آئی ایم ایف‘ حکمران اور عوام
جب بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آیا، ہم آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر پہنچے، پھر شروع ہو جاتی ہے طویل فہرست۔۔۔
MANCHESTER:
جب بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آیا، ہم آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر پہنچے، پھر شروع ہو جاتی ہے طویل فہرست ان کی شرائط کی جس میں انسان دوستی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اور سوائے ان شرائط کو ماننے کے ہمارے پاس کوئی اور چارہ کار بھی نہیں ہوتا۔ فیضؔ صاحب کے اس شعر کی مانند ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
آئی ایم ایف اور حکومت میں جو بھی معاہدے ہوئے وہ بادی النظر میں معیشت کی بھلائی کے لیے ہوئے لیکن حقیقت میں اس کی قیمت اس ملک کے غریبوں کو روز افزوں مہنگائی کی صورت میں ادا کرنی پڑی، آئی ایم ایف مسیحا ٹھہرا اور ملک کی معیشت مریض ِناتواں۔ مگر جو اس ملک کے غریبوں پر گزری اس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ ملک کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے اور کل آبادی کا 80 فیصد غریب یا متوسط طبقہ ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ان غریبوں کو تعلیم کی سہولتیں نہیں، نہ صحت کی، نہ روزگار کے مواقع فراہم ہیں اور پھر جو باقی قوت خرید بچی تھی اس میں میں افراط زر کی صورت میں ایک اور ڈاکہ یا یوں کہیے کہ قوت خرید اور دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم اگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ان کی شرائط نہیں مانیں گے تو پھر کیا کریں؟ انھوں نے یہ کہا تھا کہ ڈالر کی روپوں میں اصولی قیمت 105 روپے بنتی ہے ذرا یہ کر کے دکھاؤ ہم نے کی اور اگر نہ کرتے تو ان کے ساتھ معاہدہ ہوتا نہ 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ منظور ہوتا جب کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر وہ ناقابل برداشت بوجھ پڑتا کہ ڈالر 105 سے بھی شوٹ کر کے بہت آگے نکل جاتا اور اگر نہیں نکلتا تو انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں بہت فرق آ جاتا۔ یوں کہیے کہ فارن کرنسی ڈیلر آپ سے ڈالر لیتے تو سہی لیکن دینے کو تیار نہیں ہوتے۔
ہم واقعی ایک ایسے دلدل میں پھنس گئے ہیں جس کو Debit Trap کہا جاتا ہے، یہ تو ہے وہ تیسرا اسٹرکچر جس کا بنیادی اسٹرکچر مالیاتی خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف جو قرضہ ہمیں آیندہ تین سال میں 13 اقساط کی برابر رقم میں دے گا جس کی پہلی قسط 547 ملین ڈالر کی ہم لے بھی چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مالیاتی خسارہ ہے جو کہ مجموعی پیداوار کے 9 فیصد کے برابر ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ اس کو چھ فیصد پر اصلاحات کے پہلے مرحلے پر ہو جانا چاہیے۔ اس معاشی مرض کو ٹھیک کرنے کے لیے وہ اپنے (Extended Fund Facility) EFF کی اسکیم کے تحت پیسے دیتے ہیں اور س پر سود بھی لاگو ہوتا ہے، ان کے کچھ فنڈ بغیر سود والے بھی ہیں، مثال کے طور پر (Extended Credit Facility) ECF ، (Stand by Credit Facility) SCF وغیرہ۔ ان پر انٹرسٹ ریٹ نہیں لگتا۔ جب کہ EFF اور (Flexible Credit Lines) FCL یا (Precautionary of Liquidity Line) PLL پر انٹرسٹ ریٹ بھی لاگو ہوتا ہے۔
EFF کی پریسکرپشن کے تحت ہماری معیشت کا علاج ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف اب وہ تشریح نہیں رکھتا جو جان مینارڈ کینز نے پچاس کی دہائی میں مروج کی تھی کہ آئی ایم ایف ایک ایسا فنڈ ہے جس سے اس کے ممبر ممالک اپنی معیشت کو اس وقت سنبھالا دے سکتے ہیں جب وہ کچھ سال بعد فطری طور پر Bussniess Cycle کے چکر پورے کرنے پر مندی کا شکار ہو جائیں۔ لیکن Henry Derek نے آگے جا کے اس ادارے کے خدوخال جو دیکھے اس میں تو وہ ایک بینک کی طرح ہو بہو نظر آئے۔ اب تو دو رائے نہیں رہی کہ جس طرح دیگر ملکوں میں سینٹرل بینک ہوا کرتے ہیں اور وہ سپریم کورٹ کی طرح فطری مونو پولی کا مظہر ہوتے ہیں۔ (سپریم کورٹ قانون کی تشریح کے حوالے سے اور سینٹرل بینک مانیٹری پالیسی اور نوٹ چھاپنے کے حوالے سے) آئی ایم ایف دنیا کی سینٹرل بینک ہے یا ان 188 ممالک کی تو لازمی ہے جو اس کے ممبر ہیں۔ گلوبل مارکیٹ میں استحکام لانا اور رکھنا اس کا اولین فرض اور کام ہے۔ جب کہ گلوبل مارکیٹ سرمایہ دارانہ اور اسی طرح آئی ایم ایف اس مارکیٹ کی بقا کی ضامن ہے اور مارکیٹ کے استحکام کے لیے پہلا ہدف غریب ممالک اور اس کے غریب عوام ہوتے ہیں۔ ورنہ ہماری معیشت جس نے اپنا جوبن اس سامراجیت کے کسے ہوئے شکنجوں میں رہتی دنیا میں دیکھا ہی نہیں اور بالخصوص ہمارا ملک جو اپنی مخصوص اسٹرٹیجک جغرافیائی حیثیت کے ہونے کی وجہ سے سامراجی گریٹ گیم میں مہرے کے طور پر استعمال ہوا جہاں کبھی بھی عوام کی سچی نمایندہ قیادت ابھرنے ہی نہ دی گئی اور اب لیجیے ''نہ دید ہے نہ شنید ہے ' نہ حروف ہیں نہ پیام ہے۔ ''
اک طرف آئی ایم ایف ہے تو دوسری طرف آمریتیں اور ان کے گملوں اور پودوں سے نکلی سول اشرافیہ پر مبنی بے نیاز قیادت۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں اور دوسری طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیاں۔ ایک طرف آمدنی کم ہے اور دوسری طرف اخراجات زیادہ جس کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم قرضہ لیتے ہیں اور اس کو دینے کے لیے دھڑادھڑ نوٹ چھاپتے ہیں جس سے افراط زر ہوتا ہے اور اس طرح ہم غریبوں کی قوت خرید کو قرضوں کے لیے سدا گروی رکھتے ہیں۔ اب ہمیں اس سے بھلا کیا غرض کہ کتنوں کے گھروں میں فاقہ ہے، ان کے چولھے ٹھنڈے پڑے ہیں، گھر کی منڈیروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے اور کتنی ہولناک غربت کی وجہ سے ابھی اور خودکشیاں باقی ہیں۔ ایک معاشی بے راہ روی سی ہے، ایک بند گلی سی ہے۔
تاہم ٍآئی ایم ایف کا ان غریبوں کے خلاف جرم میں اتنا بڑا عمل دخل نہیں ہے جتنا ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے پاس نہیں آیا تھا ، ہم گئے تھے اس کے پاس۔ اپنا تاریخی کشکول لے کر۔ آئی ایم ایف کوئی مدر ٹریسا نہیں ہے، بلکہ اقتصادی و مالیاتی معنوں میں بے رحم مارکیٹ اکانومی کے اصولوں پر چلتا ہوا ایک ادارہ ہے۔
''سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں''۔
بازار سے مداوا ہونے کی توقع رکھنا، یہ کیسی دانش مندی ہے۔