جدید ترقی کے ہولناک نتائج
جدید ترقی کی سب سے بڑی قیمت اس کائنات کے ماحول کی تباہی کی صورت میں نظر آتی ہے۔
راقم نے اپنے کالم '' ترقی اور نظریات کا تعلق'' میں اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ مغرب نے کس قسم کے غیر مذہبی نظریات کی بدولت ترقی کا موجودہ مقام پایا ہے اور اس سے قبل دنیا کی تمام تہذیبیں (بشمول اسلام) یہ ترقی اور مقام کیوں نہ حاصل کرسکیں ۔
ایک قاری نے ہم سے سوال کیا کہ جب مذہب کو چھوڑ کر مغرب نے ترقی کی تو مذہب کو خیر باد کہنا یا دوسرا درجہ دینا بھی درست ہوگا،کیونکہ ترقی سے تو دنیا کو بہت ہی زیادہ فائدہ پہنچا ہے، اس سوال کے جواب میں آج کے کالم میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ مغرب نے جو ترقی اور مقام حاصل کر لیا ہے آج کے انسان کو اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔
جدید ترقی کی سب سے بڑی قیمت اس کائنات کے ماحول کی تباہی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی سی نے ''کلائمنٹ چینج 2014ء، کے نام سے 32 جلدوں پر مشتمل رپورٹ میں بتایا کہ جدید صنعتی وسائنسی ترقی سے پیدا ہونے والی حرارت پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا کا کوئی شخص موسم کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، خوراک کی قیمتیں بڑھیں گی، فاقہ کشی بڑھے گی، فصلیں کم ہوں گی، مکئی، چاول اورگندم کی فصل بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گی، سیلاب اور سمندری طوفان آئیں گے۔
ساحلی شہرتباہ ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق آلودگی سے ہر سال ستر ہزار لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔ یہ رپورٹ دنیا کے مختلف ممالک کے پانچ سو محققین نے تیارکی تھی جن کی یہ پیش گوئی آج بھی درست ثابت ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ 80ء کی دہائی میں سائنس دان یہ بات معلوم کر چکے تھے فریج، ایئرکنڈیشنڈ اور صنعتوں وغیرہ کے چلنے سے کاربن اورگرین گیسز خارج ہوتی ہے جس سے ' اوزون' کی سطح کو نقصان پہنچ رہا ہے اور زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یورپ میں 2003ء میں درجہ حرارت بڑھا تو 70 ہزار لوگ ہلاک ہوئے، روس میں 2010ء میں گرمی سے 50 ہزار لوگ ہلاک ہوگئے۔
تاحال گرمی کی شدت میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکی نائب صدر الگور نے اپنی کتاب An Inconvention Truth میں لکھا ہے کہ امریکا میں سن 2000ء کے انتخابات میں' گلوبل وارمنگ' کا مسئلہ انتخابی مہم کا نمایاں ترین مسئلہ بن گیا تھا، بش نے بھی اس مسئلے کو اہمیت دی تھی مگر فتح حاصل کرنے کے بعد صدر بش نے یو ٹرن لے لیا اورکہا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، جب لوگوں نے ماحولیاتی آلودگی پر شور مچایا تو صدر بش نے کہا کہ یہ معیشت کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ سائنس کا علم غیر قطعی ہے لہذا اس کے پیش کردہ حقائق پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔
اس نے مزید لکھا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں میں امریکا کا 30 فیصد سے زائد حصہ ہے جب کہ یورپ کا 27، روس کا 13 فیصد سے زائد حصہ ہے۔گویا ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں ان سائنسی ایجادات کا استعمال ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی مزید ترقی اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے جو مشینری دن رات چل رہی ہے یعنی فریج ، اے سی ، گاڑیاں اور صنعتیں وغیرہ وہ ماحول کو آلودہ اورگرم کر رہی ہیں اور ترقی کا یہ کام جن ممالک میں زیادہ ہو رہا ہے وہیں سے آلودگی بھی زیادہ بڑھ رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں امریکا، یورپ، روس اور چین جیسے ممالک آج سرفہرست ہیں۔
ایک حالیہ خبرکے مطابق 1999ء کے بعد سے دنیا میں سبزہ ، ہریالی کی مقدار 59 فیصدکم ہوئی ہے، ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 17 ملکوں میں پانی کا بدترین قحط ہے جس میں بھارت بھی شامل ہے۔ دنیا کا 98 فیصد علاقہ آلودہ ہوچکا ہے، صاف ہوا اور پانی بھی میسر نہیں۔
جدید ترقی کے لیے جوکچھ کیا جاتا ہے، اس سے قدرتی حیاتیات اور ماحول کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ عالمی بینک کے ایک سابق صدر ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی کیونکہ پانی جنگلات کے باعث میسر ہے اور جدید ترقی کے لیے جنگلات کاٹ کر تیزی سے ختم کیے جا رہے ہیں۔ ایمیزون کے جنگلات ختم کرنے سے بارشیں دس فیصد کم ہوچکی ہیں۔
ایروین اپنی کتاب '' ٹرن نیچر ان ٹو ڈالر'' میں لکھتا ہے کہ فطرت کو تباہ کرنا مارکیٹ پر مبنی معیشت ہے، یعنی مارکیٹ چیزوں کو پیسے کی بنیاد پر قابل قدر بناتی ہے مثلاً درخت کی کوئی قدر نہیں مگر اس کوکاٹ کر فرنیچر بنا کر معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے، یہی آج ہر جگہ ہو رہا ہے ہرکوئی ترقی کے لیے فطرت کو برائے فروخت بناکر ماحول اور کائنات کو تبا ہ کر رہا ہے۔ ایک مغربی مصنف اس قسم کی کھپت یا عمل کو پاگل پن قراردیتا ہے کیونکہ یہ زندگی کو پرآسائش تو بنا دیتی ہے مگر ہماری دنیا کو جہنم کی جانب دھکیل دیتی ہے۔
آج جدید دنیا میں آنے والا ایک بچہ بھی اس جہنم کا سامنا کرتا ہے۔ مثلاً آج بچے کو پلاسٹک کے بنے ہوئے فیڈر میں گرم دودھ فراہم کیا جاتا ہے ، جب کہ تحقیق یہ کہتی ہے کہ پلاسٹک کو سخت کرنے کے لیے ''بی پی اے'' نامی کیمیکل استعمال کیاجاتا ہے جوکینسر اور ہارٹ اٹیک کی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔
آج سفر میں بھی اور گھروں میں بھی پلاسٹک کی بنی ہوئی اشیاء بکثرت استعمال ہو رہی ہیں۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی کو آج ہم خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ پوپ فرانسس نے کچھ برس قبل انٹر نیٹ کو خدائی تحفہ قرار دیا تھا مگر سروے بتاتا ہے کہ 97 فیصد طلبہ فحش مواد کے لیے استعمال کرتے ہیں، برطانیہ میں ایک سال میں 90کروڑ سے زائدکا ریونیو فحش سائٹس سے حاصل کیا جا تا ہے، انٹر نیٹ کے بڑے بڑے سرور اور ڈیٹا سینٹر جو توانائی استعمال کرتے ہیں، اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک برطانوی جریدہ کے مطابق گوگل پر صرف دو لفظ تلاش کرنے سے اس قدرکاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوتی ہے جس قدر ایک کیتلی چائے تیارکرنے میں ہوتی ہے، ایک گھنٹہ لیب ٹاپ استعمال کرنے سے بارہ گرام کاربن پیدا ہوتی ہے، ایک ای میل کریں تو پچاس گرام کاربن پیدا ہوتی ہے۔ اس صدی کا ایک بڑا فلسفی اسٹیفن ہاکنگ پیش گوئی کرتا ہے کہ یہ دنیا زیادہ سے زیادہ ایک ہزار برس رہے گی پھر فنا ہوجائے گی اوراس کا سبب سائنس اوراس کی ترقی ہے، لہذا زندگی کے لیے کوئی دوسرا سیارہ تلاش کریں۔
فرانسیسی مفکر ژی ژیک کہتا ہے کہ جدیدیت ہمیشہ دوسرے سوال کا جواب تلاش کرتی ہے ، پہلے سوال کا نہیں، اس ساری بحث کے بعد دوسرا سوال تو یہ ہے کہ ہم اپنی کائنات کوکیسے محفوظ بنائیں مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ کائنات اس مقام پرکیوں پہنچی اور کس نے یہاں تک پہنچایا؟ بس پہلے سوال کا جواب ہے ان نظریات نے جن کی بدولت یہ ترقی معرض وجود میں آئی۔