آج جو بوئے گا
بھاگ دوڑ اور افراتفری کا عالم ہے، اس منزل کو پانے کی جستجو جو ان کی نہیں ہے۔
وقت کی قدر اور اسے مثبت کاموں میں استعمال کرنیوالے لوگ بہت کم ہیں، ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو وقتی مفادکو مدنظر رکھتے ہیں اورکل سے بے خبر ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ موت جو اٹل حقیقت ہے اسے یکسر فراموش کردیتے ہیں، سیاست ہو یا ریاست، امراء ہوں یا غربا سب کا ایک ہی حال ہے۔
بھاگ دوڑ اور افراتفری کا عالم ہے، اس منزل کو پانے کی جستجو جو ان کی نہیں ہے۔ اتفاق سے انھیں وہ مقام بھی میسر نہیں آتا، جس کی وہ طلب کرتے ہیں اور پھر اسی تگ و دو میں دوران سفر ہی کسی اچانک ہونیوالے حادثے کی بنا پر ابدی زندگی کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ آج ہم زندہ سلامت ہیں، سب کچھ ہمارے اختیار میں ہے، ہم نیکیاں کرسکتے ہیں، دوسروں کو معاف کرسکتے ہیں، ملک کی تعمیر واستحکام میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن غافل ہیں اور جو لوگ ملک کو عزت ووقار بخشنا چاہتے ہیں، اپنے اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کی خوشنودی کی خاطر، غور کریں یہ ملک بھی اللہ کا بخشا ہوا تحفہ ہے، اس کے حصول کے لیے ایثارو قربانی کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن گئیں جسے کبھی نہیں بھلایا جاسکتا اور آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان کو سابقہ حکمرانوں نے اپنے عمل سے اپنی جاگیر سمجھا اور اس سے فائدے ہی فائدے اٹھائے، عوام کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا، قتل و غارت، اغوا وڈکیتی کی وارداتوں نے ایک ادارے کی شکل اختیارکر لی، وہ ادارہ جو پولیس ڈپارٹمنٹ اور قانون کے رکھوالوں کے بھرپور تعاون سے وجود میں آیا یہ دونوں ادارے مجرم کی بھرپور طریقے سے معاونت کرتے ہیں، جیلوں میں محض رشوت کی وجہ سے قاتلوں کو تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور قانون کے رکھوالے بہت آسانی کے ساتھ ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیتے ہیں جب کہ ان کے برعکس بے گناہ شہریوں کو سر راہ ایک معمولی سی بات پر گولی مار دی جاتی ہے۔
ایسے معاشرے میں کسی سے اچھی امید رکھنا عبث ہے، حکومتی ارکان کی اپنے فرائض سے چشم پوشی اور دولت کی ہوس نے دوسرے اداروں کو بھی مکمل چھوٹ دی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے آج عوام لاتعداد مصائب کا شکار ہیں، گیس بجلی اور پانی کے مسائل نے انھیں جیتے جی مار دیا ہے ساتھ میں عدم تحفظ کا احساس زندگی کے سفر میں شامل ہے۔
بیماریاں جس تیزی سے پھیل رہی ہیں، اتنی ہی برق رفتاری سے دوائیں غائب ہوتی جا رہی ہیں، گٹکا اور مین پوری جیسی غلاظت کے خاتمے کے لیے چھاپے تو پڑتے ہیں لیکن اسی طرح جس طرح سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ہٹائی جاتی ہیں اور شب برات کے مواقعوں پر آتش بازی کی پابندی کے باوجود اس کا ذخیرہ سامنے آجاتا ہے اور ہر گلی، ہر محلے میں اس کا مظاہرہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ راہ گیروں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے کبھی آسمان پر بلند ہوتا ہوا شعلہ زمین پر آتے آتے کئی لوگوں کو زخمی کر جاتا ہے تو کبھی جھونپڑیوں میں آگ لگنے کا سبب بن جاتا ہے۔
گزرے برسوں میں پنجاب میں پتنگ کی ڈور سے آئے دن ہلاکتیں ہوا کرتی تھیں اور اب یہ وبا کراچی میں بھی آگئی ہے، ہر دو چار دن یا ہفتوں بعد کوئی معصوم بچہ یا نوجوان حادثے کی زد میں آجاتا ہے اور پتنگ کی ڈور اس کی شہ رگ کو کاٹنے میں قاتل کا کردار ادا کرتی ہے اور پھر قانون حرکت میں آجاتا ہے، زندگی کو موت میں بدلنے والی اشیا پر پابندی لگائی جاتی ہے، پکڑ دھکڑ بھی ہوتی ہے، جرمانہ وصول کیا جاتا ہے لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد سب کچھ ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ چونکہ غریبوں سے بھتہ اور رشوت پولیس اہلکاروں کی روزی، روٹی کا ذریعہ ہے ساتھ میں زندگی عیش سے گزر جائے توکیا برا ہے؟
لیکن اس گھناؤنے کھیل نے غربا کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ وہ بے چارے سڑکوں پر رُل رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی کے لیے در بدر ہیں، غربت بے شمار برائیوں کو جنم دیتی ہے اور جہالت مسلمان کو کفر کے قریب کردیتی ہے انسانیت اور شرافت سے رشتہ توڑ دیتی ہے، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ایسے ہولناک اور عبرتناک واقعات سامنے آتے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر یا سن کر دل و جاں کے علاوہ روح بھی کانپ جاتی ہے۔
مہنگائی کا طوفان ہر حکومت میں عروج پر ہوتا ہے۔ افلاس زدہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن انھیں دوسری حکومت مزید مفلس بنا دیتی ہے، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں چینی 27 روپے اور چاول 30 روپے کلو آسانی سے مل جاتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد رہی سہی کسر دس سالوں میں پوری کردی گئی پیپلز پارٹی کا زمانہ بھی سیاہ دور کہلاتا ہے، خوب جرائم پنپے اور غربت نے ہر روز موت کے رقص کو سربازار دکھایا، صحرائے تھر میں ہر دن بچوں کی اموات اور اس کے ساتھ ہی گندم کی ذخیرہ اندوزی نے بھوکے شکم کو بے شمار بیماریوں میں مبتلا کردیا اور انجام موت تھا۔
یہ بات سب کے ذہن میں تازہ ہوگی کہ جب صوبہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ تھرکا دورہ کرتے ہیں تو اپنے اور اپنے نو رتنوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بنواتے زردہ اور بریانی کی دیگیں دم پر لگی ہوتیں ، اور لذیذ پکوان کی خوشبو تھرکے بھوکے پیاسے باسیوں تک پہنچتی کیا گزرتی ہوگی ، ان پر اور مدد کے طور پر ایک واحد سوکا نوٹ وزیر اعلیٰ احسان کے طور پر کسی غریب کو دیتے، یہ مناظر ٹی وی پر دکھائے جاتے تھے، تو صاحب ضمیر چند لمحوں کے لیے اس دکھ کے احساس سے کٹ کر مر جاتا تھا۔ ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی کے نعرے لگائے گئے جناب حکومت آگئی، یہ (ن) لیگ کی حکومت تھی اس میں بھی وہی ہوا کہ رعایا نے الامان الحفیظ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ ایک ایک علاقے سے دس، پندرہ معصوم بچیاں اغوا اور قتل ہوئیں۔ زینب کا قتل بھی اسی دور کی یادگار ہے۔
معیشت بیٹھ گئی، دولت پیسہ دوسرے ملکوں میں جمع ہوگیا۔ مقدمہ چلا، جرم ثابت ہوا۔ لیکن کہتے ہیں کہ ہمارا قصورکیا ہے؟ بہرحال نیا پاکستان بن گیا، تبدیلی آگئی بے شک تبدیلی آئی کم ازکم دیار غیر میں سیاستدانوں، وزیروں اور مشیروں کی جامہ تلاشی سے محفوظ رکھا گیا، ورنہ پچھلے دور میں تو دوسرے ممالک کے حکمران ہاتھ ملاتے وقت اپنے ہاتھ کی انگوٹھی پر نظر دوڑاتے تھے کہ اتار تو نہیں لی ، روشن پاکستان کے چہرے پر سیاہی ملنے کے لیے دن رات منفی سوچ کے گھوڑے دوڑائے جانے لگے، لیکن حکومت بدلتے ہی خارجہ پالیسی نے ایک نیا رخ اختیارکیا، وزیر اعظم پاکستان کو بحران سے نکالنے اور خالی خزانے میں بحیثیت مسلم حکمران اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کام شروع ہوگیا، ہمارا ہمسایہ ملک چین بھی پیش پیش رہا، آئی ایم ایف کے قرضے سے جان چھڑانے کے لیے آج تک کوششیں کی جا رہی ہیں، بے شک مہنگائی بہت بڑھی ہے اس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
ان حالات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر مودی حکومت نے ظلم کی انتہا کردی کرفیو ختم کرنے کی بجائے اس کی مدت میں اضافہ ہو رہا ہے، حالات کی سنگینی اور پاکستان کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کو ساتھ دینا چاہیے تھا، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، اس وقت ہمارے مسلمان بھائی مشکلات کا شکار ہیں، روز شہادتیں ہو رہی ہیں ،کشمیری خواتین کی عزت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ وہ مدد کے لیے آواز دے رہے ہیں لیکن ہمارے اپنے لوگ حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ لیکن کس لیے؟ صرف اور صرف کرسی ہی عزیز ہے۔
اقتدار سے محبت ہے، ذرا سوچیے اس وقت پچاس، ساٹھ سال کی عمروں والے قبر کے دہانے پر کھڑے ہیں اور ایک صدی بعد آج کے تمام لوگ قبروں میں ہوں گے گوشت پوست ہڈیاں تک ختم ہوجائیں گی اور ہماری جائیدادیں، روپے، پیسوں پر دوسروں کا اختیار ہوگا۔ اور ہماری کارگزاری کی سزا اور جزا ہمارے سامنے ہوگی، جسے ہم بھگت رہے ہوں گے۔ قاتل کی بخشش نہیں، ذخیرہ اندوزوں اور بددیانتوں بدکاروں کے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا، چونکہ آج کا بویا ہوا کل ضرورکاٹنا ہوگا۔ یہ قانون فطرت ہے۔