جزیرہ اور چند فرلانگ پر صحرا کا انوکھا امتزاج ہے، ماضی میں ماہی گیر جزیرے پر آرام کیلیے قیام کرتے تھے


جزیرے پر ٹینٹ سٹی، جیٹ سکی، واٹر اسپورٹس، ڈیزرٹ سفاری اور پیرا گلائڈ منصوبہ شروع، کراچی کے شہریوں کو بہتر تفریح میسر آئیگی

DUBAI: بلوچستان کے پرفضا ساحلی مقام سونمیانی کے قرب میں واقع کھاڈی کے نام سے معروف قدرتی جزیرہ چاروں اطراف میں ٹھاٹھیں مارتا نیلا سمندر اور چند فرلانگ پرموجود صحراانوکھے امتزاج کا حامل ہے۔

قدیم باسیوں کے مطابق ماضی میں اس جزیرے پرمچھلی کے شکار سے واپس آنے والے ماہی گیر آرام کی غرض سے قیام کرتے تھے، سمندر کے درمیان گہرے جزیرے پر سفید کیکڑے، فضاؤں میں محو پرواز سمندری پرندے اور پانی میں اٹکھیلیاں کرتی وہیل شارک سحرزدہ کردیتی ہیں حکومت بلوچستان نے جزیرے پر ٹینٹ سٹی جبکہ جیٹ سکی، (پانی کی موٹر سائیکلیں)، واٹر اسپورٹس، ڈیزرٹ سفاری اور پیرا گلائڈ منصوبے پرکام شروع کردیا ہے جو مستقبل میں بلوچستان کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے لیے بہترین تفریحی مقام ثابت ہوگا۔

کراچی سے لگ بھگ 80 کلومیٹر کی دوری پر واقع بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور تحصیل سونمیانی کے قرب میں قدرتی جزیرہ چاروں اطراف سے نیلگوں سمندر اور ایک جانب سے لق ودق صحرا سے منسلک ہے جو بہت ہی خوبصورت امتزاج کا حامل دکھائی دیتا ہے۔

جزیرے کے عین اوپرگہرے پانی سے اپنے شکار کو اچک لینے کے لیے فضاؤں میں محو پرواز شور مچاتے سفید براق پرندے جبکہ نیچے ساحل پر دوڑتے بھاگتے سفید اورزردی مائل کیکڑے، وقفے وقفے سے سطح سمندر پر ابھرتی شرارتی وہیل شارک مچھلی کے غوطے ماحول کو سحرزدہ کردیتے ہیں مکینوں کے مطابق یہ قدرتی جزیرہ اس حوالے سے مشہور ہے کہ پورے ضلع لسبیلہ میں چاہے گرمی کا پارہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اس جزیرے پر درجہ حرارت متوازن رہتا ہے اور ہواؤں میں خنکی محسوس ہوتی ہے خصوصاً شام کے وقت ڈوبتے سورج کا منظر سمندر کی لہروں پر زرد کرنیں بکھیر دیتا ہے۔

اس دلفریب نظارے کولفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ساحلی مقام کے قدیم ماہی گیروں کے مطابق کھاڈی جزیرہ برسوں سے ایسی ہی حالت میں موجود ہے اور ماضی میں گہرے سمندر میں شکار کی غرض سے ایک ماہ اور اس سے کم عرصے کے لیے جانے والے ماہی گیر واپسی پر اپنی تھکن اسی جزیرے پر اتارتے تھے یہاں عارضی قیام کے دوران ماہی گیرکھانے پینے کے علاوہ گپ شپ کرلیتے تھے تازہ دم ہونے کے بعد علاقے کی جیٹی کی جانب رخت سفر باندھا کرتے تھے۔

جزیرے کو جدید خطوط پر استوار کر کے سیاحت بڑھائی جائے گی ۔ کامران لاسی

ماضی میں اس پرفضا ساحلی جزیرے کھاڈی کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تاہم اب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی خصوصی ہدایات پر اس قدرتی جزیرے کی تزئین وآرائش اور اسے تھائی لینڈ، دبئی اور دیگرممالک کی طرز پر جدید خطوط استوارکیا جارہا ہے جس میں خصوصا نیٹ سٹی کا قیام شامل ہے جس میں تفریح کی غرض سے آنے والوں کے لیے خیموں کے علاوہ واش روم اور دیگرتمام بنیادی سہولیات دستیاب ہوں گی، یہ بات چیئرمین بلوچستان فشرمینز کوآپریٹیو سوسائٹی کامران لاسی نے گفتگو میں بتائی۔



انھوں نے کہا کہ جزیرے پر کھجور کے خوشنما درخت لگائے جائیں گے جبکہ سونمیانی کی ڈام بندرگاہ سے کھاڈی جزیرے تک تیزرفتاربوٹس چلائی جائیں گی جس کے ذریعے تفریح کے لیے آنے والوں کی آمد ورفت ممکن ہوسکے گی، جزیرے پر فلوٹنگ جیٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ اس میں واٹر اسپورٹس، جیٹ سکی، پیرا گلائڈ جبکہ صحرا میں ڈیزرٹ سفاری بائیکس چلانے کے لیے کچھ معاہدے ہوچکے ہیں جبکہ کچھ معاہدے اگلے چندروز میں متوقع ہیںجزیرے کو مکمل تزئین وآرائش کے بعد اس سال کے آخر میں کھولا جائے گا سیر و تفریح کے اس پرفضا مقام سے بلوچستان اورکراچی سمیت سندھ کے باسی استفادہ کر سکیں گے۔

ماہی گیر نئی نسل کو درپیش ہولناکی پر فکرمند ہیں، محمد عثمان

تحصیل سونمیانی میں موجود بندرگاہ ڈام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے،اس بندرگاہ کے قرب وجوار میں بسنے والے ماہی گیروں کی آبادی 6 ہزارنفوس پر مشتمل ہے اور سارے ہی لوگ ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں، 2005 میں تعمیر ہونے والی ڈام جیٹی سے 700 کے قریب چھوٹی بڑی لانچیں مچھلی کے شکار پر روانہ ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان کے دیگرساحلی آبادیوں پر رہنے والے ماہی گیروں کی طرح ان کا دامن بھی خالی ہے اور یہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ یہ اپنی فاقہ مستی میں جی رہے ہیں۔

اسی ڈام جیٹی پر ماہی گیری سے وابستہ 75 سالہ محمد عثمان کی زندگی کے 55 سال بے کراں سمندروں کا سینہ چیرتے ہوئے، روزی روٹی کی تلاش میں گزرگئی، مگر ماہی گیری کوپوری زندگی دینے والا محمد عثمان اپنی نسل کو درپیش کل کی ہولناکی سے کافی فکر مند ہیں، ان کاکہنا ہے کہ بندرگاہ ڈام کی کھاڑی میں باہر سے دیوہیکل ٹرالرز آتے ہیں اور ان کے شکار کا صفایا کردیتے ہیں وہ فشنگ ٹرالر نہیں بلکہ ہماری نظر میں ایک ایسے عفریت ہیں جو مچھلی کے بچے تک مار دیتا ہے۔

اسلام آباد جانے سے روکا توملک بھرمیں دھرنے دینگے، راشد محمود

جمعیت علما اسلام ( ف ) سندھ کے جنرل سیکر یٹری مولانا راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے سے روکا گیا تو ملک بھر میں دھرنے ہونگے اوردھرنے کے اخراجات ہر کارکن خود برداشت کرے گا، وہ اتوار کو مقامی ہال میںکراچی کی 6 اضلاع سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے، کانفرنس میں کارکنان کو سوشل میڈیا کے ذریعے آزادی مارچ کی کوریج اورمخالف پروپیگنڈے کا توڑ کس طرح کرنا ہے کے گر سکھائے گئے، مولاناراشد محمود سومرو نے کہاکہ تمام ادارے ہمارے اورہم اداروں میں سے ہیںادارے اگر فریق بنے تو بنگلادیش جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔



کراچی فش ہاربر کے 2 ماہ کے لائسنس پر فشنگ ٹرالرز 12 مہینے تک شکار کرتے ہیں
عدنان لاسی کے مطابق بلوچستان میں ممنوعہ جال پر مکمل پابندی ہے تاہم کراچی فش ہاربر پر سال کے 12 ماہ فشنگ ٹرالرز چلتے ہیں ان کو جھینگے کے شکار کے لیے صرف 2 ماہ کے لیے لائسنس جاری کیے گئے تھے مگر وہ سال کے 12 مہینے مچھلی کا شکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے ساحلی مقامات پر مچھلیاں کم ہوتی جارہی ہے ان کا کہنا ہے کہ ضلع لسبیلہ میں 10لینڈنگ سائڈز بنائی جارہی ہے آکشن ہال بھی بنائے جائیں گے تاکہ ماہی گیر اپنی مچھلیوں کی نیلامی مقامی سطح پر ہی کرسکیں۔

ڈام جیٹی کی تعمیر میں سقم رہ گیا اب نئیجیٹی تعمیر کی جا رہی ہے، عدنان لاسی
فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئر مین سردار عدنان لاسی کے مطابق ماضی میں تعمیر ہونے والی ڈام جیٹی کی منصوبہ بندی میں عجلت یا سقم کی وجہ سے اس جیٹی کے فوائد ماہی گیروں کو نہیں مل سکے،ان کا کہناہے کہ ایک اور نئی جیٹی تعمیر کی جارہی ہے جبکہ پرانی جیٹی کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا، عدنان لاسی کے مطابق ڈیپ سی فشنگ پالیسی میں صوبوں کے لیے 11 ناٹیکل مائل کے بجائے30 ناٹیکل مائل ماہی گیری کے حقوق مانگے گئے ہیں ۔


ماہی گیروں کے لیے طبی سہولتیں نہیںزخمیوں کوکراچی لے جانا پڑتا ہے


ماہی گیر محمد عثمان کے مطابق ماہی گیروں کے لیے طبی سہولیات ناپید ہیں، یہی وجہ ہے کہ سمندر میں ڈوبنے یا پھرحادثاتی طورپرچوٹ لگ جائے یا وہ کسی اور مرض کا شکارہو تواس کے علاج کے لیے علاقے میں کوئی اسپتال نہیں ہے ایک ڈسپنسری ہے جس میں صرف ایک کمپائونڈرکے علاوہ کوئی طبی ماہر نہیں ہوتا ایسی صورتحال میں مریض کو اپنی جیب سے 4 ہزارروپے کرایہ خرچ کرکے کراچی لے جانا پڑتا ہے اور اکثرو بیشترمریض راستے میں ہی دم توڑجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں