’’ لندن واپسی ‘‘
ساجد خان نے کچھ اوردوستوں کوبھی اطلاع کردی تھی سوتھوڑی ہی دیر میں سارا ’’الخیمہ‘‘ گھرکے ڈرائنگ روم کی شکل اختیارکرگیا۔
نیلسن کے مشاعرے کے ساتھ ہی ہمارے دونوں نوجوان ساتھی واپسی کے سفر کی تیاری کرنے لگے کہ عمران پرتاب گڑھی کو صبح دس بجے لندن سے دہلی اور عزیزی رحمن فارس کو مانچسٹر سے دوپہر تین بجے لاہور کے لیے پرواز پکڑنا تھی۔ طے پایا کہ سہیل ضرار اور سعید مشاعرے کے فوراً بعد روانہ ہو جائیں کہ اُن کا سفر لمبا تھا۔
عمران انور مجھ سے ملے بغیر چلا گیا تو کچھ عجیب سا لگا کہ یہ نوجوان بہت محبتی اور اچھے اخلاق کا حامل تھا مگر ائیر پورٹ سے کیے جانے والے اُس کے فون نے نہ صرف سارا معاملہ اور اُلجھن درست اور صاف کر دی بلکہ تھوڑا سا جذباتی بھی کر دیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ان چند دنوں میں اُسے جتنی محبت اور قریب کا احساس ہوا ہے وہ اتنا شدید تھا کہ وہ اپنے اندر الوداعی ملاقات کی ہمت نہیں پیدا کر سکا کہ شائد وہ اپنے آنسوئوں پر قابو نہ پا سکتا۔
برادرم امجد شاہ کا اصرار تھا کہ ہم رحمن فارس کو اُس کے گھر اولڈ ہیم پہنچا دیں وہ اُسے نہ صرف ائیر پورٹ پر ڈراپ کر دے گا بلکہ دوبارہ ملاقات کی صورت بھی نکل آئے گی سو ایسا ہی کیا گیا۔ لندن تک کا سفر خاصا طویل تھا جسے راستہ بھر میں ہونے والی مسلسل بارش نے مزید طویل کر دیا سو طے پایا کہ ہم اپنے ہوٹل جانے کے بجائے پہلے ساجد خان کے ''الخیمہ '' پر رکیں اور وہاں سے کھانا کھا کر اور دوستوں سے مل کر ہوٹل میں چیک ان کریں۔
اتفاق سے یہ ہوٹل بھی I6is ہی کی چین کا حصہ تھا مگر اس کی ہر چیز برمنگھم والے I6is سے بہتر تھی البتہ یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ ہوٹل کی پارکنگ کا ٹھیکہ کسی پرائیوٹ کمپنی کے پاس تھا اور وہاں سواری کو اتارنے کے لیے صرف پندرہ منٹ کی پارکنگ فری تھی اس کے بعد ہر گاڑی پر پانچ پونڈ پارکنگ فیس عائد ہو جاتی تھی۔
1989 میں لندن کے پہلے سفر کے دوران مرحوم جسٹس صمدانی صاحب نے مجھے اور پروین شاکر کو ایک نصیحت کی تھی کہ غیر ممالک بالخصوص پہلی دنیا کے ممالک میں کبھی بھی مقامی کرنسی کو اپنی کرنسی میں تبدیل کر کے دیکھنے کی کوشش نہ کرنا کہ اس سے سوائے فرسٹریشن اور پریشانی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ برسبیل تذکرہ یہ عرض کرتا ہوں کہ اُس وقت پاکستانی روپے کے مقابلے میں برطانوی پونڈ 44 روپے کا تھا اور اب 200 سے بھی کچھ اوپر ہے ۔
''الخیمہ'' کے مالک ساجد خان اور وہاں کے دیگر احباب سید انور سعید شاہ ، سہیل سلامت اور عزیزہ اسما کا مختصر تعارف میں پہلے بھی کر چکا ہوں لیکن اس بار سات دن ایک ساتھ گزارنے اور بار بار ملاقاتوں کے باعث ان سب کے بارے میں کچھ ایسی نئی باتیں معلوم ہوئیں جن کے باعث ان عزیزوں سے محبت کا رشتہ مزید گہرا ہو گیا کہ یہ سب کے سب محنتی ، محبتی، سیلف میڈ اور پیارے لوگ ہیں ۔ مشتے از خروارے کے طور پر بیان کرتا چلوں کہ ساجد خان بیس برس کی عمر میں صرف دو سو پائونڈ نامکمل تعلیم اور خطاطی کی گزارے لائق استعداد کے ساتھ اس ملک میں آیا تھا اور آج وہ اپنی مسلسل محنت اور انتظامی قابلیت کی وجہ سے پانچ سے زیادہ معقول منافع بخش کاروباروں کا واحد مالک ہے۔
رب کریم نے اُسے ایک بڑا دل عطا کیا ہے اور وہ اُن منتخب لوگوں میں سے ہے جو دوسروں کی خدمت کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اسی طرح سید انور سعید شاہ جو اپنے غصے اور خوش پوشی کے باعث زیادہ مشہور ہیں (اُن کی ایک ویڈیو بہت عرصے تک وائرل رہی ہے جس میں انھوں نے الطاف حسین کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر اس کی پاکستان دشمنی پر شدید تنقید کی تھی) بہت باکمال اور پرخلوص انسان ہیں۔ انھوں نے 47 برس قبل وہیں کی ایک گوری خاتون سے شادی کی تھی جو آج تک بحسن و خوبی قائم ہے ۔
ساجد خان نے کچھ اور دوستوں کو بھی اطلاع کر دی تھی سو تھوڑی ہی دیر میں سارا ''الخیمہ'' گھر کے ڈرائنگ روم کی شکل اختیار کر گیا۔ عزیزی راشد عدیل ہاشمی بھی جو فیشن ڈیزائننگ اور ا سکی تدریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن سے اپنی غیر مشروط محبت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے، پہنچ گیا جس نے ہمارے قیام کے اگلے ساتوں دن ہمارے لیے مخصوص کر رکھے تھے سو اس کی محبت کا ''تائید تازہ'' کے کھانے کے لطف کو دوبالا کر دیا۔
سہیل ضرار نے اسلام ٹی وی کے لیے ''بزم سخن'' کے تحت ہم چاروں کے ساتھ برمنگھم روانگی سے قبل ایک بہت خوبصورت مشاعرہ ریکارڈ کیا تھا جس کے سامعین میں ڈاکٹر عقیل دانش ، دردانہ انصاری، بھارت سے آئے ہوئے عزیز دوست اور فلم رائٹر جاوید صدیقی کے ساتھ ساتھ برادرم عابد علی بیگ بھی شامل تھے جن سے پہلی ملاقات چند برس قبل ہانگ کانگ ریڈیو پر ہوئی تھی اور جو اب مستقل طور پر لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ اُن سے وعدہ ہوا تھا کہ ہم دونوں 16 اکتوبر کو اسلام ٹی وی میں ہی اُن کے ساتھ ایک مکالمہ ریکاڑد کروائیں گے جس میں صرف ''سفر'' کے حوالے سے باتیں ہوں گی۔
یہ محفل خوب جمی اور اس کی معرفت میں نے اور انور مسعود نے گزشتہ تقریباً نصف صدی پر پھیلے ہوئے بے شمار اسفار اور اُن کی یادوں کو پھر سے تازہ کیا۔ اگلی شام ڈاکٹر جاوید شیخ کے نام تھی جو گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہر دورے کے دوران اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہاں کرکٹر آصف اقبال اور شاعرہ ریحانہ رومی، دردانہ انصاری اور نجمہ عثمان سے بھی ملاقات رہی عزیزی منان قدیر خان کو بھی کئی برس بعد دیکھا اور مل کرخوشی ہوئی۔ فاطمہ بیٹی ، حسینہ بھابھی عزیزی یاسر عرفات اور اُس کے ابو سے بھی گپ شپ رہی کہ لندن میں یہ گھر بالکل اپنے گھر جیسا معلوم ہوتا ہے ۔
دو برس قبل تب کے پاکستانی ہائی کمشنر ابنِ عباس نے میرے اور انور مسعود کے لیے ایک خصوصی استقبالیے اور محفل کا انعقاد کیا تھا اس بار بھی اس خوبصورت رسم کو برادرم نفیس زکریا نے تسلسل دیا۔ سفارت خانے کے کونسلر منیر صاحب نے اُن کا پیغام پہنچایا اور باہمی مشورے سے 18اکتوبر کی شام کا وقت طے ہو گیا۔ نفیس زکریا صاحب سے پہلی ملاقا ت چند برس قبل ٹورانٹو، کینیڈا میںہوئی تھی جہاں وہ اس وقت پاکستانی قونصل جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے اس کے بعد برادرم اعزاز چوہدری کی سیکریٹری خارجہ شپ کے دنوں میں اُن سے اسلام آباد میں بھی دعا سلام ہوتی رہی اُن کے دفتر میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جب ہم جلسہ گاہ میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی بے شمار دوستوں کے ساتھ عزیزہ جعفرہ امام سے بھی ملاقات ہوئی جو کئی دنوں سے رابطے میں تھی اور دستخطوں کے لیے میری کچھ کتابیں بھی ساتھ لائی تھی ۔ نفیس زکریا صاحب کی خوبصورت ابتدائی گفتگو کے بعد ہم د ونوں سے جی بھی کر شاعری سنی گئی جس کا لطف دوطرفہ تھا کہ ایسے اچھے سامعین اتنی بڑی تعداد میں کم کم ہی ملتے ہیں۔
ہوٹل میں صرف ایک ناشتہ کرنے کا موقع ملا کہ روزانہ وہاں کے احباب کہیں نہ کہیں ناشتہ کرانے کے لیے لے جاتے تھے جن میں سے ایک ناشتہ راشد ہاشمی کے گھر پر بھی ہوا مگر اُس عزیزکا اصرار تھا کہ وہ ہمارے اعزاز میں ایک ڈنر بھی کرنا چاہتا ہے جس میں اُس کے قریبی دوست شامل ہوسکیں یہ محفل بھی ''الخیمہ'' ہی میں ہوئی اور بہت بھرپور رہی اور یہاں بھی دردانہ انصاری نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ یہ تومیں بتانا بھول ہی گیا کہ سفارت خانے والے استقبالیے میں بھی انھوں نے میری نظم ''ذرا سی بات'' کو اپنے خوبصورت لحن سے سرفراز کیا تھا۔
لندن میں ہمارے قیام کے آخری دن اور ہمیں ائیر پورٹ تک پہنچانے کا ذمے برادرم راجہ قیوم نے ابتداء میں ہی لیا تھا سو وہ اور برادرم ضیاء الرحمن ساجد خان کے گورے ناشتہ آئوٹ لیٹ پر نہ صرف آن ملے بلکہ ہماری روانگی تک قدم قدم ہمارے ساتھ رہے۔ الوداعی ناشتے کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ عزیزی عمران پرتاب گڑھی نے ایسے ہی ایک لمحے سے کیوں گریز گیا تھا۔