اپوزیشن جماعتیں مذاکرات کی حکومتی پیشکش کا جائزہ لینے پر تیار

حزب اختلاف کے اہم رہنماؤں کی حکومتی پیشکش پر غور کے لیے مولانا کو مشترکہ اپوزیشن کا اجلاس بلانے کی تجویز


عامر خان October 20, 2019
امید ہے مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن قیادت تحمل اور جمہوری انداز میں ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کرینگے، اسد عمر۔ فوٹو : فائل

حکومتی کمیٹی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا اپوزیشن جماعتوں نے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ اپوزیشن کا اہم اجلاس جلد اسلام آباد میں منعقد ہوگا جس میں حکومت سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ اور 31اکتوبر کے آزادی مارچ سمیت اسلام آباد میں مشترکہ اپوزیشن کے جلسہ سمیت دیگر امور سے متعلق حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔

دوسری جانب حکومت اس آپشن پر غور کررہی ہے کہ اگر اپوزیشن کے احتجاج سے اسلام آباد سمیت ملک بھر میں امن وامان خراب ہونے کا خدشہ ہوا تو پھر حزب اختلاف کے رہنماؤں کو نظر بند یا گرفتار کرنے سمیت دیگر انتظامی یا قانونی آپشنز پر عمل درآمد کا حتمی فیصلہ اس وقت کے حالات کودیکھتے ہوئے وفاقی حکومت کرے گی تاہم حکمراں جماعت کی آخری حد تک کوشش ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات سے اس معاملے کا حل تلاش کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی نے ملک کی سیاسی صورتحال ،جے یوآئی (ف) کے آزادی مارچ اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے پیپلز پارٹی ،جمعیت علمائے اسلام (ف) ،مسلم لیگ (ن) ،عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر کی قیادت سے براہ راست ملاقات اور بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس حوالے سے حکومتی کمیٹی نے ان اپوزیشن جماعتوں کے اہم رہنماؤں سے پس پردہ رابطے کیے ہیں اور ان کو پیغام بھیجا ہے کہ کمیٹی ان سے ملاقات اور مذاکرات کرنا چاہتی ہے ۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما انفرادی کے علاوہ اجتماعی طور پر بھی بات چیت کرنا چاہیں توکمیٹی ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہے ۔اگر اپوزیشن کوئی مشترکہ مذاکراتی کمیٹی بنانا چاہتی ہے تو اس کمیٹی سے بھی حکومتی وفد ملاقات کے لیے رضامند ہے ۔

اپوزیشن جماعتیں وقت اور مقام انفرادی یا مشترکہ طور پر طے کرلیں حکومتی کمیٹی فوری مذاکرات شروع کردے گی ۔اس پس پردہ پیغام میں اپوزیشن جماعتوں کو کہا گیا ہے کہ اگر اپوزیشن مذاکرات کے لیے تیار ہوتی ہے اوراجازت سے پر امن مارچ یا جلسہ کرتی ہے تو حکومت اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔ پی ٹی آئی کے اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومتی کمیٹی اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے مختلف آپشز پرغور اور مشاورت کررہی ہے۔

ان آپشنز میں غور کیا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ،اے این پی کے صدر اسفندیار ولی خان سمیت اہم اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے براہ راست رابطے اور ملاقاتیں کرے گی ۔ان ملاقاتوں میں اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے تحفظات اور مطالبات معلوم کیے جائیں گے ۔

اپوزیشن جماعتوں سے کہا جائے گا کہ وہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے لیے رضامند کریں ۔حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ جے یوآئی (ف) سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو ملاقات اور مذاکرات کے لیے پیغام بھیجا گیا ہے ۔اب ان کے جواب کا انتظار ہے ۔حکومتی ٹیم فی الحال اپوزیشن سے بات چیت کے لیے پس پردہ رابطہ کاری کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔اس حوالے سے کچھ رابطہ کار اپوزیشن سے بات چیت میں مٖصروف ہیں ۔حکومتی ٹیم کو امید ہے کہ اپوزیشن سے بات چیت کا آغاز جلد ہوجائے گا ۔

حکومتی کمیٹی اپوزیشن رہنماؤں کے جواب آنے کی صورت میں آئندہ کی حکمت عملی مرتب کرے گی ۔ایک اہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی آخری حد تک کوشش ہے کہ اپوزیشن سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے گا ۔وفاقی حکومت نے مذاکرات ناکام یا نہ ہونے کی صورت میں جے یو آئی (ف) کے 31اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کررہی ہے ۔

اگر جے یو آئی (ف) نے مذکورہ مارچ کی اجازت انتظامیہ سے طلب نہیں کی تو پھر حکومت کی جانب سے انتظامی اور قانونی آپشنز حالات کو دیکھتے ہوئے استعمال کیے جائیں گے ۔اگر وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی نے منظوری دی تو پھر گرفتاریوں اور نظر بندی کا آپشن استعمال کیا جائے گا ۔اگر ضرورت پڑی اور امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہوا تو پھر مولانا فضل الرحمن ٰ اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو نظر بند یا گرفتار کیا جاسکتا ہے تاہم اس آپشن کا استعمال آخری صورت میں کیا جائے گا ۔

اگر حکومت کو خدشہ ہوا کہ امن وامان خراب ہوسکتا ہے تو آزادی مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھاری رکاوٹیں کھڑی کرکے راستوں کو بند کیا جائے گا ۔حکومت انتظامی وقانونی آپشنز کے تحت مجمع کومنتشر کرنے کیلیے گرفتاریوں ،شیلنگ ،مقدمات اور دیگر کا استعمال کرے گی ۔ان آپشنز پر اس وقت کی صورتحال کے مطابق عمل کیا جائے گا ۔انتہائی ضرورت پڑنے پر اسلام آباد کی سیکیورٹی رینجرز یا فوج کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔

اگر جے یو آئی (ف ) نے آزادی مارچ کے لیے تحریری اجازت حاصل کی تو پھر اس میں حکومت رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ۔وفاقی حکومت نے طے کیا ہے کہ آزادی مارچ کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔اگر صورتحال خراب ہونے کا انتہائی خدشہ ہوا تو کرفیو کا آپشن استعمال کرنے پر غور کیا جائے گا ۔

اپوزیشن کے ایک اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے بات چیت کے پیغام پر فیصلہ مشترکہ طور پر اپوزیشن اتحاد کرے گا ۔تاہم جمہوریت میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ اس پیغام کا اپوزیشن جماعتیں انفرادی طور پر جائزہ لے رہی ہیں ۔حکومت سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا مشترکہ فیصلہ اپوزیشن اتحاد جلد کرے گا ۔

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسد عمر نے ایکسپریس کو بتایا کہ وفاقی حکومت اپوزیشن سے مذاکرات میں سنجیدہ ہے ۔اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے اور کوشش جاری ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ مولانا فضل الرحمنٰ اور اپوزیشن قیادت تحمل اور جمہوری انداز میں ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا آپشن ہر حال میں حکومت آخری وقت تک برقرار رکھے گی ۔انہوں نے کہا کہ ابھی مذاکرات کی کوشش کررہے ہیں ،انتظامی وقانونی آپشن کا فیصلہ وفاقی حکومت نے کرنا ہے ۔اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایکسپریس کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا پارٹی قیادت نے کرنا ہے یہ میری ذاتی رائے ہے ۔حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کا جواب ہاں یا نہ میں دینے کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن مشاورت کے بعد دے سکتی ہے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماء خرم دستگیر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے شہباز شریف سے رابطہ کیا ہے اور مذاکرات کا پیغام دیا ہے تاہم (ن) لیگ نے تجویز دی ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے مشترکہ اپوزیشن کی اے پی سی یا اجلاس 31اکتوبر سے قبل طلب کیا جائے ۔ اس معاملے پر فضل الرحمن اور اپوزیشن میں جلد مشاورت ممکن ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما مولانا عطا الرحمن نے بتایا کہ حکومت کے مذاکرات کے پیغام پر آئندہ کی حکمت عملی مشترکہ اپوزیشن طے کرے گی ۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں