شہر کا شہر ہوگیا ہم رنگ

مصورکائنات کے تخلیق کردہ رنگ جہاں ایک طرف زندگی کی علامت ہیں تو دوسری طرف ہماری حس لطافت کی بالیدگی کا ذریعہ بھی ہیں۔


Ateeq Ahmed Azmi October 13, 2013
دنیا کے ایسے شہر اور قصبے جن کی عمارتیں کسی ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: خالق کائنات نے زمین نام کے اس سیارے کو لامحدود رنگوں سے سجایا ہے۔ شگوفوں، بادلوں، پہاڑوں، جنگلوں، صحرائوں، دریائوں اور آبادیوں میں بکھرے ہوئے یہ رنگ زندگی کی علامت ہیں۔

مصور کائنات کے تخلیق کردہ یہ رنگ جہاں ایک طرف زندگی کی علامت ہیں تو دوسری طرف ہماری حس لطافت کی بالیدگی کا ذریعہ بھی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ انسان اُن مناظر یا نظاروں کو زیادہ پسند کرتا ہے جو مختلف رنگوں کے امتزاج پر مشتمل ہوتے ہیں، کیوں کہ اپنی جانب متوجہ کرنے والے یہ مختلف رنگ آپس میں مل کر ایک خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ تاہم جب رنگوں کے استعمال کا تعلق رہائش گاہ کی آرائش سے ہو تو پسند کی اہمیت دوچند جاتی ہے اور ہر صاحب مکان اپنے گھر پر منفرد اور جاذب نظر رنگ و رغن کروانا چاہتا ہے۔ اس خواہش میں وہ مختلف رنگوں کا انتخاب کرتا ہے، تاکہ اس کا مکان دوسرے مکانوں سے ممتاز نظر آئے، لیکن دنیا میں کچھ ایسے بھی علاقے ہیں، جہاں کی بیشتر رہائش گاہوں کی بیرونی دیواریں ایک ہی رنگ میں رنگی نظر آتی ہیں۔ زیرنظر تحریر میں ایسے ہی علاقوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں جہاں پر تعمیر کیے گئے گھروں کی بیرونی دیواروں پر ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔

جز کار ، اسپین Juzcar, Spain:



وہ افراد جو کارٹون فلموں کے شوقین ہیں یقیناً ''دی اسمرفز '' کارٹون فلم سے واقف ہوں گے۔ سر پر سفید ٹوپی اور نیلی رنگت والے کارٹون کرداروں کی کہانی زیرزمین واقع خیالی دنیا کے پستہ قد افراد کے گرد گھومتی ہے، جو عام افراد میں گُھل مِل جاتے ہیں۔ اس حوالے سے جون سولہ سن دوہزار گیارہ میں جب اس کارٹون فلم سیریز کا نیا حصہ جاری کیا گیا تو فلم کے منتظمین نے اسپین کے جنوب میں واقع صوبے ''مالاگا'' کے قصبے '' جزکار'' میں پریمیر شو منعقد کیاشو کی تیار ی کے دوران فلم کی انتظامیہ ''سونی پکچرز'' نے قصبے میں موجود تمام گھروں کی بیرونی دیواروں پر ''دی اسمرفز'' کارٹونوں کی رنگت کی مناسبت سے نیلا رنگ کردیا، جو آج تک قائم ہے۔



اس کام کی تکمیل کے دوران چار ہزار لیٹرکی مقدار میں نیلا رنگ استعمال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ فلم کا پریمیئرشو ختم ہونے کے بعد سونی پکچرز نے دسمبر دو ہزار گیارہ میں گھروں کو دوبارہ سفید رنگ میں تبدیل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو لگ بھگ تین سو گھرانوں پر مشتمل قصبے کے رہائیشیوں نے رائے شماری کے بعد اس تبدیلی سے انکار کردیا اور گھروں کی بیرونی دیواروں کی نیلی رنگت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ قصبے کے میئر ''ڈیوڈ فرنانڈس ٹراڈو'' جنہیں قصبے کے افراد اب ''پاپا اسمرفز'' کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج جنوبی اسپین کے دوردراز علاقے میں واقع سرسبزو شاداب پہاڑیوں میں گھرے اس نیلے قصبے 'جز کار'' کو سالانہ ایک لاکھ سیاح دیکھنے آتے ہیں۔

ازامال ، میکسیکو Izamal, Mexico:



میکسیکو کا وسطی علاقہ قدیم ''مایا'' تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ اس علاقے میں واقع میکسیکو کی ریاست ''یوکاتان''کا چھوٹا سا قصبہ ''ازامال'' نہ صرف مایا تہذیب کے آثار قدیمہ سے بھرا پڑا ہے، بل کہ یہاں موجودہ عہد میں تعمیر کردہ عمارتوں کی بیرونی دیواروں کی پیلی رنگت بھی دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ تقریباً پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل یہ چھوٹا سا قصبہ جسے بہ آسانی پیدل گھوما پھرا جاسکتا ہے۔ گذشتہ دو ہزار سال سے کسی نہ کسی شکل میں آباد ہے اور مایا تہذیب کا اہم مسکن رہا ہے۔



یہی وجہ ہے کہ یہاں تعمیر کیے گئے۔ مایا تہذیب سے تعلق رکھنے والے اہرام آج بھی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان آثاروں کے درمیان قصبے کے تمام گھر، بازار، دفاتر، عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے اور دیگر مقامات کی پیلی رنگت کی عمارتیں بھی کسی عجوبے سے کم نظر نہیں آتیں۔ قصبے کی اسی انفرادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سن دوہزار دو میں میکسیکو کی وزارت سیاحت نے ''ازامال'' کو بھی ان 83 قصبہ جات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، جنہیں وہ ''میجی کل ولیج پروگرام یا جادوئی گائوں کا منصوبہ'' کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس پروگرام میں اپنی انفرادیت کے باعث سیاحت کو فروغ دینے والے قصبہ جات شامل ہیں۔



جے پور، انڈیا Jaipur, India:



ہندوستان کی ریاست راجستھان اپنی منفرد اور رنگارنگ ثقافت کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس ریاست کا دارالحکومت ''جے پور'' ہے جو اپنے گلابی رنگ کے درودیوار کے باعث ''گلابی شہر'' کہلاتا ہے۔ سترہ سو ستا ئیس میں بسنے والا یہ شہر ابتدا میں مکمل طور پر گلابی رنگت کی عمارتوں پر مشتمل نہیں تھا۔ تاہم اٹھارہ سو تریسٹھ میں برطانوی ولی عہد پرنس ایڈورڈ جو بعدازاں بادشاہ بنے اور ''کنگ ایڈورڈ ہفتم'' کہلائے ان کی آمد کی خوشی میں استقبال کے موقع پر پورے شہر کو گلابی رنگ دے دیا گیا، جو آج تک قائم ہے۔



شہر میں گلابی رنگ کے پتھروں سے تخلیق کی گئی مشہور عمارتوں میں ہوا محل، قلعہ جے گڑھ، جنتر منتر رصدگاہ، جل محل، شاہی محل، مبارک محل، چندرہ محل وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ شہر کی تعمیر نہ صرف گلابی رنگت کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے، بل کہ شہر کا تعمیری انداز بھی نہایت زبردست کشش رکھتا ہے۔ بنگالی ماہر تعمیرات ودیا دھرچکرورتی کا پونے تین سو سال قبل ڈیزائن کیا ہوا یہ شہر نو حصوں میں منقسم تھا، جس میں دو حصے دفاتر اور باقی سات حصے عوام الناس کے لیے مخصوص تھے اور ان کے عین درمیان میں شاہی محل تھا۔ گلابی رنگت میں ڈھلا راجپوت طرز تعمیر کا یہ شاہی محل قابل دید ہے۔

جودھ پور، انڈیا Jodhpur, India:



ہندوستان کے صف اول کے تاریخی قلعوں میں سے ایک ''قلعہ مہران گڑھ'' ہے جس کے اطراف میں واقع ساڑھے پانچ سو سال قدیم ہے۔ جودھ پور شہر کی پہچان اس کے گھروں کی چھتوں اور دیواروں کا نیلے رنگ پر مشتمل ہونا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کوئی مستند حوالہ نہیں ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ چوں کہ جودھ پور میں ہندو اکثریت آباد ہے اور ہندو مت میں ذات اور برادری کا بہت عمل دخل ہے، لہٰذا نیلے رنگ کا یہ استعمال کسی مخصوص ذات یا برادری کی شناخت یا مذہبی رسم کے طور پر کیا جاتا تھا اور اس حوالے سے اونچی ذات کے برہمن اپنی علیحدہ شناخت کے لیے اپنے گھروں کو نیلے رنگ سے مزین کرتے ہوں گے۔



تاہم یہ علم نہیں کہ وہ کون سا پہلا ''غیر برہمن'' فرد تھا جس نے ہمت کرکے اپنے گھر پر نیلا رنگ کیا، کیوں کہ اب جودھ پور میں بلا تخصیص ذات اور برادری بیشتر گھروں پر نیلا رنگ ہے، البتہ کچھ گھرانوں کے درودیوار پر نیلے رنگ کے بجائے دیگر رنگ وروغن بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اگر قلعہ مہران گڑھ کی بلند فصیلوں سے ''جودھ پور'' شہر پر نظر ڈالی جائے، تو صحرائے تھر کی خشک اور بنجر زمین کے درمیان جودھ پور کا شہر آنکھوں کو ٹھنڈ ک پہنچانے والا نیلے رنگ کا ایک بڑا سا زمینی ٹکڑا نظر آتا ہے۔



راجستھان کی ثقافتی سرگرمیوں سے مزین یہ شہر جسے ''نیلا شہر'' اور ''سورج شہر'' بھی کہا جاتا ہے، سال بھر لاتعداد سیاحوں کی آماج گاہ بنا ر ہتا ہے۔

اندلسیہ کے سفید قصبہ جات White Towns of Andalusia:



موجودہ اسپین سترہ خودمختار ریاستوں پر مشتمل ہے یہ ریاستیں کچھ انتظامی معاملا ت میں حکومت اسپین کے احکامات کی پابند ہیں جب کہ بیشتر سیاسی اور انتظامی معاملات میں خودمختار ہیں۔ انہی خودمختار ریاستوں میں سے ایک ریاست ''اندلسیہ'' ہے، جو مملکت اسپین کے جنوب میں واقع ہے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگی معرکوں کے واقعات کا امین یہ علاقہ سن سات سو گیارہ سے چودہ سو بانوے عیسویں کے درمیان عربوں کے عہد میں ''الاندلس'' کہلاتا تھا، جو اب'' اندلسیہ'' کے نام میں تبدیل ہوچکا ہے۔



''اندلسیہ '' کو اسپین کی سترہ خودمختار ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ پچاسی لاکھ کی آبادی والے اس علاقے کا رقبہ ستاسی ہزار مربع کلومیٹر ہے جزیرہ نما آئبیریا کے بیشتر حصے میں واقع اس علاقے میں تقریباً پندرہ سو ایسے مقامات یا چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں، جن کے تمام گھروں کی بیرونی دیواروں پر سفید رنگ وروغن کیا گیا ہے جب کہ چھتوں کو سرخ یا گہرے بھورے رنگ کے ٹائلوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ قبل از تاریخ سے آباد اس علاقے میں مختلف وقتوں میں مختلف اقوام کا بسیرا رہا ہے۔ تاہم سفید رنگ و روغن والے گھروں کا باقاعدہ آغاز انیس سو بیس کے بعد شروع ہوا۔ اس سے قبل یہاں گھروں کی بیرونی دیواروں پر مختلف رنگ کیے جاتے تھے، جس کے شواہد ابھی تک بعض جگہوں پر موجود ہیں۔ ان شواہد کے مطابق ان میں سے اکثر گھروں پر سرخ اور زردی مائل پیلا رنگ کیا جاتا تھا۔



مقامی افراد کے مطابق انیس سو بیس کی دہائی میں جب اس علاقے پر آمر ''میگوئل پریمودا ریورا'' کی حکومت تھی تو اس کے حکم پر وسیع و عریض علاقے میں پھیلے ہوئے پندرہ سو سے زاید گائوں اور شہروں کے تمام گھروں کی بیرونی دیواریں اور شہروں کے دیگر حصے یکساں رنگ (سفید) میں تبدیل کردیے گئے تھے، چوں کہ یہ تمام علاقے سرسبز پہاڑیوں میں بکھرے ہوئے ہیں، لہٰذا اونچی نیچی پہاڑیوں کے درمیان سفید گھر انتہائی جاذب نظر اور منفرد منظر کشی پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے علاقے عوام کی پہنچ سے دور ہیں تاہم اس کے باوجود کچھ علاقے جن میں کوہ زہرا (Zahara de la Sierra) اولویرا (Olvera) گرازالیما (Grazalema) اوبرق (Ubrique) بینا ماہوما (Benamahoma) الگوڈونز (Algodonales) الگر (Algar) اسپیرا (Espera) وغیرہ میں سال بھر سیاحوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ سفید رنگ سے سجے منفرد اور قابل دید لینڈاسکیپ پر مشتمل ان علاقوں میں بیشتر ریاست اندلسیہ کے صوبے کاڈز میں واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحت اس علاقے کی سب سے بڑی صنعت کا درجہ پاچکی ہے۔

کولن جس۔لا۔ روگ، فرانس Collonges-la-Rouge, France:



آٹھویں صدی سے آباد ''کولن جس ۔لا ۔ روگ'' فرانس کے وسطی صوبے یا ریجن ''لیموزین'' میں واقع ہے۔ محض ساڑھے چارسو نفوس پر مشتمل یہ چھوٹا سا قصبہ چاروں جانب سے چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنے لال رنگ پر مشتمل گھروں کے باعث پورے فرانس میں منفرد شناخت کا حامل ہے۔



دراصل اس قصبے کے تمام گھر قصبے کے نواح میں پائے جانے والے ''لال پتھروں'' سے بنائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے ''ریڈ ولیج'' کے نام سے بھی معروف اس قصبے کے نہ صرف گھر کے درودیوار لال رنگ کے ہیں، بل کہ قصبے میں واقع چرچ اور بازار کی دیواریں بھی لال رنگ میں رنگی نظر آتی ہیں۔ اپنے اس یکساں اور ہم رنگ رہائش گاہوں اور خوب صورت مناظر کے باعث ''کولن جس ۔لا۔روگ'' قصبے کو فرانس کے خوب صورت ترین قصبوں یا گائوں کی فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے۔



پیائو دائو، پرتگال Piodao, Portugal:



یورپی ملک پرتگال کے وسط میں واقع انتہائی حسین پہاڑی سلسلے ''سیرا ڈو اکور'' کی ڈھلوانوں کے ساتھ واقع ''پیائودائو'' قصبے کی رہائش گاہیں بھی اپنے یکساں رنگ اور بناوٹ کے باعث سیاحوں کی تفریح کا اہم مقام ہیں۔ اخروٹ، زیتون، پائن اور نیلے پیلے اور اودے رنگوں کے پھولوں میں گھرے اس قصبے کے مکان پہاڑکے نشیب میں پائی جانے والی چکنی مٹی سے تخلیق کیے گئے ہیں اور چھت کے لیے پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں، جب کہ مکانوں کے دروازے اور کھڑکیاں قرب جوار کے درختوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔



دروازوں پر سفید اور کھڑکیوں پر ہلکا نیلا رنگ کیا گیا ہے۔ تعمیر کے اس انداز کے باعث قصبے کے تمام گھر سیاہی مائل بھورے یا کتھئی رنگ کے نظر آتے ہیں۔ تاہم قصبے میں واقع گرجا گھر مکمل طور پر سفید رنگ پر مشتمل ہے، جس کی چھت سرخ رنگ کے کھپریل سے بنائی گئی ہے۔ محض ایک سو اٹھتر افراد پر مشتمل اس قصبے کو انیس سو اسی میں پرتگال حکومت نے ''ملک کے انتہائی منفرد قصبے'' کے اعزاز سے نوازا۔

اوبرک ، اسپین Ubrique, Spain:



اسپین کے انتہائی جنوب میں حکومت اسپین کے زیرنگرانی کام کرنے والی خودمختار ریاست ''اندلسیہ'' واقع ہے۔ اس ریاست کے صوبے ''کاڈز'' میں واقع شہر ''اوبرک'' کے تمام گھروں کی بیرونی دیواریں سفید رنگ و روغن پر مشتمل ہیں۔ ساڑھے سترہ ہزار نفوس پر مشتمل یہ علاقہ سیاہی مائل پہاڑی ''سیریا ڈی اوبرک'' کے دامن میں واقع ہے۔

سفید رنگت کی رہائش گاہیں اور ان کے پس منظر میں سیاہی مائل عمودی پہاڑیاں سیاحوں کو مبہوت کردیتی ہیں اور سیاحوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی جادوئی دنیا میں آپہنچے ہوں۔



جبل الطارق، بحیرۂ اوقیانوس اور بحیرۂ روم کے کناروں پر پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے ''سیریا ڈی اوبرک'' کے نشیب میں واقع ہونے کے باعث اوبرک شہر ماضی میں جنگی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ تاہم آج یہ شہر ایک اہم تفریح مقام کی حیثیت حاصل کرچکا ہے، جہاں پورے سال دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔

شفشاون ، مراکش Chefchaoen, Morocco:



پہاڑوں کی جنت کہلائے جانے والا علاقہ ''شفشاون'' مراکش کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ مشہور پہاڑی سلسلے ''جبل الریف'' کے نشیب میں واقع یہ تاریخی شہر نیلے رنگ و روغن پر مشتمل رہائش گاہوں کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔



سن چودہ سو اکہتر عیسوی میں تعمیر کیے جانے والے اس شہر کی رہائش گاہوں کو نیلے رنگ میں رنگنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مورخین کا کہنا ہے کہ پندرہویں سے سترہویں صدی کے دوران بہت سے یہودی گھرانے اسپین سے جلاوطن کردیے گئے تھے، جو ترکِ وطن کرکے ''شفشاون'' میں بس گئے اور انہوں نے اپنی علیحدہ شناخت کے طور پر اپنے گھروں پر نیلا رنگ کردیا تھا۔ تاہم انیس سو بیس کی دہائی میں یہ یہودی خاندان واپس یورپ چلے گئے اور اب لگ بھگ پینتیس ہزار نفوس پر مشتمل اس شہر کے بیشتر گھروں، بازاروں اور دیگر عمارتوں پر گہرا نیلا یا ہلکا نیلا رنگ ہی بکھرا نظر آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں