کوئی پیش رفت نہیں
میاں نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہو چکے۔ یہ اعزاز اس سے پہلے ہماری سیاسی تاریخ میں کسی کو...
میاں نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہو چکے۔ یہ اعزاز اس سے پہلے ہماری سیاسی تاریخ میں کسی کو نہیں ملا۔ اقتدار میں آنے سے قبل انھیں شاید یقین ہرگز نہ تھا کہ وہ اس بھاری مینڈیٹ سے ملک کا الیکشن جیت سکتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے انھیں اس نادیدہ خوف میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اگر وہ جیت بھی گئے تو انھیں ایک مکمل آزاد اور بااختیار حکومت نہیں مل پائے گی۔ انھیں شاید اقتدار پر براجمان ہونے اور اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے لیے دیگر چھوٹے سیاسی گروپس اور جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا مگر وہ اس مشکل صورتحال سے باآسانی بچ نکلے اور بغیر کسی بلیک میلنگ کا شکار ہوئے اپنی ایک مکمل خودمختار حکومت تشکیل دے دی۔ مسائل کی بے تحاشا وسعت اور گمبھیری نے انھیں اپنے تیسرے اقتدار کے مزے لوٹنے اور جشن منانے کا بھی موقع نہیں دیا اور وہ پہلے دن سے اپنی ہی خواہشوں اور کوششوں سے لائی ہوئی ناگہانی مصیبت اور آفت کے شکنجے میں کسے جا چکے ہیں۔
معاشی طور پر تباہ حال اور غیر ملکی قرضوں میں دبا ہوا ملک جس کے عوام سابقہ حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی کی بدولت انتہائی شکستہ حال زندگی گزار رہے تھے اسے فوری طور پر مشکلات سے نکال باہر کرنا کوئی آسان کا م نہیں تھا۔ ملک کے اندر ایک طرف عرصہ دراز سے جاری دہشت گردی، مہنگائی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے ستائے ہوئے مظلوم عوام اور بڑے بڑے اداروں کی مالی خستہ حالی قطعی طور پر فوری حل ہونے والے مسائل نہیں ہیں۔ انھیں درست ہونے میں لازمی طور پر مخصوص وقت درکار ہے۔ لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر اگر معاملات کو درست کرنے کی کوئی تجویز تلاش کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مسائل کا بوجھ صرف عوام کے کاندھوں پر منتقل کر کے کوئی قابلیت اور ہنرمندی ثابت نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو سب سے آسان طریقہ ہوتا ہے کہ سارا اضافی بوجھ اپنے ہی مجبور اور لاغر لوگوں پر ڈال دیا جائے جن میں پہلے ہی کوئی ہمت اور سکت باقی نہیں رہی تھی۔
میاں صاحب کے اقتدار کے ان ابتدائی دنوں میں سہولت اور ریلیف ملنے کے بجائے ہمارے لوگوں کو مزید مصائب اور مشکلات ہی کا سامنا ہوا ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عوام کی جس غریبی اور خستہ حالی کا رونا وہ سابقہ حکمرانوں کے دور میں روزانہ کیا کرتے تھے کہ اب ان مظلوم لوگوں میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی کوئی سکت باقی نہیں رہی ہے اور جن کی حالت زار پر ان کا دل صبح و شام آہ و زاری کیا کر تا تھا آج انھی عوام کے جسم سے وہ خود لہو کا آخری قطرہ بھی نکال لینے پر کاربند اور کمربستہ ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا فوری اور آسان حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بجلی اتنی مہنگی کر دی جائے کہ عوام اسے استعمال ہی نہ کر پائیں۔ چند ماہ میں بجلی کے نرخ تقریباً دگنے کر دینے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دے کر نجانے کون سی عوامی خدمت کی گئی ہے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اگرچہ اس نامناسب اضافے کا فوری نوٹس تو لیا تھا مگر صرف دس دنوں میں ایک دوسرے نوٹیفکیشن کے ذریعے اسے پھر سے لاگو کر دیا گیا۔ یعنی کرنا وہی ہے جس کی ٹھان لی ہے۔ اپنے لوگوں پر اتنا بڑا بوجھ ڈالتے ہوئے انھیں ذرا بھی ملال اور افسوس نہیں ہوا۔ الیکشن کے دنوں میں عوام الناس کا غم اور درد بھرنے والوں کو اتنی جلدی نظریں پھیرتے اور طوطا چشمی کرتے شاید ہی پہلے کبھی کسی نے دیکھا ہو۔ ان چار ماہ میں عوام کی مالی مشکلات تو کیا دور ہوتیں اگر جوں کی توں ہی باقی رہتی تو شاید حکمرانوں کا یہ ہم پر ایک احسان ہوتا۔ لوگوں کو ان کے مصائب سے ریلیف دینے کے بجائے انھیں مزید ابتلا میں مبتلا کر دینے کا یہ عمل اگر اسی تیز رفتاری سے جاری رہا تو یقیناً جلد ہی ان کی چیخیں نکل جائیں گی۔ ہمارے طالب علموں کو ایسے لیپ ٹاپ اور اسکوٹر یا موٹر سائیکلیں ہرگز نہیں چاہئیں جن کے عوض اس ملک کے غریبوں سے ان کے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے۔
میاں نواز شریف کو اپنی حکومت کی اس اعلیٰ کارکردگی پر نظر ثانی کرتے ہوئے کچھ عوام کے دکھوں کا مداوا بھی کرنا ہو گا۔ اقتصاد اور معاش کے جن ماہرین پر انھیں بڑا فخر اور ناز ہے انھوں نے صرف چند ماہ میں زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالرز سے 8 ارب ڈالرز کی سطح تک لانے کا سنہری کارنامہ بھی سرانجام دے دیا ہے۔ گردشی قرضوں کی جس فوری ادائیگی کا سہرا وہ اپنے سر لیتے ہیں وہ پھر سے یکجا ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ وطن عزیز معاشی طور پر مسلسل انحطاط پذیری کی جانب دھکیلا جا رہا ہے اور اسحاق ڈار کی وضع کردہ طلسماتی اسکیمیں کامیابی کا کوئی سحر ہنوز قائم نہیںکر پائی ہیں بلکہ سابقہ دور کی طرح ناکامیوں سے دوچار دکھائی دیتی ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کا اگر فوری سدباب نہیں کیا گیا تو جس ممکنہ دیوالیہ پن کو گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کے نئے قرضوں کے ذریعے بچایا گیا تھا وہ بہت جلد حقیقی روپ دھار کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گا اور پھر ہمیں بچانے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔
بڑے بڑے مسائل میں ہمیں دہشت گردی کے علاوہ جن دیگر مسائل کا سامنا ہے ان پر بھی حکومت کی پالیسیاں ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ برادر ملک ایران سے گیس لائن کا معاہدہ کن مصلحتوں اور مجبوریوں کا شکار ہے وہ حکومت اپنے عوام کو بتانے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ بلوچستان اور شہر کراچی کا امن ابھی تک بحال نہیں ہو سکا ہے۔ مجرموں کو گرفتار کرنے والے پولیس افسروں کا قتل کیا جانا وہاں کے دہشت گردوں کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ شہر میں جاری آپریشن کو ڈیڑھ ماہ ہو چکا ہے، ہزاروں دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں لیکن نقص امن اور ڈکیتیوں کا سلسلہ جوں کا توں باقی ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جانے والے ہزاروں افراد کو عدالتی کارروائی کے ذریعے سزا دلانے کا عمل کب شروع ہو گا کسی کو معلوم نہیں۔
ان کے نام اور ان کی سیاسی وابستگیاں بھی ظاہر کرنے میں اجتناب اور ہچکچاہٹ پائیدار امن کی قیام کی توقعات اور امیدوں پر پانی پھیر دینے کی مترادف ہے۔ ملک کے عوام نے جس تبدیلی اور خوشحالی کے لیے 11 مئی 2013 کو اپنا حقِ خود ارادی استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو عنان اقتدار سونپا تھا فی الحال دور دور تک اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ ابھی تو اپنے ہی عوام سے نئے الیکشنوں کا خراج وصول کیا جا رہا ہے۔ سابقہ دور میں ملکی دولت لوٹ کر بڑے بڑے اکاؤنٹس بنانے اور جائیدادیں اکھٹی کرنے والوں کو چھوا بھی نہیں گیا، بس صرف مظلوم عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے بھی عوام ادا کریں اور ان کی بھاری شرائط بھی وہی برداشت کریں۔ اور قوم کر لوٹ کر اس حال میں پہنچانے والے خاموشی سے دبئی نکل جائیں۔ یہ ہے اس جمہوریت کا شاخسانہ جس کے لیے ہمارے عوام پاگل ہوئے جاتے ہیں۔