نوبل انعام اور غربت کا خاتمہ

اب بھی پاکستانی ریاست تعلیم پر جو خرچ کرتی ہے وہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ سے کم ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 19, 2019
[email protected]

کلکتہ سے تعلق رکھنے والے چھٹے شہری کو نوبل انعام مل گیا۔ ایشیا، افریقہ کے کسی شہر کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے ۔

اس سال ماہر اقتصادیات ابھی جیت بنرجی (Abhijeet Banerji)ان کی فرانسیسی امریکی اہلیہ Estherdufli اور امریکی شہری Michael Kreme کو دنیا میں غربت کے خاتمے کے موضوع پر تحقیقی کام کرنے کے اعتراف میں سویڈن میں قائم دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام ملا ہے۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر ودانشور رابندر ناتھ ٹیگور، مدر تھریسا، رونالڈوز، امرتا سین اور سی وی رام پہلے ہی نوبل انعام کے مستحق قرار پاچکے ہیں۔

رابندر ناتھ ٹیگور کو 1913ء میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ وہ پہلے غیر یورپی اورغیر سفید فام فرد تھے جس کو یہ انعام ملا تھا۔ رابندرناتھ ٹیگور نے اگرچہ زیادہ تعلیم گھر میں حاصل کی تھی، وہ بنگالی زبان کے عظیم شاعر قرار پائے تھے۔ ٹیگور نے ممتاز درسگاہ شانتی نکیتن کی بنیاد رکھی تھی۔ شانتی نکیتن ادب، فلسفہ، سماجی علوم اور تاریخ وغیرہ کی عظیم درسگاہ سمجھی جاتی ہے۔

ٹیگورکو ان کی مشہور نظم گیتن جلی (Geetan Jali) پر یہ اعزاز دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سی پی رامن کو 1930 میں فزکس کے شعبے میں تحقیق کام پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ڈاکٹر سی پی رامن نے پریزیڈنسی کالج مدراس میں تعلیم حاصل کی تھی اورکلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ البانیہ میں پیدا ہونے والی مدر تھریسا کو 1979 میں غریبوں کے لیے کام کرنے پر نوبل انعام ملا تھا۔ مدر تھریسا نے 1950میں کلکتہ میں رومن کیتھولک چرچ کے تحت Missionaries of charity (M.O.C) قائم کی تھی۔

وہ ساری زندگی کلکتہ میں غریبوں میں کام کرتی رہی تھی۔ مدر تھریسا کا قائم کردہ ادارہ دنیا کے کئی ممالک میں کام کررہا ہے۔ بنگال میں غذائی قلت کے دوران غریبوں کی جان بچانے کے لیے مدر تھریسا نے عظیم خدمات انجام دی تھیں۔ مدر تھریسا 5 ستمبر 1997 کو کلکتہ میں انتقال کرگئیں۔ ان کے قائم کردہ ادارہ کا ہیڈ کوارٹر اب بھی کلکتہ میں ہے ۔ پروفیسر امرتا سین کو 1998 میں ویلفیئر اکنامکس کے موضوع پر تحقیقی کام پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔

سین برطانوی ہند کے دور میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے ۔آزادی کے بعد ان کا خاندان کلکتہ میں آباد ہوا۔ پروفیسر امرتا سین نے شانتی نکیتن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ پریزیڈنسی کالج مدراس میں زیر تعلیم بھی رہے اور برطانیہ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر سین 1972میں کلکتہ واپس آئے اور شانتی نکیتن میں معلم کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر امرتا سین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مودی حکومت کی پالیسیوں کی سخت مذمت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی پالیسیاں ترقی کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ ڈاکٹر امرتا سین نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا تھا جن ممالک میں آزادئ صحافت ہو اور خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملتے ہوں، ان ممالک میں قدرتی آفات میں بھی ان ممالک کے مقابلے میں کم نقصان ہوا۔ جہاں آزادئ صحافت نہیں تھی ، خواتین پسماندہ تھیں اور آمرانہ نظام تھا۔

اسی طرح ڈاکٹر رونالڈروز کو 1902 میں نوبل انعام ملا تھا۔ ڈاکٹررونالڈروز کا تعلق برطانیہ سے تھا مگر انھوں نے 1898 سے کلکتہ میں فرائض انجام دینے شروع کیے تھے اورکلکتہ میں ہی تحقیق کرکے ملیریا پیدا کرنے والا مچھر کو دریافت کیا تھا۔ بنرجی کی والدہ اور والد بھی ماہر اقتصادیات ہیں۔ بنرجی نے کلکتہ کے پریمیئر ساؤتھ اسکول اور پریزیڈنسی کالج یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔

بنرجی اور ان کی اہلیہ نے غربت کے خاتمے کے لیے اسکولوں کے تعلیمی معیارکو تحقیق کا موضوع بنایا ۔ ان ماہرین کو 9 ملین سویڈش کرونا کے برابر رقم ملے گی۔ کہا جاتا ہے ڈاکٹر بنرجی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے اقتصادی مشیرکے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کم سے کم آمدنی گارنٹی اسکیم شامل کی تھیں۔

اس اسکیم کے تحت 5 کروڑ افراد سالانہ 72 ہزار روپے ادا کرتے، یوں 3,60,000 کروڑ رقم ہر سال جمع ہوتی۔ ڈاکٹر بنرجی آج کل امریکی شہری ہیں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ ایم آئی ٹی (M.I.T) میں غربت کے خاتمے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ 45 سالہ ڈاکٹر ڈفلو پہلی کم عمر خاتون ہیں جنھیں نوبل انعام ملا ہے۔

ڈاکٹر بنرجی 107 ماہرین اقتصادیات اور سوشل سائنٹسٹس میں سے ایک تھے جنھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کے شماریات کے اداروں میں سیاسی مداخلت نہ کی جائے اور اقتصادی اعداد وشمار کا تقدس برقرا ر رکھا جائے۔ ان سوشل سائنٹسٹس نے ان خبروں پر تشویش کا اظہارکیا تھا کہ شرح پیداوار اور بے روزگاری سے متعلق اعداد وشمار میں ردو بدل کیا گیا تھا۔

ان ماہرین اقتصادیات نے غربت کے خاتمے کے لیے نئے نظریات پیش کیے ہیں۔ سویڈن کی سائنس اکیڈمی کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں 700 ملین افراد کی آمدنی انتہائی کم ہے اور ہر سال 5 سال تک کی عمر تک کے 5 ملین بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر موت کی وادی میں کھوجاتے ہیں۔ ان ماہرین کے مرتب کردہ پروگرام پر عمل درآمد کے نتیجے میں بھارت کے 5 ملین بچوں کو فائدہ ہوا۔

ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں سستا صحت کا نظام نافذ ہوا۔ ڈاکٹر بنرجی نے 2003میں عبدالطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب (J-PAL) کی بنیادی رکھی تھی۔ بنرجی اور ان کی اہلیہ دنیا بھرکے 400 اسکالروں کے ساتھ غربت کی وجوہات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ بنرجی کی اہلیہ ڈفلو نے نوبل انعام کی خبر سننے کے بعد کہا کہ اس ایوارڈ سے دنیا میں آباد غریبوں کی زندگی کا معیار بلند ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر بنرجی کا کہنا تھا کہ زیادہ ٹیکس لگائے بغیر غربت کے خاتمے کے منصوبوں کے لیے خطیر رقم حاصل ہوسکتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کے ایک اور شہری کو دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ملنا تمام ایشیائی شہریوںکے لیے تقویت کا باعث ہے، مگر اس انعام کے حاصل کرنے کی جدوجہد پر تفصیلی غور و فکرکی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔

صرف ٹیگورکا تعلق امراء کے خاندان سے تھا مگر بچپن سے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے، ابتدائی عمر سے سخت محنت کو شعار بنانے، اسکولوں کے معیارکی بلندی ،کالج کی سطح پر مسلسل محنت، تعلیم میں کسی قسم کی رعایت نہ دینے کے تصور ، یونیورسٹی کی سطح پر میرٹ کو پانے، تحقیق کے لیے بنیادی سہولیات اور ماحول فراہم کرنے سے عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق کے لیے تمام وسائل کی دستیابی اور علمی آزادی کے ہتھیارکے سائے تلے آزادی سے تحقیق کرنے سے حقیقی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

بھارت کا تعلیمی نظام پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کی تیار کردہ پالیسیوں کے تحت ترقی کی طرف گامزن ہوا۔ بھارت میں تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم پاکستان سمیت کسی پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک یونیورسٹیاں ایک خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتی تھیں جواہر لعل یونیورسٹی نئی دہلی جامعہ ملیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور کلکتہ یونیورسٹی اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں آزاد خیالی کو خصوصی اہمیت دی جاتی تھیں۔ جواہر لعل یونیورسٹی اسی ماحول میں ارتقاء پذیر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے طالب علم کشمیر کے عوام کے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں۔

کشمیری پروفیسر افضل گرو کی پھانسی کی مذمت کرتے ہیں اور بھارت میں چلنے والی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں کمیونسٹ طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ اس یونین کے سابق صدر ڈاکٹرکنیہا کمار اور سابق نائب صدر شہلا رشید آج کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے لیے بھارت کے آئین کی شق 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاج کررہے ہیںجواہر لعل نہرو کے طلبہ کے مقبول شاعر فیض احمد فیض اور حبیب جالب ہیں۔ یہی آزاد ماحول ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر امرتاسین کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ انعام پانے والے ہندو انتہا پسندی کو تباہ کن سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیمی شعبہ مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اب بھی پاکستانی ریاست تعلیم پر جو خرچ کرتی ہے وہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ سے کم ہے۔ اسکولوں اورکالجوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں انفرااسٹرکچرکی کمی اور تحقیق کے لیے وسائل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ جبرکے ماحول کا شکار ہیں۔ محقق کو تحقیق کے لیے عقیدہ کا پابند کیا جاتا ہے، یوں آزادی سے تحقیق کرنے والے در، درکی ٹھوکریں کھاتے ہیں یا پھر کراچی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کی طرح قتل کردیے جاتے ہیں یا جنید حفیظ کی طرح جیل کے ڈیتھ سیل میں برسوں مقید رکھے جاتے ہیں۔

پہلا نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو عقیدے کی بناء پر راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے پسندیدہ ڈاکٹر عاطف میاں کو جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو نوبل انعام مل سکتا ہے انھیںملک سے باہر جانے پر مجبورکیا گیا ۔ بنیادی طور پر اس بات پر بحث ومباحثہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام پسماندہ کیوں ہے اور تحقیق میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے مگر تعلیمی شعبہ کو اہمیت دی جائے اور تحقیق کو عقیدہ سے جدا کیا جائے تو پھر نوبل انعام کا حقدارکوئی پاکستانی بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں