اسمگلنگ کی روک تھام نائیجیرین فارمولا

دنیا گر تیزی سے بدل رہی ہے توکیا ضروری ہے کہ افریقی ممالک کا حال جوں کا توں رہے


فرحین شیخ October 25, 2019
[email protected]

دنیا گر تیزی سے بدل رہی ہے، توکیا ضروری ہے کہ افریقی ممالک کا حال جوں کا توں رہے۔ جو خود کو بدلنے کے لیے تیار ہو وقت آخرکار اس کو بدل ہی دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال حال ہی میں نائیجیریا نے قائم کی ہے۔ گلوبل ولیج کہلائی جانے والی اس دنیا میں اپنی سرحد کو ہمیشہ کے لیے بند کر دینا، اگرچہ کسی بھی ملک کے لیے ناممکن امر ہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ اس آر جارکی وجہ سے اب ہر ملک پہلے سے زیادہ خود کو غیرمحفوظ تصورکرنے لگا ہے اور بیرونی خطرات کے پیشِ نظر اپنی سرحدوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے جتن کر رہا ہے۔ نائیجیریا نے بھی سولہ سال سے پڑوسی ممالک کے لیے کھلی اپنی سرحد کو بند کر دیا ہے۔

نائیجیریا کی 773کلومیٹر سرحد پڑوسی ملک بینن سے،1497 کلومیٹر نائیجر سے،87کلومیٹر چاڈ سے اور1690 کلو میٹر سرحد کیمرون سے ملتی ہے۔ رواں سال اگست کے مہینے میں نائیجیریا نے اپنی سرحدی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے، اس کو تمام پڑوسی ممالک کے لیے بند کر دیا اور یہاں سیکیورٹی بہت سخت کرتے ہوئے درآمد اور برآمد ہونے والی مصنوعات کی سخت چیکنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

نائیجیریا نے گوکہ یہ قدم بہت دیر میں اٹھایا لیکن پھر بھی یہ تمام پڑوسی ممالک کے لیے ایک بڑا دھچکا بن گیا ہے، سب میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے اورکوئی بھی اس فیصلے سے خوش نہیں۔ عرصہ دراز سے نائیجیریا کے یہ تمام پڑوسی نرم سرحدی پالیسی سے بری طرح مستفید ہو رہے تھے اور اس کے نتیجے میں اسمگلنگ کا ایک بڑا بازارگرم تھا ، جو نائیجیریا کے صدر محمد وبوہاری کے اس انقلابی فیصلے کے بعد ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کی حمایت سے زیادہ مخالفت کی جا رہی ہے۔ پڑوسی ممالک کی ریاستوں سے لے کر نائیجیریا کے اپنے عوام تک کی اکثریت اس فیصلے سے خوش نہیں۔

ایک عرصے سے نائیجیریا کی سرحد پر تیل، روزمرہ استعمال کی اشیا، اسلحہ اور دیگر مصنوعات کی اسمگلنگ کا بھیانک سلسلہ جاری تھا۔ درآمدات و برآمدات کے نام پر ہونے والی یہ اسمگلنگ نما تجارت ایسی تھی کہ اس کا کوئی حساب کتاب ، دستاویزی ثبوت یا کھاتا نائیجیریا حکومت کے پاس نہ تھا۔ یوں اس غیر رسمی تجارت میں نہ توحکومت کا کوئی فائدہ تھا ، اور نہ عام آدمی کا۔ نائیجیریا میں پٹرولیم مصنوعات پر اچھی خاصی سبسڈی دی جاتی ہے، اس کے باوجود ان سے نائیجیریا کے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے، اسے پڑوسی ممالک کی طرف بے دریغ اسمگل کیا جا رہا تھا۔ اس غیر رسمی تجارت اور اسمگلنگ کے دھندے سے لگے پڑوسی ممالک اس قدر بے فکر تھے کہ بینن ، ٹوگو اور نائیجر تو اپنی سالانہ معاشی اور مالیاتی پالیسیاں ہی بنانے کی زحمت محسوس نہ کرتے۔

رفتہ رفتہ نائیجیریا کے عوام اور حکومت میں یہ احساس پیدا ہوتا گیا کہ اس کے پڑوسی ممالک خاص طور پر بینن کی بقا کا دار و مدار دراصل نائیجیریا کے معاشی استحصال پر ہی ہے۔ افسوس ناک حقیقت تو یہ ہے کہ بینن کی حکومت نائیجیریا سے ہونے والی اسمگلنگ سے اس قدر پرسکون تھی کہ اس کی ذمے داری بینن کے صرف تیس فی صد شہریوں کی رہ گئی تھی، باقی ستر فی صد آبادی کے معیار زندگی کا براہِ راست دارومدار نائیجیریا سے ہونے والی اسمگلنگ پر تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ورلڈ بینک بار بار اپنی رپورٹوں میں اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ جس دن نائیجیریا نے اپنی سرحدی پالیسیاں سخت بنا لیں وہ دن اس کے پڑوسی ممالک خاص طور پر بینن کے لیے زوال کا ہوگا اور اب وہ وقت آچکا ہے۔

اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹ ( ECOWAS )جس میں شامل پندرہ افریقی ممالک کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں لایا گیا تھا ، جس کے آرٹیکل نمبر دو اور بائیس کے مطابق ان تمام ممالک کے باشندے ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے، رہنے اور بسنے میں کلی طور پر آزاد ہوں گے۔ اس معاہدے کے اثرات مثبت کم اور منفی زیادہ پڑے۔ نائیجیریا کے موجودہ سربراہ محمد وبوہاری نے ملک کے ابتر حالات دیکھتے ہوئے معاہدے سے نکلنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ اگست کے مہینے سے نائیجیریا نے اس ضمن میں اقدامات کرنے شروع کیے اور اب وہ اپنی سرحد مکمل طور پر بند کرچکا ہے۔

ان کا یہ قدم اس لیے بھی راست ہے کہ نائیجیریا بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اسمگلنگ کے اس کاروبارکی وجہ سے وہاں کی زراعت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ حتٰی کہ چاول کی کاشت بھی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چاول نائیجر سے اسمگل ہوکر آتے تھے۔ محمد وبوہاری کا کہنا ہے کہ سرحد بند کر دینے کے بعد اب ہمارے کسان واپس کھیتوں کا رخ کریں گے، جس سے فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوگا اور نائیجیریا کو خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی پڑوسی ملک کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔

صرف یہی نہیں بلکہ اسمگلنگ کے اس کاروبار نے نائیجیریا میں کرپشن کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ اس کی روک تھام کے لیے جب جب جو بھی پالیسیاں بنائی گئیں وہ اعلیٰ افسران کے دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کی نذر ہو گئیں۔ نائیجیریا کے کسٹم افسران، سیاست داں، تاجر، عوام حتٰی کہ عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد اسمگلنگ کے اس دھندے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک تھی۔

سرحد کے دونوں اطراف کے باشندے مشترکہ نسل اور ثقافت کے حامل ہیں، جنہوں نے نائیجیریا کی سرحد کے دونوں اطراف شمال سے جنوب تک مقامی مارکیٹیں قائم کر رکھی تھیں۔ یہاں سے ہونے والے اسمگلنگ کے اس مذموم کاروبار سے ان لوگوں نے ذاتی جائیدادیں تو کھڑی کرلیں لیکن ایک عام فرد بے ثمر ہی ٹھہرا۔ اس پورے معاملے میں نائیجیریا کے لیے جو دوسری تشویش کی بات تھی وہ اسلحے کا پھیلاؤ تھا۔ سالوں سے بنا کسی روک ٹوک کے اسلحہ نائیجیریا میں اسمگل کیا جا رہا تھا، جس سے نائیجیریا میں امن وامان کی صورت حال ہمیشہ تشویش ناک رہی۔ اس کا حل سوائے اس کے کچھ اور تھا بھی نہیں کہ اسلحے کی اسمگلنگ کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں۔ ذرا دیر سے ہی سہی پر نائیجیریا کو ادراک ہو ہی گیا کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے فائدے کے لیے ہمیشہ اپنا نقصان کرتا چلا آیا ہے۔

یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نائیجیریا کا سرحد بندی کا یہ فیصلہ واقعی معیشت کی بحالی کے لیے سودمند ثابت ہوگا؟ اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی چاولوں کے مقامی تاجروں کو ہوئی ہے جن کا کہنا ہے کہ اب چاول کی اسمگلنگ رکے گی اور مقامی کاروبارکو فروغ ملے گا۔ لیکن عوام اس فیصلے سے اس لیے ناخوش ہیں کہ اسمگل ہوکر آنے والا چاول انھیں سستا پڑتا تھا اور اب مقامی چاول کی قیمتیں اس سے دوگنا زیادہ ہیں۔ ٹرانسپورٹر بھی ا س فیصلے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن راستے بندکرنے سے ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑا ہے۔

نائیجیریا نے یہ فیصلہ مقامی تجارت کو فروغ دینے کے لیے کر تو لیا ہے لیکن اس کے خلاف وہاں ملاجلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نائیجریا اس سال کے آخر تک مجبور ہوکر سرحد دوبارہ کھول دے گا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو مستقبل میں برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسمگلنگ سے روک تھام کا یہ فارمولا نائیجیریا میں کامیاب ہو نے بھی دیا جائے گا یا یہ بھی کرپشن کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔