ذرا سوچیے
یہ سیاسی قیادت ہے جو اپنی حکمت عملی سے غربت کی زنجریں توڑ کر اپنے عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام لاتی ہے
''امیری اور غریبی قدرت کی عطا ہے یا انسانوں کی خود پیدا کردہ تفریق''۔ ہم اس سادہ سوال کو عقائد کی بھول بھلیوں میں کھو کر مشکل بناتے جا رہے ہیں۔ انسانی شعور کے ارتقاء کی انتہا یہ ہے کہ ماہرین سماجیات نے ایسی دس وجوہات تلاش کر لی ہیں جو قوموں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ماہرین معاشیات نے ان اسباب کا توڑ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔
خوشحالی، جی ہاں دیر پا اور پائیدار خو شحالی کے لیے افراد نہیں ادارے ناگزیر ہوتے ہیں۔ آمریت بدصورتی اور جمہوریت انسانی شعور کا رُخ روشن ہے۔ رنگ و نسل اور جغرافیے کا امارت یا غربت سے کوئی تعلق نہیں، یہ سیاسی قیادت ہے جو اپنی حکمت عملی سے غربت کی زنجریں توڑ کر اپنے عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام لاتی ہے۔ آزادی اظہار، مشاورت، اجتماعیت اور باہمی احترام جیسے بنیادی عناصر معاشروں کو مقام جادواں عطا کرتے ہیں۔ دو حصوں میں منقسم پنجاب میں عقائد کے علاوہ سب کچھ ایک جیسا ہے لیکن پنجاب کے دونوں حصوں کی زرعی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم اوسطاً 40 سے 50 من گندم فی ایکڑ حاصل کر پاتے ہیں جب کہ بھارتی پنجاب میں اوسط پیداوار 100من فی ایکڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔
اﷲ تعالی کا شکر ہے کہ ہم صرف زرعی میدان میں اپنے ہم نسلوں سے پیچھے ہیں ورنہ ہماری طرح دو حصوں میں منقسم کوریا میں تو شمالی کوریائی عوام کا قد اپنے جنوبی کوریائی بھائیوں سے اوسطاًتین انچ چھوٹا ہو چکا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ذہنی اور فکری آزادی انسانی نشو و نما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ قوموں اور معاشروں میں ادارہ جاتی تشکیل زرعی پیداوار اور پالتو جانوروں پر بھی اثر پذیر ہوتی ہے۔ خطہِ پنجاب اس ابدی حقیقت کا سب سے بڑا مظہر بن چکا ہے۔
قومیں اور معاشرے اچانک زوال پذیر نہیں ہوتے۔ ریاستیں پلک چھپکتے میں ناکام نہیں ہوتیں۔ فطرت اپنی مسلسل توہین پر ان سے بتدریج انتقام لیتی ہے۔ سماجیات اور معاشیات کے چوٹی کے دانشوروں نے دس ایسی وجوہات تلاش کر لی ہیں جن میں کوئی ایک بھی ریاستوں اور معاشروں کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہوتی ہے۔
جدید انسانی تاریخ میں صرف دو مثالیں ایسی ہیں جن میں ریاستی ادارے چشم زدن میں تحلیل ہو گئے۔ ملک انتشار اور غربت کے اندھیروں میں کھوگئے۔ ہمارے ہمسایہ میں افغانستان میں آنجہانی سوویت فوجوں کے انخلا ء کے بعد ڈاکٹر نجیب صرف دو سال کام چلا سکے۔ ایک معاہدے کے تحت اُن کے مستعفی ہوتے ہی کابل کے تمام ریاستی ادارے ہوا میں تحلیل ہو گئے اور آج تک ہوسِ اقتدارکا خونی کھیل جاری ہے۔ وہاںحالات نہیں صرف چہرے بدل رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء کے بعد کونسی قیامتیں غریب افغانوں پر جھپٹنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے بارے میں نوشتہ دیوار واضح ہو رہا ہے۔
اسی طرح سرے لیون میں بھی ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی تمام ریاستی اداروں کو نگل گئی اور بہت سی ریاستوں کو لاقانونیت، عدم برداشت اور رشوت ستانی کی لعنتوں نے خاموشی سے دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ ان ریاستوں کا وجود کسی زور دار دھماکے کی نذر نہیں ہوا بلکہ نہایت خاموشی سے ان کا کھوکھلا وجود ان کے اپنے قدموں پر ڈھیر ہو گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ آخری ہچکی لینے سے قبل عالم نزاع میں اس کی دم توڑتی سسکیاں قرب و جوار میں سنائی دیتی رہیں۔
جن ریاستوں کی سیاسی قیادتوں نے اپنے سب سے قیمتی اثاثے، اپنے عوام کی قدر نہیں کی، ان کو انجام بد سے کوئی نہیں بچا سکا۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ صر ف اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں قیادتیں ہی زوال کے عمل سے بچ پائیں گی۔ اپنے لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کر کے اس کو پیداواری صلاحیت میں بدلنے کا کارنامہ کرنے والے حکمران ہی تاریخ کے سامنے سرخرو قرار پائے ہیں۔ جنہوں نے اپنے انسانی اثاثے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے غربت کے شکنجوں کو توڑ ڈالا اور جہالت کے اندھیروں کو علم و شعور کے اُجالوں سے منور کر دِکھایا۔ جب کہ قوانین فطرت کی توہین کرنے والی ریاستوں، افریقہ اور ایشیا کے خطوں میں جن کے عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جس کا انجام تباہی و بربادی ہی ہو گا۔
کیا ناکامی کا المیہ کسی منظم منصوبے سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ایسابالکل نہیں۔ ناکام ریاستوں میں بتدریج جان لیوا جونکوں کی طرح خون چوسنے والی مافیائوں نے سماج کے بد ن سے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لیے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بد دلی اور مایوسی انتہائوں کو پہنچ گئی اور اُن میں آگے بڑھنے، محنت کرنے کا جذبہ ہی نابود ہوگیا۔ جن معاشروں میں نوجوان نسل کو یقین ہو جائے کہ وہ اپنی اہلیت، قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے سہارے مقابلے کی جو لان گاہ میں نااہل، سفارشی اور کندہ نا ترشیدہ امراء کے بچوں سے شکست کھا جائیں گے۔ یہ ایسے معاشرے کی موت کا حتمی اعلامیہ ہوتا ہے۔
جس سماج میں ذہانت کو سفارش کھاتی ہے وہاںذہانت کی فصل نہیں اُگا کرتی ۔ جو زمینیں بنجر ہو جائیں ویرانیاں اُن کا مقدر بن جاتی ہیں۔ جہاں پر اشرافیہ لوٹ مار کے لیے اجارہ داریاں بنا لے، نوجوانوں کے آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں، معدنی دولت پر چند گھرانے قابض ہو جائیں۔ استحصال انتہا کو پہنچ جائے سمجھ لیں کہ اس معاشرے میں تہذیب و تمدن خود کشی پر آمادہ ہو چکا ہے اورجب کسی ملک کی اشرافیہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے ووٹ کا تقدس پامال کرنے کی مجرمانہ چالیں چلے، سارے نظام اپنے اشاروں پر نچانا شروع کر دے وہاں بہتری کی توقع عبث ہو جاتی ہے۔
استحصال کی بناء پر استوار حکومتیں آخر میں گھٹنوں کے بل گرتی ہیں اور انھیں کوئی سہارا دینے والا بھی نہیں ملتا۔ غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے اور غربت کا یہ منحوس چکر بالآخر استبدادی طبقے کے روشن محلات کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر شاہِ ایران جیسے شہنشاہ کو بھی جائے امان کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اور دیار غیر میں چند گز زمین بھی مشکل سے ملتی ہے۔
معاشروں، ریاستوں اور حکومتوں کو تباہ و برباد کر دینے والی کتنی خرابیاں ہمارے اندر پیدا ہو چکی ہیں اور اس تناظر میں پاکستان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ ذرا سوچیے!
شمالی کوریا ناکام ریاستوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ نظم و ضبط کی آہنی گرفت کے باوجود ترقی معکوس کا شکار جس کی بنیادی وجہ، حق جائیداد کا انکار ہے۔ جس نے آگے بڑھنے کی فطری کشاکش کو ختم کر دیا ہے۔
ازبکستان میں انسانی استحصال کی بد ترین شکل وقوع پذیر ہو رہی ہے جہاں کپاس کی چنائی کے موقع پر اسکول کے بچوں سے زبردستی یہ کام کرایا جاتا ہے، اس وقت استاد جبری مشقت کرانے والے سرکاری ٹھیکیداروں کا روپ دھار لیتے جس کے تمام معاشی اور مالیاتی فوائد از بک صدر اسلام کریموف اور ان کا خوشامدی ٹولہ اُٹھاتا ہے۔ جس نے ا زبکستان کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں گورا شاہی کے دور میں سرکاری ملازمتوں کا نظام نسل پرستی پر استوار کیا گیا تھا۔ اس سرزمین کے حقیقی وارث سیاہ فاموں پر ٹیکنیکل ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
ان پر صرف مشقت طلب محنت و مزدوری کا راستہ کھلا تھا۔ کان کنی، زراعت سے ان کو کسی قسم کا معاشی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس وقت 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی اور آخر ایک دن جبر کا نظام اپنی موت آپ مر گیا کہ فطرت اپنا انتقام خود لیتی ہے۔ مینڈیلا سرخرو رہے اورعوام جیت گئے۔
حسنی مبارک کے دورکا منظر بھی بڑا تاریک تھا۔ حکمران خاندان نے ہر شعبے میں اپنی اجارہ داریاں قائم کر رکھی تھیں۔ صنعت و حرفت کے میدان میں عامیوں کا داخلہ بند تھا۔ سب کچھ حسنی مبارک کے خاندان کے گرد گھومتا تھا۔ تحریر چوک سے ہر اٹھنے والی صدائے احتجاج نے جبر کے سارے بت چُور چُور کردیے۔ فرعون رہا اور نہ اس کے حواری۔ 70 ارب امریکی ڈالر کے اثاثے پنجرے میں بند حسنی مبارک کے کس کام کے۔
بات پرانی ہو گئی لیکن اس میں بھی درس عبرت پنہاں ہے۔ روس کے زار اور آسڑیا کے بادشاہ نے اپنے عوام کو ریل کے سفر سے بہرہ مند نہ ہونے دیا۔ وہ نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ 19 ویں صدی کا یہ قصہ کب کا تما م ہوا کہاں گیا وہ زار---- وہ بادشاہ۔ برطانیہ اور امریکا میں جدید ذرایع مواصلات پھل پھول رہے ہیں۔
صومالیہ میںکمزور مرکزی حکومت زوال کی بنیادی وجہ بنی، کامیاب معیشتوں کے پیچھے موثر مرکزی حکومت سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔ بظاہر صومالیہ آج بھی اقوام متحدہ کا رکن ہے لیکن اس کی حکومتی عملداری شاید دارالحکومت موغا دیشو میں بھی قائم نہیں۔ اداروں کی عدم موجودگی نظام کی بربادی کا سبب بنی اور اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
اسی طرح کولمبیا میں کمزور مرکزی سرکار ملک کے بیشتر حصے سے کنٹرول کھو چکی ہے جس پر دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ملیشیائیں قابض ہیں جن کا واحد دھندہ منشیات کا کاروبار ہے۔ سرکاری اور نجی زمینیں قبضہ مافیائوں کے نرغے میں ہیں۔
پیرو---- اس کائنات میں تہذیب و تمدن کا پہلا گہوراہ رہا ہے یہاں ثابت ہو گیا ہے نسل، زبان، ثقافت اور جغرافیائی قربت کا ترقی اور خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ انسانوں کا عزم و حوصلہ اور دانش ہوتی ہے جو علم کے نور کے ذریعے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔
لاطینی امریکا کا بولیویا---- استحصالی نظام اور اُس کے خنخوار اداروں کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ زمین اور معدنیات سے بھرپور کانوں پر استحصالی ٹولے کا قبضہ تھا۔ جب انقلاب اور رد انقلاب کا مکروہ کھیل شروع ہوا تو دکھ کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے۔ سرے لون کی کہانی بھی بولیویا سے ملتی جلتی ہے۔
کیا پاکستان میں بھی اِن ناکام ریاستوں جیسی صورتحال پیدا نہیںہو رہی ؟
خدارا ذرا سوچیے!