فضل الرحمن آزادی مارچ سے حکومت کا تختہ الٹانے کیلیے پر امید

سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز، پی پی اور ن لیگ شرکت کے معاملے میں تاحال ابہام کا شکار


محمد الیاس October 19, 2019
سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز، پی پی اور ن لیگ شرکت کے معاملے میں تاحال ابہام کا شکار فوٹو:فائل

جمعیت علما پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کررہے ہیں۔

ابتدا میں مولانا فضل الرحمن صرف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے زیادہ رابطے میں تھے لیکن اب انھوں نے مسلم لیگ ق کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے اور ان کوقائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ حکومت کاساتھ چھوڑیں کیونکہ موجود حکومت کاساتھ دینا عوام دشمنی ہے، چوہدری برادران ملک کے زیرک سیاستدان ہیں اور موجودہ حالات میں ان کا حکومت میں رہنا مناسب نہیں ہے لیکن چوہدری برادران نے اس پر انہیں صرف ایک ہی بات کی کہ وہ حکومت سے مذاکرات کاراستہ اختیار کریں لیکن مولانا نے ایک بار پھر یہی کہا کہ وہ حکومت سے اب استعفی دینے پر ہی مذاکرات کرسکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے مولانا فضل الرحمن سے بات چیت کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا لیکن اس پر جب مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو شہبازشریف صاحب نے کوئی واضح طریقہ کار نہیں بتایاکہ وہ کس طرح آزادی مارچ میں شرکت کررہے ہیں لیکن ایک چیز دوران پریس کانفرنس واضح ہوئی کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے یہی کہاجاتارہا کہ وہ ابھی طے کریں گے کہ کس طرح مارچ میں شریک ہوں گے اس بارے میں طے کیاجارہاہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاگیا کہ31 اکتوبر کو آزادی مارچ کوبھرپور سپورٹ کیاجائے گا جس میں تمام رہنما جے یو آئی کے جلسہ میں شرکت کرکے خطاب کریں گے البتہ آزادی مارچ جہاں سے گزرے گا وہاں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے مکمل سپورٹ کیاجائیگا۔

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بھی موقف اختیار کیاجاتارہا کہ ہم دیکھیں گے کہ اگر پیپلزپارٹی کی جانب سے اگر پارٹی کی قیادت آزادی مارچ میں بلاول بھٹو نے کی تو مسلم لیگ ن کی جانب سے شہبازشریف قیادت کریں گے اس تمام صورتحال کی وجہ سے ابھی تک دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ مارچ میں ان کی جانب سے قیادت کون کرے گا اس کے علاوہ کس حد تک آزادی مارچ کوسپورٹ کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر بھی اپنے خدشات کااظہار کیاکہ ایک طرف تو مذاکرات کیلیے ٹیمیں بھیجنے کی بات کرتے ہیں دوسری جانب حکومتی رہنما مسلسل گالیاں دے رہے ہیں تو ایسے میں کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں مذاکرات صرف اسی صورت میں ہوں گے جب حکومت استعفی دے گی اس کے علاوہ حکومت سے کسی صورت میں کوئی بات نہیں ہو گی۔

مسلم لیگ ن کے ساتھ ملاقات کے دوران مولانافضل الرحمن نے دعوی کیا کہ 31اکتوبر کولاکھوں افراد اسلام آباد میں داخل ہوں گے اورانہوں نے یہ بھی بتایاکہ نوازشریف کے خط میں تجویز کردہ روڈ میپ پر بھی مشاورت ہوئی ہے، مسلم لیگ ن کی جانب سے شہبازشریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد فوری طورپر نیب لاہور کے دفتر میں جاکر میاں نوازشریف سے ملاقات کی اور اپنی بھرپور حمایت کے بارے میں اعلان پر اعتماد میں لیا ، یہ ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری رہی جس میں ن لیگ کی جانب سے آزادی مارچ کی ذمہ داریوں کاتعین کیاگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔