ہم نے پتھر بھی چنے رنگ بدلنے والے
حکومت نے اپنے ایک سال میں اگر کسی معاملے میں مایوس نہیں کیا تو وہ، وہ معاملات ہیں جو ابھی پیش نہیں آئے
اِس دھرتی نے بھی کیا کیا رنگ بدلنا نہیں دیکھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد دھرنے کی تاریخ قریب آرہی ہے۔ محسوس کررہا ہوں کہ بے چینی نے اِس شہر کی فضاؤں کو جکڑ رکھا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ یہ شہر ایک بار پھر کسی طور سیاسی بے راہ روی اور جمہوری حکومت کی غیر جمہوری رخصتی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مگر کیا ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں کہ صرف ایک سال بعد ہی منتخب حکومت کو گھر لوٹنا پڑے؟ سوال کا جواب بظاھر تو نفی میں ہے مگر اس نفی میں کسی انہونی کا خوف بھی پنہاں ہے۔ حالات بگڑتے وقت کہاں لگتا ہے۔ اور وہ بھی تب جب حالات کا بگاڑنا حالات بگاڑنے والے کے حق میں ہو تو ذرا سی چنگاری بھی پورا جنگل راکھ کرسکتی ہے۔
حکومت نے اپنے ایک سال میں اگر کسی معاملے میں مایوس نہیں کیا تو وہ، وہ معاملات ہیں جو ابھی پیش نہیں آئے۔ بہت سے لوگ مولانا کی مسکراہٹ اور اعتماد کے پیچھے کسی کا اشارہ اور یقین دہانی تلاش رہے ہیں۔ میرے نزدیک مولانا کے اعتماد کی واحد وجہ حکومت کی نااہلی ہے، جس سے انہیں یقین ہے کہ وہ بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں۔ مارچ کے مس مینیج ہونے کا فائدہ صرف اور صرف مولانا کو ہوگا اور اس کا سامان اور کسی کے پاس نہیں بلکہ خود حکومت وقت کے پاس ہے۔
ٹی وی پر جب پی ٹی آئی کے حامی اینکرز کو دھرنا سیاست کے خلاف بولتے دیکھتا ہوں تو بہت محظوظ ہوتا ہوں، لیکن ساتھ ہی جب ماضی میں دھرنا سیاست کے خلاف بولتے، راستے بند ہونے، معیشت کو نقصان ہونے اور سسٹم ڈی ریل ہونے کا رونا رونے والے صحافی حضرات کو آج مولانا کے مارچ تک لمحات گنتے دیکھتا ہوں تو زبان سے بے اختیار نکلتا ہے کہ 'بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے'۔
اپوزیشن گومگو کی کیفیت میں ہے۔ سب کو ایک خوف ہے کہ وہ استعمال ہورہے ہیں اور ساتھ ہی ایک خوش فہمی بھی کہ شاید وہی ہیں جو باقی سب کو استعمال کررہے ہیں۔ ایجنڈا مگر سب کا اپنا اپنا ہے۔ کسی کو کرپشن کیسز پر چھوٹ چاہیے تو کسی کو موجودہ سیاسی ڈھانچے میں اپنا حصہ۔ کسی کو ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنانا ہے تو کسی کو حکومت وقت کا تختہ الٹنا ہے۔ کسی کو عمران خان سے ذاتی بیر ہے، تو کسی کو اسٹبلشمنٹ سے حساب چکتا کرنا ہے۔ ہاں نام عوام کا استعمال کرنا ہے اور آڑ کشمیر، مہنگائی اور بیروزگاری کی لینی ہے۔ یہ وقت نقاب اترنے اور اصلیت سامنے آنے کا ہے۔
دیکھتا ہوں کہ این جی اوز کے فنڈز پر پلنے والے سیکولر پاکستان کے حامی اور انسانی حقوق کے نام پر مغربیت کا راگ الاپنے والے نام نہاد لبرلز بھی ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کےلیے مولانا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کبھی وہ وقت تھا کہ ان کی ہر بات علماء کی توہین سے شروع ہوتی تھی اور مغرب فروشی پر ختم۔ اس میں یقیناً غور کرنے والوں کےلیے بڑی نشانیاں ہیں۔
پاکستانی سیاست کی بدصورتی ہی اِس کی خوبصورتی ہے۔ یہاں کوئی بھی بات حرفِ آخر نہیں۔ یہاں رنگ بدلنے کو سافٹ ویئر اپڈیٹ ہونا بھی کہتے ہیں اور یوٹرن لینا بھی۔ کچھ اسے بڑے ماہر سیاستدان کا طریق گردانتے ہیں، تو کچھ اسے بڑے لیڈر کی نشانی۔ بہرحال یہاں صبح کے دوست شام کے دشمن اور شام کے خون کے پیاسے صبح کے رفیق نکلتے ہیں۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سیاسی داؤ پیچ سے دل لگا بیٹھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کی بے اعتباری سے ہمیشہ کےلیے اکتا کر منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔
ویسے اِس دھرتی نے بھی کیا کیا رنگ بدلنا نہیں دیکھا۔ یہ دھرتی بولتی نہیں ورنہ یہ بتاتی کہ یہاں کیا کیا قلابازیاں نہیں ماری گئیں۔ یہاں وہ ایوب خان، جن کو سیاسی معاملات میں مداخلت پر قائداعظم غیرسنجیدہ کہہ کر مشرقی پاکستان بھیج دیتے ہیں، وہی ایوب خان ایک دہائی کےلیے اِس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ اسی قائد کی بہن کو بھارتی ایجنٹ اور غدار بنا دیتا ہے۔ یہاں بھٹو سے 'مونکی جنرل' کا خطاب پاکر مسکرانے والا اور بھٹو کے خاندان کی ہمیشہ وفاداری کا حلف اٹھانے والا ضیاء اْسی بھٹو کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہاں پی این اے کی موومنٹ کے دوران حالات بگڑنے پر ضیاء کو خط لکھ کر مارشل لاء لگانے کی منت کرنے والے اصغر خان بعد ازاں آئی جے آئی کے ذریعے فوج کی سیاسی مداخلت پر کیس لے کر عدالت پہنچ جاتے ہیں اور اصغر خان کیس کے نام سے تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔
یہاں بینظیر بھٹو کو انگریزوں کی ایجنٹ کہہ کر ان کی قابلِ اعتراض تصاویر جہاز سے پھینکنے والے اسی انگریزوں کی ایجنٹ کے ساتھ انگریزوں کے دیس میں میثاقِ جمہوریت کر بیٹھتے ہیں۔ یہاں مشرف جس منتخب وزیرِاعظم کا تختہ الٹ کر برسرِ اقتدار آتا ہے اور طیارہ سازش کیس میں جس کی موت کا سامان کرتا ہے، پھر اسی کو ڈیل کرکے باہر جانے دیتا ہے۔ مشرف یہاں بیٹھ کر یہ دعوے کرتا ہے کہ وہ نواز شریف اور بینظیر کو کبھی واپس نہیں آنے دے گا اور وہ دونوں باہر بیٹھ کر مشرف سے ڈیل نہ کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ مگر شومئی قسمت کہ وہ دونوں اسی مشرف سے ڈیل کرکے وطن واپس لوٹتے ہیں۔ پھر وہ اسی مشرف کے مواخذے کی قسمیں کھاتے ہیں، مگر میاں صاحب اپنے دورِ حکومت میں اْسے سیف ایگزٹ فراہم کرتے ہیں۔
یہاں ضیاء کے سائے میں سیاست شروع کرنے والا بھی دولت کا حساب دیتے وقت نظریاتی ہوجاتا ہے اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتا ہے، جب کہ یہاں زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنے کا اعلان کرنے والا اور بات بات پر جالب کی نظمیں سنانے والا اپنے بھائی کے بیانیے سے زیادہ زرداری کے بچ بچاؤ کے بیانیے کا حامی دکھائی دیتا ہے۔ یہاں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر لگادیا جاتا ہے اور اسی کے خوف سے بزدار کو تاحیاتِ حکومت وسیم اکرم پلس کے عہدے پر فائز رکھا جاتا ہے۔
ستر سال میں بے تحاشا ایسی موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد بھی ہم ہیں کہ آئیڈیل کی تلاش میں ہیں اور کبھی جمہوری تو کبھی غیر جمہوری قوتوں کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ میرے خیال سے اب تک ہمیں جان جانا چاہیے کہ عوام کا فقط نام لیا جاتا ہے اور مفادِ عامہ کے نام پر اہلِ سیاست اپنی پیٹ پوجا کو ہی اصلی فن گردانتے ہیں۔ اور ہر انتخاب کے بعد ہاتھ ملتے عوام سوچتے ہیں
کبھی ہیرے، کبھی پکھراج میں ڈھلنے والے
ہم نے پتھر بھی چنے، رنگ بدلنے والے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔