چیئرمین ماؤ جدید چین کے بانی
چین میں اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے مگر نچلی سطح کے اختیارات کا بلدیاتی نظام بھی قائم ہے
گزشتہ صدی انقلابات کی صدی تھی۔ ان انقلابات نے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جرمنی میں 19ویں صدی میں پیدا ہونے والے عظیم دانشور کارل مارکس نے سوشل ازم کا نظریہ پیش کیا۔
مارکس کے اس نظریہ کا بنیادی مقصد استحصال سے پاک سماج کا قیام تھا۔ مارکس کا کہنا تھا کہ جب تک ریاست پر مزدوروں کی حاکمیت قائم نہیں ہوگی، استحصال کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ دنیا سے ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کے لیے کمیونزم کا نفاذ ضروری ہے۔ کمیونزم کے نفاذ سے غیر طبقاتی معاشرہ قائم ہوگا۔ استحصال کا سب سے بڑا ہتھیار یعنی ریاست ختم ہوجائے گی۔
وی آئی لینن کی قیادت میں روس کی کمیونسٹ پارٹی نے تاریخی لڑائی لڑی، یوں اکتوبر 1917ء میں پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین قائم ہوئی۔ سوویت یونین کے قیام سے یورپی دنیا میں نو آبادی نظام کے خاتمے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ایک نیا حوصلہ ملا۔ یہ وہ وقت تھا کہ چین خواب خرگوش میں کھویا ہوا تھا۔ برطانیہ، فرانس اور جاپان وغیرہ چین کے مزدوروں کا استحصال کرتے تھے۔ چین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں ایک ماؤزے تنگ تھے جو جدید چین کے معمارکہلائے۔
ماؤزے تنگ 26 دسمبر 1893ء کو پیدا ہوئے۔ وہ چین کے صوبہ Shaoshan Hunan کے رہنے والے تھے۔ ان کے والدکا شمارکسانوں کے خوشحال خاندان میں ہوتا تھا۔ ماؤ زندگی کے ابتدائی برسوں میں قوم پرست اور سامراج دشمن خیالات کے حامل تھے۔ ان کی والدہ بدھ مت کی پیروکار تھیں۔ ماؤ نے بدھ مت کو ترک کردیا تھا۔ ماؤزے تنگ اپنی ابتدائی سیاسی زندگی میں 1911ء میں رونما ہونے والے Xinhi انقلاب اور 1919ء میں My forth movement سے متاثر ہوئے اور پھر مارکس ازم اور لینن ازم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ ماؤ نے ابتدائی تعلیم شونان کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔
یہ اسکول چینی فلسفی کنفوش کے نظریات پر تعلیم دیتا تھا۔ ماؤ نے 13 سال کی عمر میں پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کی تو ان کے والد نے جو اپنے آہنی ڈسپلن کی بناء پر مشہور تھے ماؤ کی شادی 17 سالہ لیو سے کر دی۔ ماؤ نے کبھی اس شادی کو قبول نہیں کیا۔ ماؤزے تنگ نے پہلی ملازمت پیکنگ یونیورسٹی میں کی۔ ماؤچین کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (C.P.C) نے 1927ء میں Autum Harvest تحریک شروع کی۔ ماؤ نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ چین میں کوملتانگ اورکمیونسٹ پارٹی میں سول وارہوئی۔ ماؤ نے سرخ آرمی (Red Army) کی بنیاد رکھی۔ اس ریڈ آرمی میں اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی تھی۔ ماؤکی قیادت میں ریڈ آرمی نے تاریخی لانگ مارچ کیا۔
1935ء سے 1945ء کے دوران جاپان کے خلاف آزادی کی جنگ میں ماؤ کی قیادت میں کمیونسٹ فوج اور قوم پرست کوملتانگ نے متحدہ محاذ قائم کیا۔ ماؤکی قیادت میں لانگ مارچ میں ہزاروں سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہزاروں مسلسل سفرکرکے لانگ مارچ کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ماؤ نے جاپان کی سامراجی فوج کو شکست دینے کے لیے کوملتانگ کے سربراہ چنگ کائی شک کے ساتھ متحدہ محاذ کی قیادت میں جدوجہد کی۔
جب جاپان کی فو ج کو اس جنگ میں شکست ہوئی تو ماؤکی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی کی فوج نے چنگ کائی شک کو شکست دی اور چنگ کائی شک کو چین کے ایک جزیرے تائیوان میں پناہ لینی پڑی۔ ماؤزے تنگ نے یکم اکتوبر 1949ء میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور سوشلسٹ حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ ماؤکمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور چوائن لائی وزیر اعظم بنے۔ ماؤ اور چوائن لائی کی قیادت میں چین میں ترقی کے ایک نئے دورکا آغاز ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی جاگیرداوں کے خاتمے اور صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا چین کو عوامی جمہوری قرار دیا گیا اور چین کی معیشت زرعی تھی۔ معیشت کو صنعتی معاشرے میں تبدیلی کا آغازکہا گیا۔ چین میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں اور روزگارکی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہوئی۔
مغربی مبصرین الزام لگاتے ہیں کہ 1958ء سے 1962ء کے درمیان جب چین کی معیشت کی بنیادیں صنعتی معاشرے میں تبدیل ہورہی تھیں تو چین کو تاریخ کے بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غذائی قلت کے بحران میں 2 سے 4 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ چین کی حکومت نے کبھی ان الزامات کی تصدیق نہیں کی۔ سوویت یونین نے چین کے انقلاب کی بھرپور مدد کی۔ امریکا اور یورپ چنگ کائی شک کو چین کا واحد نمایندہ قرار دیتے تھے۔ سوویت یونین پاکستان اور سوشلسٹ ممالک عوامی جموریہ چین کی حکومت کو چین کی حقیقی حکومت قرار دیتے تھے۔ 60 ء کی دہائی میں سوویت یونین اور چین میں اختلافات بڑھ گئے۔
چیئرمین ماؤ کی قیادت میں چین میں ثقافتی انقلاب شروع ہوا۔ ماؤ نے ثقافتی انقلاب چینی معاشرے میں موجود انقلاب دشمنوں کے خاتمے کے لیے شروع کیا تھا۔ اس انقلاب کا ایک مقصد شخصیت پرستی کو معاشرے سے ختم کرنا تھا۔ اب چین کے نئے حکمراں ثقافتی انقلاب کو ایک بڑی غلطی قرار دیتے تھے۔ 1970ء میں امریکا کے صدر کے مشیر ڈاکٹرکینجر راولپنڈی سے خفیہ مشن پر پیکنگ آئے، یوں امریکا اور کمیونسٹ چین کے درمیان 20 سالہ پرانی دشمنی ختم ہوئی۔ امریکا اور چین کے درمیان مفاہمت کرانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ چین اور بھارت میں 1960ء میں تبت اور ہماچل پردیش کے معاملہ پر محدود جنگ ہوئی۔
اس جنگ میں چین کا بھارت پر غلبہ رہا مگر چین نے بھارت سے دوستی کر لی۔ چین نے بھارتی فوجی رہا کیے اور قبضے میں لیے گئے مال مویشی بھی واپس کر دیے گئے۔ 1972ء میں امریکا کے صدر رچرڈ نکسن نے بیجنگ کا دورہ کیا تو عوامی جمہوری چین اقوام متحدہ کا مستقل رکن بن گیا۔ سلامتی کونسل میں چین کو مستقل مندوب کی حیثیت مل گئی۔ تائیوان کو اقوام متحدہ سے نکال دیا گیا۔
ماؤزے تنگ کا 1976ء میں انتقال ہوا۔ لاکھوں افراد نے ماؤزے کے جنازے میں شرکت کی۔ ڈنگ پنگ ماؤکے جانشیں قرار پائے، وہ چین کی تاریخ کے ایک مختلف رہنما قرار پائے۔ وہ کئی دفعہ برطرف ہوئے، پھر صف اول کے قائدین میں شامل ہوئے۔کمیونسٹ دنیا میں یہ انوکھی مثال سمجھی جاتی ہے ۔ چو ائن لائی خارجہ امور کے ماہر تھے۔ انھوں نے افرو ایشیا ممالک کو غیر جانبدار تحریک میں جمع کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ چو ائن لائی کے ساتھ مارشل ٹیٹو ، بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور مصرکے جمال ناصر ان کے ہمراہ تھے۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو چو ائن لائی کے مداحوں میں شامل تھے۔
ڈین ساؤ پنگ نے چین کی معیشت کو فری مارکیٹ سے منسلک کرنے کی بنیاد رکھی۔ بعد میں برسر اقتدار آنے والے چینی قائدین نے ا مریکہ اور یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ترغیبات دیں۔ چین کی حکومت نے نوجوانوں کو کارخانے لگانے کے لیے 0ریٹ پر قرضے فراہم کیے۔ بجلی، گیس اور دیگر سہولتیں مفت میں ملنے لگیں۔ یوں چین کئی اشیاء کی تیاری کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ چین نے بھارت ، پاکستان اور ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا اورکینیڈا کی منڈیوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ چین کی معیشت اتنی مستحکم ہوگئی کہ چین کی کمپنیوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو شکست دینا شروع کر دی۔
چین کے بینک دنیا کے مضبوط بینکوں میں شمار ہونے لگے۔ چین نے برطانیہ سے اپنے جزیرے ہانگ کانگ کی واپس کے لیے ایک حکومت دو نظام کا نظریہ متعارف کرایا تو ہانگ کانگ اپنی خودمختاری کے ساتھ چین کا حصہ بن گیا۔ ہانگ کانگ میں نوجوان چین سے علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ چین میں فری مارکیٹ کے ساتھ کرپشن کا سیلاب بھی آیا۔ فری مارکیٹ معیشت کا لازمی جز ہے۔
چین کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت قوانین بنائے اورکئی ہزار افراد کو پھانسی کی سزائیں دیں مگر چین میں تمام طبقات سے وابستہ لوگوں کا احتساب ہوتا ہے جن میں فوجی، جج، بیوروکریٹس، منتخب نمایندے اور سرمایہ کار سب شامل ہیں۔ کسی بھی گروہ کو احتساب کے نظام سے مبرا قرار نہیں دیا گیا ہے۔ چین کی موجودہ حکومت کے سربراہ نے ایک بیلٹ ایک روڈ کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کے تحت چین کو اقتصادی راہداری کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک سے منسلک کرنا ہے۔
چین، پاکستان میں سی پیک کے تحت بین الاقوامی معیارکی سڑکیں تعمیرکر رہا ہے۔گوادرکی بندرگاہ چین کی مدد سے تعمیر ہوئی ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری کا نظام برما اورکئی اور افریقی ممالک میں قائم کیا ہے۔ چین بحرئہ ہند کی بندرگاہوں کو جدید طور پر ترقی دینے کے ایک منصوبے پرکام کر رہا ہے۔ سری لنکا، سنگاپور اورکئی افریقی ممالک کی بندرگاہوں کو جدید خطوط پر تعمیرکیا۔
چین میں اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے مگر نچلی سطح کے اختیارات کا بلدیاتی نظام بھی قائم ہے۔ چیئرمین ماؤ کے فلسفہ پر عمل کرکے چین ستر سال میں دنیا کی سب سے بڑی قوت بن گیا ہے۔ معاشی مبصرین کہتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوگا۔