کس کو بخشا گیا
د فیضؔ کو در س قرآن دیتے دیکھ کر کرنل صاحب نے ان سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے، فیض نے انھیں بتایا۔۔۔
جیل میں فیض احمد فیضؔ کو در س قرآن دیتے دیکھ کر کرنل صاحب نے ان سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے، فیض نے انھیں بتایا کہ میرا مذہب وہی ہے جو مولانا روم کا مذہب تھا۔ کرنل صاحب مولانا کا نام سن کر مطمئن ہوئے اور خوش ہو کر کہنے لگے کہ پھر ہم مسلمان بھائی ہیں آ پ اچھا درس دیتے ہیں۔ جیل سے رہائی کے برسوں بعد جب فیض صاحب کی کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی تو کرنل صاحب نے پھر پوچھا فیض صاحب مولانا روم کا مذہب کیا تھا فیض صاحب نے جواب دیا جو میرا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کے ہم عصر ان کے مذہب کے بارے میں ان کرنل صاحب سے زیادہ پریشان تھے ایک مرتبہ مختلف الخیال علمائے دین کا ایک گروہ ان کی مخالفت پر متحد ہو کر ان سے منا ظرہ کرنے آیا۔ رومی سے پو چھا گیا کہ مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے آپ کس فرقے کے عقائد سے متفق ہیں۔ مولانا رومی نے جواب دیا کہ میں بہتر کے بہتر فرقوں کے عقائد سے متفق ہوں اس پر وہ گروہ بہت زچ ہوا ان میں سے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مناظر ہ شروع کہاں سے کریں بالآخر فساد پر آمادہ ہو کر کہنے لگے کہ پھر تو آپ کافر و زندیق ہیں۔ مولانا روم نے فوراً جواب دیا کہ میں اس سے بھی متفق ہوں چنا نچہ اس گروہ کو ناکام لو ٹنا پڑا۔ فیض احمد فیض اپنی آخری غزل میں یہ کہنا نہیں بھولے
ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلمان نہیں کرنے دیتے
گاندھی نے کہا ہے کہ خدا کا کوئی مذہب نہیں۔ اسلام میں اختلافات پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوئوں کی تاریخ بہت پرانی ہے پورے کے پورے مکتب کے خلاف کفر کے فتو ئوں کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ ان چند مشہور مسلمانوں جن کا اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام ہے اور ان پر مسلمان علما، مفتیوں اور قاضیوں کی جانب سے کفر اور گمراہی کے فتو ے جاری کیے گئے وہ یہ ہیں (۱ ) صوفی و عالم جنید بغدادی پر کفر کا فتوی لگا یا گیا (۲) امام ابو حنیفہ کو جاہل، بدعتی، منافق اور کافر قرار دیا گیا اور قید کیا گیا (۳) امام شافعی کے خلاف فتوی جاری کیا گیا اور جیل میں ڈالا گیا (۴) امام احمد بن حنبل کو کافر قرار دے کر 28 ماہ قید میں ڈالا گیا (۵) امام مالک پر کفر کا فتوی لگا (۶) امام بخاری پر کفر کا فتوی لگا (۷) نسائی پر کفر کا فتوی لگا (۸) عبدالقادر جیلانی پر کفر کا فتو ی لگایا گیا (۹) ابن اعرابی پر کفر کا فتوی لگا یا گیا اور کہا گیا کہ جو ان کے کفر پر شک کرے وہ بھی کافر ہے (۱۰) جلال الدین رومی کو کافر کہا گیا (۱۱) مشہور فارسی شاعر جامی کو کافر کہا گیا (۱۲) مشہور صوفی عطار پر کفر کا فتو ی لگا (۱۳) منصور الحلاج کو کافر قرار دے کر سولی پر چڑھا دیا گیا (۱۴) مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین کے متعلق فتویٰ جاری کیا کہ یہ دونوں حضرات کا فر ہیں اور ان کا مدرسہ الاصلاح مدرسہ کفر و زندیقہ ہے (۱۵) امام غزالی نے جب احیا العلوم نامی کتاب لکھی تو کفر کا فتو ی لگا کر ان کی کتابیں جلا ڈالی گئیں (۱۶) امام ابن تیمیہ پر مصر کے 18مفتیوں نے کفر کا فتو ی لگایا (۱۷) شیخ احمد سر ہندی پر ان کے مکتوب کی بنا پر کفر کا فتو ی لگا انھیں مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے۔ (۱۸) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر کفر کا فتو ی لگا یا گیا(۱۹) سید احمد رضا بریلو ی پر کفر کا فتو ی لگایا گیا (۲۰) شاہ اسماعیل پر کفر کا فتو ی لگایا گیا (۲۱) سرسید احمد خان کے افکار کی وجہ سے آپ کوکافر کہا گیا (۲۲) محمد بن عبدالوہاب منجدی پر کفر کا فتو ی لگایا گیا (۲۳) مولانا ابو الکلام آزاد کو مولانا انور کشمیری نے گمراہ قرا ر دے کر ان کی تفسیر القرآن پڑھنے سے منع کیا (۲۴) علامہ محمد اقبال پر لاہور کے بر یلو ی عالم نے کفر کا فتو ی لگایا (۲۵) قائداعظم کو احراری مولوی مظہر علی نے کا فر اعظم کہا (۲۶) مشہور مسلمان مصنف حافظ قیم پرکفر کا فتو ی لگایا گیا ۔
جدیدیت ہر اس زمانے میں جنم لیتی ہے جو رجعت پسند ہوتا ہے بات ذرا نفسیاتی نوعیت کی ہے جب علم کے چراغ روشن ہوتے ہیں جب ذہن کے جالے صاف ہوتے ہیں اور نظر کے سامنے نئے افق نمودار ہوتے ہیں تو قدرتی طورپر قدیم اسلوب حیات مشکوک دکھائی دینے لگتے ہیں انسان اپنے ماضی کی نفی پر مشکل ہی رضامند ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے ماضی سے جڑا رہنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں اس کی زندگی ایک عجیب سی منافقت کی زد میں آ جاتی ہے اگر مذہب کا مقصد انسان ہی کی فلاح ہے تو پھر اس کا جامد و ساکت ہو کر رہ جانا بعید از قیاس ہے اسی وجہ سے ہمیں مختلف اسلامی ملکوں میں اسلام کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ جو ان ملکوں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی تجربات نے پیدا کیے ہیں پاکستان کا ستون وہ اسلام ہے جو ہندی مسلمانوں کے تجر بے سے پیدا ہوا پاکستان کو وجود میں آنے کے بعد اپنے نئے تجربات اور نئی ضروریات کی روشنی میں آگے بڑھنا اور نشو و نما پانا چاہیے تھا لیکن ہم ہندی مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ سے چمٹے رہے جس کی وجہ سے ساری پیچیدگی نے جنم لیا۔
مغلیہ سلطنت کے بانی بابر نے اپنے بیٹے کے نام وصیت میں لکھا اس ملک میں سے بہت سے مذہب اور فرقوں کے لوگ رہتے ہیں اس قضیے میں مت الجھنا کیونکہ عقیدوں کے اختلاف کو بدلتے ہوئے مو سموں کی طرح سمجھنا موسم کے ساتھ جھگڑا نہیں کیا جاتا برسات کی زحمت اور جاڑے کی شدت کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتے موسم آتا ہے اس کو قبول کرتے ہیں اور وہ گذر جاتا ہے۔جب تک انسان سو چتا رہے گا گروہ بنتے رہیں گے لوگ سو چیں گے تو اختلاف کرتے رہیں گے اس سے زندگی رہتی ہے فرقوں کے ختم کرنے کی بجائے ان کے ساتھ جینا سیکھنا چاہیے قوم کے اندر خارج کرنے کا عمل قوم کو کمزور کر دیتا ہے۔
اختلاف کے ساتھ جینا اصل بہادری ہے سبط حسن لکھتے ہیں کہ تہذیب عبارت ہوتی ہے معاشرے کی طرز زندگی سے۔ اس طر ز زندگی کی اساس سماجی اعمال و افکار پر ہوتی ہے اس میں لوگوں کا رہن سہن، رسم و رواج، زبان اور مذہب، رقص و موسیقی، آلات و اوزار، دولت آفرینی کے طریقے، پیداوار کی تقسیم کے ضابطے اور نظم و نسق کے قوانین سبھی شامل ہوتے ہیں درحقیقت تہذیب سماجی اقدار اور تخلیقات کا عطر ہوتی ہے معاشرے کے اعمال و تخلیقات اور افکار و عقائد میں جب تک اجتہا دی قوت اور رد و قبول کی صلاحیت باقی رہتی ہے تہذیب کا پودا بھی پھو لتا رہتا ہے لیکن جب معاشرہ روایتوں کا یکسر غلام ہو جاتا ہے اور امر و نواہی کی بندشوں میں اپنے کو جکڑ لیتا ہے اور نئے خیالات اور تجربات سے گریز اختیار کرتا ہے تو پھر معاشرہ اور اس کی تہذیب دونوں جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں ترقی کی یا دوسری تہذیبوں سے مقابلے کی طاقت نہیں رہ جاتی۔