سانپ سے وابستہ دہشت اور خوف کی حقیقت کیا ہے

اِن دانتوں میں ُچھپی دو بوندیں انسان کی زندگی کی ڈور کاٹ دینے کے لیے کافی ہیں


تحریم قاضی November 03, 2019
پاکستان میں سانپوں سے متعلقہ خطرات، اس سے بچنے کی تدابیر اور علاج کے حوالے سے معلوماتی فیچر

سرد رات میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہر سو ہُو کا عالم تھا۔ زمین پر جابجا زرد پتے بکھرے ہوئے تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف دیوہیکل درختوں کے سائے خوفزدہ کرتے تھے۔

اماوس کی رات میں دور کہیں سے گیدڑ کے چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس دوران جو وقفہ آتا وہ گہری جامد خاموشی پر مشتمل ہوتا جس میں سانسوں کی آوازبھی ڈراونی محسوس ہوتی۔ یہ سارا ماحول اس قدر ہیبت ناک تھا کہ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔چند لمحوں پہلے جب اس ویران جنگل میںگاڑی کا ٹائر ایک دم پھٹا تو وہ لمحہ اس پہ بے حد بھاری گزرا۔کار آگے بڑھنے سے انکاری تھی۔

گو کہ اس لمحہ گاڑی سے باہر آکر اسے ٹھیک کرنے کی خواہش جوئے شیر لانے کے مترادف تھی مگر ایسا کرنا ناگزیر تھا ۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر زمین پر پیر رکھا تو سرد رات میں خشک پتوں کی سرسراہت بھی خون خشک کردینے والی تھی۔ شومئی قسمت گاڑی کا ٹائر جواب دے گیا تھا۔ سرد رات میں ہوا کے تندوتیز جھونکوں نے روح ٹھٹھرا کررکھ دی۔

تیزی سے ٹائر بدلتے ہاتھوں میں جیسے خون منجمد ہورہا تھا۔ ٹائر بدل کر جیسے ہی پتھر رستے سے ہٹانے کے لیے ہاتھ نیچے کیا یکدم چھٹی حس نے کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا مگر دیر ہوچکی تھی۔ پتوں کے نیچے چھپے ایک رسل وائپر نے اُسے ڈس لیا تھا۔ اندھیرے میں پتوں اور رسل وائپر کے درمیان تفریق نہ کرنے کا نتیجہ بے حد خطرناک تھا۔ داہنے ہاتھ کی پشت پر دو خون کی بوندیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ وہ خوفناک شکاری نہایت مہارت سے اپنا زہر اس کے جسم میں داخل کرچکا ہے۔ وہ تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بھاگا۔

بے تحاشہ رفتارسے دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی اسے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ مگر وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ درد کی تیز لہر اس کے رگ و پہ میں سراہیت کرتی جارہی تھی۔ اس ویران سنسان علاقے میں فسٹ ایڈ سروس تو درکنار موبائل فون نیٹ ورک بھی کام نہیں کررہا تھا۔ پوری رفتار سے گاڑی بھگاتے ہوئے وہ رفتہ رفتہ اپنی مدہم ہوتی دھڑکن کو محسوس کررہا تھا اور ابھی اس سانحے کو بیتے دس سے پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اسے امید کی ایک کرن دکھائی دی۔دور روشنیاںجگمگا رہی تھیں۔ اس کا ہاتھ سوج گیا تھا اورا سٹیرنگ پر ڈھیلی پڑچکی تھی۔

اسے اپنی سانس کی نالی تنگ ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ لعاب دہن نے حلق سے اترنے سے انکاری تھا۔ خوف اور تکلیف سے اس کی آنکھیں باہر کو پھیل گئی تھیں۔ گاڑی رک چکی تھی۔ وہ لمحہ لمحہ خود کو زندگی سے دور ہوتے دیکھ رہا تھا۔ ابھی تو اسے مزید جینا تھا۔اپنے ڈھلیے پڑتے اعصاب کے ساتھ گاڑی دوڑاتے وہ ہچکولے کھاتی گاڑی لئے آبادی میں داخل ہوگیا۔ خوش قسمتی سے سول ہسپتال مین روڈ پہ تھا۔اس کے سامنے اپنی زندگی کی فلم چل رہی تھی جس میں کہیں کہیںمستقبل کے خواب بھی نمودار ہوتے تھے۔ اس نے گاڑی ہسپتال کی جانب موڑی۔ لیکن گاڑی اندر داخل ہونے کے بجائے گیٹ کے پلر سے جا ٹکرائی۔اس کے بعد اُسے کچھ یاد نہیں جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال کے بیڈ پر پڑا تھا۔

چوکیدار نے عملے کی مدد سے اسے ایمرجنسی تک پہنچایا۔ ڈاکڑ جلد ہی علامات کی مدد سے بھانپ چکا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اسے انیٹی وینم دے دیا گیا جس سے اس کے وجود میں زندگی کی رمق جاگ اُٹھی۔ اس شخص کی طرح کئی لوگ مختلف زہریلے سانپوں کے ڈسنے اور اس کے حوالے سے حفاظتی و احتیاطی تدابیر سے ناآشنائی کی بنا پر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

دنیا بھر میں سانپوں کی 3 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے دو سو انتہائی خطرناک اور زہریلی ہیں۔ دنیا بھر میں سانپ کے ڈسنے سے ہر منٹ میں ایک شخص ہلاک جبکہ چار زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ہر سال 54 لاکھ افراد سانپوں کے ڈسنے سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی شرح پر نگاہ دوڑائی جائے تو حقائق خوفناک ہیں۔18-ہزارسے38 ہزار کے درمیان افراد جان سے جاتے ہیں جبکہ 4 لاکھ سے زائد افراد زہر سے متاثر ہونے کی وجہ سے زندگی بھرکے لیے کسی نہ کسی معذوری کو جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سانپ انسانی بستیوں کے قریب بھی پائے جاتے ہیں مگر عموماً ان کا مسکن جنگلات اور غیر آباد علاقے ہوتے ہیں۔ انٹارٹکا، آئس لینڈ، آئرلینڈ، گرین لینڈ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ سانپ پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا دنیا میں خطرناک ترین زہریلے سانپوں کے لیے مشہور ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے دس خطرناک زہریلے سانپوں میں سے زیادہ تر وہیں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ پینتیس (35) ہزار شہری سانپ کے ڈسنے سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے بہت سے ویکسین کی عدم دستیابی اور فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

یہاں ہم پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں کی کچھ اہم اقسام کا ذکر کررہے ہیں۔

اژدھا (Indian Python)

20 فٹ تک کی لمبائی رکھنے والا اژدھا دنیا کے لمبے ترین سانپوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ چوہوں اور چھوٹے رینگنے والے جانوروں کا شکار کرنے کے دلدادہ ہوتے ہیں جبکہ پرندوں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ عموماً یہ انسانی آبادیوں سے دور پائے جاتے ہیں ۔چوہوں کی تلاش میں یہ آبادیوں کی طرف بھی آجاتے ہیں۔ پاکستان میں اژدھے دریاؤں اور جھیلوں کے قریب اُگی گھاس میں بسیرا کرتے ہیں۔

جنوبی سندھ میں پائے جانے والے اژدھوں کی تعداد آبادیوں کے بڑھنے کی وجہ سے تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں اس کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اژدھے کے خطرناک ہونے کی وجہ سے اسے دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسرے سانپوں کی طرح کنڈلی مار کے نہیں بیٹھتا بلکہ اپنی پسلیوں کے بل رینگتا ہے۔ یہ اپنے شکار کے گرد شکنجہ تنگ کرلیتا ہے اور دم گھٹنے کی صورت میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی قیمتی کھال بھی اکثر اس کی موت کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک اچھا تیراک بھی ہوتا ہے۔ Python کی جلد قیمتی اور نایاب ہوتی ہے یہ بہت بھاری قیمت پر فروخت ہوتی ہے۔

کالا ناگ/ شیش ناگ (Cobra)

یہ عموماً تھل اور ریگستانوں میں پایا جاتا ہے۔ لمبائی کے حساب سے یہ دوسرے سانپوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اس کی حد لمبائی 2.4 میٹر تک ہوسکتی ہے۔ فصلوں، جنگلات اور خصوصاً چاول کی کاشت والے علاقے کے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ ان کی دو بڑی اقسام ہیں جو کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان میں عام طور پر پائی جاتی ہیں سمندر اور اونچائی پر واقع مقامات جیسے کے پہاڑی علاقے اس کی ذیلی اقسام کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔

کالے ناگ اور شیش ناگ کے حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں جیسے کہ اس کے سر میں ہیرا یا ناگ منی ہونا، اس کو دوسرے سانپوں سے ممتاز کرنے میں بڑا ہاتھ اس کے پھن کا ہے یہ جیسے ہی سر اٹھاتا ہے پھن پھیلا لیتا ہے۔ شیش ناگ سے متاثر ہوکر کئی ہالی وڈ اور بالی وڈ فلمیں بھی بنائی گئیں جن کو خوب پذیرائی بھی ملی۔ نر ناگ وزنی اور مادہ ناگن سے نسبتاً لمبائی میں کم ہوتے ہیں لیکن ان کی دم زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ عموماً صبح یا شام کے وقت بیدار ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ انسانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے مگر جیسے ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اپنا پھن پھیلا کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ زہریلا ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ڈسنے کے ٹھیک آٹھ منٹ بعد متاثرہ شخص کی نبض کی رفتار سست پڑنے لگتی ہے اور شدید گھبراہٹ بڑھنے لگتی ہے جس کے بعد وہ کوما میں چلا جاتا ہے اور لاکھوں میں سے ایک خوش قسمت واپس زندہ سلامت پاتا ہے۔ کالے ناگ سے لوگوں کو تو خطرہ رہتا ہی ہے مگر خود اس کو سپیئروں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے جن کا انہیں پکڑ کر نیولے سے لڑوانا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

کھپرا (Saw-Scaled Viper)

پتلا، پھرتیلا اور زہریلا ساسکیلڈ وائپر صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 1,800 میٹر کی بلندی پر واقع پہاڑی اور ریتلے میدانوں میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تھر اور چولستان کے صحراء میں جبکہ بلوچستان کی صحرائی پٹی مکران کے صحرائے استولہ میں بڑی تعداد میںموجود ہے۔ کھپرا دیکھنے میں چھوٹا اور قدرے پتلا ہوتا ہے اس کا سر تکون کی شیپ سے مماثلت رکھتا ہے اور گردن سے الگ لگتا ہے۔ اس کی گردن قدرے پتلی ہوتی ہے جبکہ آنکھیں ابھری ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر خوف اور دہشت کا احساس ہوتا ہے۔ کھپرے کا جسم دور سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جُو کے دانے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوں اس کی جلد سخت اور ابھار والی ہوتی ہے۔ رنگ زردی مائل بھورا ہوتا ہے اور اوپر کالے اور سفید رنگ کی لہریں ہوتی ہیں جبکہ اندرونی جانب سے ہلکا عنابی اور زرد رنگ ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 0.4 سے 0.6 میٹر تک ہوتی ہے۔

یہ گرمیوں کے موسم میں رات کو متحرک ہوتا ہے اور بعض اوقات سردیوں میں دن کے وقت۔ سرما کی خنک دھوپ میں کھپرا جھاڑیوں پر بیٹھے دھوپ سینکنا پسند کرتا ہے اور ایسا عموماً صبح صادق کے بعد ہوتا ہے۔ مردہ پودوں کے تنے اور پتھروں کی اوٹ اس کی پسندیدہ رہائش گاہ ہیں۔ کھپرا خود کو مٹی میں چھپا کر اپنے شکار کی گھات لگاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر وہ اپنی اس حکمت عملی سے کامیابی حاصل کرتا ہے کیونکہ عموماً لوگ اسے دیکھ نیں پاتے۔ کیونکہ سر باہر اور دھڑ مٹی میں ہونے کی وجہ سے وہ اس ماحول کا ایک حصہ لگتا ہے۔ گرم اور خشک موسم میں رات کے وقت اپنے شکار کو ڈھونڈنا اس کا دل پسند مشغلہ ہے۔یہ سانپ کنڈلی مارے رہتا ہے اور اسی حالت میں اس کے جسم کی آپس میں رگڑ کھانے سے پراسرار سرسراہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

سنگ چور (Sind Krait)

دیکھنے میں پتلا اور چمکدار، چھونے پر ہموار، مختلف رنگوں میں پائے جانے والے اس زہریلے سانپ کی اوسط لمبائی 3 سے ساڑھے 4 فٹ کے درمیان ہوتی ہے۔ کبھی نیلے، کالے، زردی مائل نیلے سرمئی، بھورے تو کبھی مکمل سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں ان کی پشت پر سفید، زرد اور ہلکی سرمئی رنگ کی افقی لائنیں ہوتی ہیں۔ چھوٹے سانپوں کے اوپر ہلکے مہین سفید نقطے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑی لکیروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جسم کی نچلی سطح سفید ہوتی ہے جبکہ اس کا انڈے نما بیضوی سر اسے گردن سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی تھوتھنی (کسی جانور کے سرکا ایسا حصہ جو آگے کو نکلا ہو اور اس میں ناک جبڑے ہوں) باریک اور ہونٹ سفید اور زردی مائل ہوتے ہیں جبکہ اس کی دم نوک دار ہوتی ہے۔ یہ عموماً رات کے وقت شکار کرتا ہے۔ یہ دن میں شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔

اپنے سرکو کنڈلی میں چھپا کر اچانک حملہ کرتا ہے۔ اس کا زہر انتہائی خطرناک اور مہلک ہے کیونکہ اس میں انتہائی زہریلے مادے ہیموٹاکسن اور نیوروٹاکسن موجود ہوتے ہیں جو جسم میں جاتے ہی تمام پٹھوں کو سکیڑ دیتا ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کے ڈسنے ہوئے 30 فیصد افراد زندہ دفن کردیئے جاتے ہیں۔ جی ہاں کیونکہ مریض کے سارے جسم کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور میٹابولزم انتہائی سست ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خون کا بہاؤ نہایت کم رفتار سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسٹیتھو سکوپ سے بھی دل کی دھڑکن سنائی نہیں دیتی اور مریض کو مردہ سمجھ کر دفنا دیا جاتا ہے۔ اس کے کاٹے کے 77 فیصد کیسز میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کی پٹی اور وزیرستان کوئٹہ کے نشیبی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ جنوب مغربی پاکستان میں پاک ایران بارڈر کے قریب علاقوں میں بھی موجود ہے۔ یہ عموماً میدانوں، دیمک کی بابیوں، چوہوں کے بلوں، کچرے کے ڈھیر اور بلندی پرواقع علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

کوری والا (Russells Viper)

تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبے، چھوٹی دم اور تیز نوکیلے دانتوں والا یہ سانپ خطرناک ترین سانپوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس کا سرلمبا تکونی اور نتھنے باہر کو نکلے ہوئے واضح ہوتے ہیں۔ عموماً گہرا براؤن، زردی مائل بھورے یا سرمئی بھورے رنگ کا ہوتا ہے جس کے اوپر چھوٹے پتوں کی طرح کے نشان ہوتے ہیں جن کی اوٹ لائن کالے رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ پھرتیلا ہوتا ہے اور عموماً موسم گرما میں رات کو باہر نکلتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں کے آغاز میں 2,200 میٹر کی بلندی والے علاقوں، میدانوں، وسیع سرسبز زاروں میں پایا جاتا ہے پاکستان میں بالخصوص وادی سندھ اور پنجاب اس کا گڑھ ہیں، یہ چوہوں کی بلوں، دیمک کی بابیوں، چٹانی پتھروں، سوکھے پتوں کے ڈھیر اور کچرے کے ڈھیر کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ یہ عموماً شکار کی تلاش میں انسانی آبادیوں کے قریب آنکلتے ہیں کیونکہ ان کا پسندیدہ ترین شکار چوہے ہوتے ہیں جوکہ گھروں میں کھانے کی تلاش میں بسیرا کرتے ہیں اور یہ ان کے پیچھے وہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا جسم جب آپس میں ٹکڑاتا ہے تو اس سے عجب سی آواز نکلتی ہے۔ اسے دنیا کے خطرناک ترین سانپوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

سانپ اور نیولے کی لڑائی کے بارے میں تو سب جانتے ہوں گے مگر سانپ کو بین پر ناچتے دیکھ کر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے۔ جی ہاں، سانپ اپنی زبان کی مدد سے اپنی طرف آنے والے خطرے کو محسوس کرسکتا ہے۔ سانپ کے کاٹنے کی صورت میں عموماً لوگ اس ڈر سے ہی مرجاتے ہیں کہ انہیں سانپ نے کاٹ لیا مگر ضروری نہیں کہ ان کے مرنے کی وجہ سانپ کا زہر ہو، بلکہ ڈر کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کی صورت میں ان کی موت ہوجاتی ہے۔

شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ سب سانپ زہریلے نہیں ہوتے اور اگر ایک غیر زہریلا سانپ کسی کو کاٹ لے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات زہریلے سانپ کے کاٹنے سے بھی انسان کی موت نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سانپ کاٹنے سے پہلے شکار کرچکا ہوتا ہے۔ سانپ کا زہر دراصل اس کا ہتھیار ہے جسے وہ اپنے دشمن کے خلاف یا پھر شکار کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور شکار کو نگلنے سے پہلے اس میں زہر اتار دیتا ہے۔ سانپوں کے حوالے سے خوف کی ایک وجہ ان کے متعلق عوام الناس میں آگاہی کی کمی ہے جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہورہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سانپوں کو خطرناک تو سمجھا جاتا ہے مگر ان سے بلاوجہ کا ڈرنا بہادری نہیں سمجھا جاتا اور اس کی مثالیں دیکھنے کو بھی ملتی ہیں جہاں سانپ کے زہر کو ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے وہیں سانپوں کے گوشت کو بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ ان معاشروں میں عام ہے جہاں مذہبی طور پر انہیں سانپ کھانے سے منع نہیں کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خوفناک نظر آنے والے سانپوں کا گوشت انتہائی مہنگا ہوتا ہے جسے لوگ ذوق و شوق سے کھانا پسند کرتے ہیں جبکہ بڑے بڑے برانڈز سانپوں کی کھال سے جوتے، ہینڈ بیگز اور اعلیٰ کی اشیاء تیار کرتے ہیں جس کے لیے بڑے پیمانے پر سانپوں کو ہلاک کیا جاتا ہے اور یہ بات جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بڑے برانڈ کی دلدادہ خواتین جہاں سانپوں کے خیال سے بھی ڈرتی ہیں وہیں وہ انہی سانپوں کی کھال سے بنی مختلف اشیاء کو مہنگے داموں خریدنے کو اعزاز سمجھتی ہیں۔ مگر اب دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سانپوں کو مساج کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے اور یہ مساج سینٹرز میں آنے والوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جس کے عوض مالکان بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ سانپوں کے ذریعے ایک مساج کی قیمت تقریباً 16 سے 18 ہزار پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔

مگر بے فکر رہیے ابھی پاکستان کے Spa اینڈ Saloons نے مساج کے لیے ان سانپوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔سانپوں سے خوفزدہ ہوجانا ایک فطری امر ہے مگر اطمینان رکھیے۔ سانپ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کے جہاں نقصان ہیں وہیں فائدے بھی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے نقصانات اور ان سے لاحق خطرات سے ناصرف آگاہی حاصل کی جائے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفیض ہوا جا سکے۔

سانپ کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیے
٭... ایسی جگہیں جہاں پر سانپوں کی موجودگی کا خطرہ ہو وہاں پر لونگ بوٹس پہن کر جانا چاہیے۔
٭... کھیتوں میں کام کرنے والے افراد نیچے دیکھیں اور دھیان دیں کیونکہ سانپ انسانوں کوکاٹنے کا Habitual نہیں ہوتا وہ ایسا Self defence میں کرتا ہے۔
٭... سانپ نظر آجائے تو اسے جانے کا راستہ دیں۔
٭....سوئے انسان کے بستر پہ سانپ آجائے تو جسم کے نیچے آجانے سے کاٹنے کا خدشہ بڑھتا ہے۔ اپنے بستر کو جھاڑ کر سوئیں۔
٭... صاف پانی سے کاٹنے کی جگہ کو دھوئیں کاٹے کی جگہ پر کٹ مت لگائیں بلکہ اسے تھوڑا دھوئیں اوپر کس کے پٹی بندھیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔
٭... ہلنا جلنا اور چلنا پھرنا بند کردیں۔
٭... اگر ٹانگ پر کاٹ لے تو اسے اونچا نہ کریں ایسی صورت میں زہر دل کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔
٭... مریض کو سونے مت دیں۔
٭... کوئی درد رفع کرنے والی دو استعمال نہ کریں۔ فوراً سے ہسپتال پہنچیں۔
٭... آکسیجن کی کمی نہ ہونے دیں۔
٭... اگر کوئی گھڑی یا انگوٹھی پہن رکھی ہو تو اسے فوراً اتار دیں ورم کی صورت میں فشار خون رک سکتا ہے۔
٭... قے ہونے کی صورت میں مریض کو بائیں جانب جھکنے دیں۔

سانپ کا زہر اتنا مہلک کیوں؟
عموماً لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر ایک سانپ کے کاٹنے میں ایسی کیا وجہ ہے کہ چند منٹوں میں کوئی بھی شخص جان کی بازی ہار سکتا ہے اور سانپ اتنے زہریلے کیوں ہوتے ہیں؟ سانپوں کی زیادہ تر اقسام زہریلی نہیں ہوتیں مگر 15 فیصد اقسام انتہائی زہریلی اور جان لیوا ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کے دانتوں کے پیچھے چھپے زہر میں ہی ان کے زہریلے ہونے کا راز پنہاں ہے۔ سانپ کا زہر عام طور پر زرد رنگ کا ایک مادہ ہوتا ہے جوکہ ایک خاص قسم کے لعاب پیدا کرنے والے گلینڈر سے بنتا ہے۔ سانپوں کی ایسی بیسیوں اقسام ہیں جو اپنے شکار کو کمزور اور ناکارہ بنانے کیلئے زہر کا استعمال کرتی ہیں۔

سانپ کا زہر خاص قسم کے پروٹین، الزائمز اور سالماتی مادوں (مالیکیولر سبٹنسز) پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ خطرناک حد تک زہریلے ہونے کے باعث خلیوں اور نروس سسٹم کو تباہ کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زہر جسم میں جاتے ہی خلیوں اور ٹشوز میں توڑ پھوڑ کرتا ہے جس سے جسم کے اندرونی حصوں میں بلیڈنگ یا پھر فالج کے ساتھ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ زہر اسی وقت اثر کرتا ہے جب وہ جسم کے خلیوں میں داخل ہوجائے۔ یوں یہ خون میں شامل ہوجاتا ہے جس سے اس کی دل تک رسائی ممکن ہوتی ہے کیونکہ پورے جسم میں خون کی سپلائی دل کے ذریعے ہوتی ہے۔ یوں سانپ کا زہر خون کے ساتھ شامل ہوکر پورے جسم میں پہنچ جاتا ہے جوکہ مریض کو موت کے منہ تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔سانپ کے زہر میں موجود زہریلے پروٹین اسے جان لیوا بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اس میں موجود الزائمز کمیائی ری ایکشنز کو تیز کرتے جس سے جسم میں موجود کیمیائی اجزاء اور مالیکول کے درمیان رابطہ برقرار نہیں رہتا جوکہ کاربوہائیڈیٹس، پروٹین، فاسفورس لپڈز اور نیوکلوٹائیڈز کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ان زہریلے الزائمز کا بنیادی مقصد خون کے سرخ خلیوں کو برباد کرنے کے ساتھ بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنا ہوتا ہے، جس سے پٹھے اپنا کنٹرول کھو دیتے ہیں۔

زہر کی تین خطرناک اقسام کون سی ہیں؟
زہر کے حوالے سے خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ مہلک اور جان لیوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں مگر ضروری نہیں کہ ہر زہر ہی جان لیوا ہو۔ جی ہاں، اب ہم آپ کو سانپوں کے زہر کے بارے میں بتانے جارہے ہیں کہ اس کی کتنی اقسام ہیں اور یہ کس طرح سے انسانی جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ گو کہ زہر مہلک اجزاء الزائمز اور غیر مہلک اجزاء کا مرکب ہوتا ہے لیکن اس کی مندرجہ ذیل اقسام اسے ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔

سائٹو ٹو کسک:-یہ ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے جوکہ جسم میں پائے جانے والے خلیوں کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے جسم میں داخل ہونے سے خلیے اور اعضاء مردہ ہوجاتے ہیں جس میں وہ حصہ گل سڑ جاتا ہے۔
مائکو ٹوکسن (رطوبت میں پائے جانے والے معاہدے) پٹھوں پر جبکہ نیفروٹوکسین گردے پر حملہ آور ہوکر کو تباہ کردیتے ہیں۔ سائٹو ٹوکسک جسم میں داخل ہونے کے بعد اتنی تباہی مچاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خلیوں (سیلز) میں توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی سیل ممبرین کو توڑنا ہے۔ سیل ممبرین (Cell Membrane) دراصل سیلز کے اوپر ایک قسم کی پروٹیکشن لیئر ہوتی ہے جو خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ زہر اسے تباہ کرنے کے بعد آسانی سے تمام خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہ زہر دل کے خلیوں کو شدید ترین نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

نیوروٹوکسن:-یہ زہریلے کیمیائی مادوں سے بنا ہوتا ہے جوکہ انسان کے عصبی نظام کو تباہ کرتا ہے۔ نیوروٹوکسن ایسا کیا کرتا ہے کہ انسان اپنے اعصاب پر سے کنٹرول کھو بیٹھتا ہے؟ تو اس سائنس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ بات جانیں، یہ زہر جسم میں داخل ہوتے ہی نیورو ٹرانسمٹرز کو متاثر کرتا ہے۔ نیورو ٹرانسمٹرز دراصل اعصابی ریشوں سے رسنے والا کمیائی مادہ ہوتا ہے جو حسی یا جذباتی تحریک کو ایک عصبے سے دوسرے عصبے یا پٹھے تک منتقل کرتا ہے۔ عام اور سادہ الفاظ میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ رگوں سے خارج ہونے والا مادہ ہے جو پٹھوں کو حرکت دینے کے عمل کو تیز کرتا ہے۔

مثال کے طور پر جیسے ہی ہمارا ہاتھ کسی گرم چیز کو چھوتا ہے تو ہم فوراً اسے پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ ایسا اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب ہمارے جسم میں نیورو ٹرانسمٹرز فعال انداز میں کام کررہے ہوں۔ گرم چیز کے چھوجانے کا احساس ان کے ذریعے دماغ تک جانا ہے اور پھر دماغ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچنے کا پیغام بھی انہی نیورو ٹرانسمٹرز کے ذریعے بھیجتا ہے۔ اگر یہ عمل متاثر ہوجائے تو انسان حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ سانپ کے اس خطرناک زہر سے پٹھوں پر فالج کا حملہ ہوتا ہے جس سے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے اور سانس لینے میں دقت کے سبب موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ زہر عموماً چھوٹے نوکیلے خمدار دانتوں والے سانپوں جیسے کہ کوبرا، مانبا، سی سنیک (سمندری سانپ)، مرجان اور ناگ کی اقسام میں پایا جاتا ہے۔

ہیموٹوکسن:-
اس قسم ے زہر سے سائٹو ٹوکسک زہر جیسے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں جس میں خون کی ترسیل میں رکاوٹ جیسے مسائل پیدا ہوں۔ لیکن اس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ خون کے سرخ خلیوں کو جما دیتا ہے اور اعضاء کے خلیوں کو مردہ کرنے کے ساتھ گردوں کے فیل ہونے کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہیموٹوکسن خون کو لوتھروں میں بدل دیتا ہے جس سے خون کی سپلائی دل تک نہ ہونے کے باعث ہاٹ اٹیک سے موت ہوجاتی ہے۔ اسے سانپ جن میں یہ مہلک زہر پایا جاتا ہے۔ عموماً وائپرز کی اقسام ہوتے ہیں۔

سانپوں کے متعلق دلچسپ حقائق
سانپ اپنے شکار کو نگل کر کھاتا ہے، کیونکہ وہ اسے ٹکڑے کرکے کھانے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔.
سانپ اپنا منہ 150 ڈگری کے اینگل پر کھول سکتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے حجم سے 75-100 فیصد بڑا شکار کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
اینا کونڈا اپنے شکار کو دبوچ کر اسے دم گھٹنے کے بعد کھاتا ہے۔
سانپ ایک سال میں 3 سے 6 مرتبہ اپنی جلد بدلتا ہے کیونکہ نئی جلد اس کے حساب کی ہوتی ہے۔ جلد تبدیل کرنے کا عمل کئی دنوں پر محیط ہوتا ہے۔
سانپ کا خوف اپنی جگہ مگر ہر سال سانپوں کے مقابلے میں شہد کی مکھیوں سے ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
سانپ کی 70 فیصد اقسام انڈے دیتی ہیں جبکہ 30 فیصد بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
بلیک مانبا دنیا کا سب سے تیز رفتار سانپ ہے جوکہ 20 کلو میٹر پر گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔
سانپوں کی پتلیاں نہیں ہوتی۔سانپ کے کان نہیں ہوتے۔سانپ اپنی زبان سے سونکھتا ہے۔
سمندری سانپ اپنی جلد کی مدد سے سانس لیتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے سانپوں کا طبی مقاصد کے لیے استعمال قدیم مصر میں 450 قبل مسیح کیا گیا۔
سانپ کا سائز تاحیات بڑھتا رہتا ہے۔

ہمارا تیار کردہ اینٹی وینم پڑوسی ملک بھارت کے تیار کردہ تریاق سے زیادہ معیاری اور زور آور ہے
پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سانپ نہ ہوں،ڈاکٹر حسین علی
تریاق کی تیاری سے سٹورمیں پہنچنے تک دو برس لگتے ہیں،گھوڑوںکو گاجریں اور کھیرے کھلاتے ہیں

سانپوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا اور انہیں قارئین تک پہنچانا ایک مشکل سفر تھا مگر اس دوران سب سے کٹھن مقام اس سلسلے میں مستند ڈاکٹر کی رائے معلوم کرنا اور سائنٹفک انفارمیشن عوام الناس کو پہنچانا تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں سب سے پہلے ان تمام علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں میں رابطہ کرنے کی کوشش کی جہاں پرجہاں سانپ سے ڈسے جانے والے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے مگر ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹرز اس حوالے سے کوئی بھی موقف اور معلومات دینے سے انکاری تھے۔

لاہور میں ہم نے جب اس ضمن میں جناح ہسپتال، جنرل ہسپتال اور انڈس ہسپتال کے شعبہ میڈیکل ایمرجنسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ایکسپریس نیوز کو اپنا موقف دینے سے انکار کردیا اور اس ضمن میں مصروفیت کا بہانہ بناکر جان چھڑائی یہی حال میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حضرات کا بھی تھا۔ اب یہ میڈیا سے بات نہ کرنے کے پیچھے کونسا ڈر اور خوف تھا یہ تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن ایکسپریس کا مقصد صرف لوگوں تک سانپ کے کانٹنے پر بچائو کے حوالے سے مستند معلومات کا حصول تھا۔ اس کے علاوہ بھی لاتعداد ہسپتالوں میں رابطہ کیا گیا جس پر مایوسی ہوئی۔ چار ہفتوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ہمارا رابطہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں سینئر سائنٹفک آفیسر ڈاکٹر حسین علی سے ہوا تو امید کی کرن جاگی۔ انہوں نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے بتایا کہ سانپ زیادہ تر گرم اور مرطوب علاقوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں مگر پاکستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سانپ نہ ہوں۔

یہ الگ بات ہے کہ کچھ علاقوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے اور کچھ میں بہت کم۔ پاکستان میں کریٹ Kriat سانپ بہت خطرناک ہے جس کا زہربیک وقت نیوروٹاکس اور ہیموٹاکسن ہوتا ہے جوکہ مریض کے اعصابی نظام کو بری طرح سے تباہ کردیتا ہے۔ پہاڑی علاقوں کو بھی سانپ اپنا مسکن بناتے ہیں مگر گرم علاقوںکو ترجیح دینے کے پیچھے یہ راز کارفرما ہوتا ہے کہ سانپ اپنے جسم کا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے انہیں منتخب کرتے ہیں۔ ان سے پاکستان میں سانپوں کے حوالے سے تحقیق کے بارے میں سوال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء پاکستان میں سانپوں کے حوالے سے تحقیقی کام کرتے ہیں جس سے ناصرف انہیں بلکہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ عموماً وائلڈ لائف کے طلباء اپنی تحقیق میں سانپوں کی مختلف Speies کو Identify کرتے ہیں جس سے ان کے حوالے سے مزید جان کاری ملتی ہیں اور ان کے زہر سے لڑنے کے لیے تریاق کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔



جب ان سے اینٹی وینم(تریاق) کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ NIH پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں پر اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے اور اسے پورے پاکستان میں بھیجا جاتا ہے۔ طلب اور رسد سے متعلق سوال پر ان کا موقف یہ رہا کہ NIH، 1960ء میں قائم ہونے والا ادارہ تھا اور آج 2019ء ہے اس دوران آبادی تیزی سے بڑھی جس کی وجہ سے اینٹی وینم کی مانگ میں اضافہ ہوا مگر پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ ہم بین الاقوامی معیار کے مطابق اینٹی وینم بناتے ہیں جوکہ پڑوسی ملک بھارت کے تیار کردہ تریاق سے زیادہ معیاری اور موثر ہے۔ تریاق کی تیاری کے متعلق ڈاکٹر حسین علی کا کہنا ہے کہ ہم جو اینٹی وینم بناتے ہیں وہ چار سانپوں کوبرا، کریٹ، وائپر اور اژدھا کے زہر کو ملانے اور خشک کرنے کے بعد اسے قلیل مقدار میں گھوڑے کے جسم میں لگاتے ہیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جس میں کم مقدار میں زہر کو پروسس کرکے گھوڑے کو دینے کا مقصد اس کے اندار مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق گھوڑے کی گردن میں یہ ٹیکے لگائے جاتے ہیں جبکہ کچھ کے مطابق ان کی پیٹھ بھی اس کے لیے موزوں جگہ ہے مگر ہم ان کی گردن پر ہی لگاتے ہیں۔

پھر گھوڑے کے جسم سے خون نکال کر اسے پروسس کیا جاتا ہے جس سے پلازما الگ کرلیا جاتا ہے اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اینٹی وینم کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ تریاق کی تیاری میں سانپوں سے زہر حال کرنے سے اینٹی وینم تیار ہوکر سٹورز میں پہنچنے میں دو سال کا عرصہ لگتا ہے۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا گھوڑے کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ وہ خون دینے کے بعد مرجاتا ہے درست ہے تو اس پر انہوں نے اس قیاس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض قیاس آرئی ہے۔ گھوڑے ایسا تین سے چار ماہ کے بعد کرتے ہیں اور ایک گھوڑا طبعی موت مرنے سے پہلے تاحیات یہ کام کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر حسین علی سے جب گھوڑوں کی خوراک کے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ گھوڑوں کو مربے کھلائے جاتے ہیں تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں، ہاں ہم انہیں گاجریں اور کھیرے ضرور کھلاتے ہیں جس سے ان میں خون پیدا ہو اور ان کی اچھی صحت کے ساتھ وٹامن پہنچیں۔ اس کے علاوہ انہیں اچھی خوراک دی جاتی ہے اور ایک صحت بخش ماحول رکھا جاتا ہے۔

زہریلے سانپ کے کاٹنے کی کیا نشانی ہے؟
ڈاکٹر حسین علی نے بتایا کہ سانپ زہریلے (Venomous)اور (Non-Venomous) زہریلے نہیں بھی ہوتے۔ اب کیسے پتہ چلتا ہے کہ کسی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہے یا غیر زہریلے سانپ نے تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر کاٹے کی جگہ پر زیادہ دانتوں کے نشان ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خطرے کی کوئی بات نہیں سانپ زہریلا نہیں ایسی صورت میں اینٹی وینم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ابتدائی طبی امداد ہی کافی ہوتی ہے۔ جبکہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب کاٹنے کے صرف دو نشان ہوں ایسا زہریلے سانپوں کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان کے فینگز Fangs (آگے کے دو دانت) کے ذریعے ہی زہر جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس جگہ پر بالکل سرنج کے دو نشانوں کی طرح نشان آتے ہیں اور عموماً درد بھی نہیں ہوتی مگر آہستہ آہستہ اس پر ورم آنے لگتا ہے۔ مریض کو فوراً ہسپتال لے جانے اور اینٹی وینم دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا مریض کو ایک ہی اینٹی وینم کافی ہوتا ہے؟
تو اس پر انہوں نے بتایا کہ مریض کو ایک سے زائد اینٹی وینم دینے پڑتے ہیں اور ایک دم ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو ڈرپ میں ڈال کر آہستہ آہستہ جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔اینٹی وینم کی تعداد مریض کے قوت مدافعت پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنا اور کس طرح اس کو قبول کرتا ہے۔ جب ان سے سانپ کاٹنے کے بعد روایتی علاج کے حوالے سے سوالات کیے تو انہوں نے بتایا کہ لوگ دیہاتوں میں دم کرواتے ہیں اور زہر کو چوسنے کا رواج بھی موجود ہے مگر یہ ایک خطرناک طریقہ ہے جس میں اگر زہر ٹھیک طریقے سے نا نکلے تو مریض کی موت ہوجاتی ہے اور دم والے شخص کا موقف ہوتا ہے کہ بس میں نے تو پوری کوشش کی مگر اللہ کی مرضی۔ جبکہ دوسری طرف اس زہر چوسنے والے شخص کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسی صورت میں اکا دکا مریضوں کے بچ جانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زہر کی جگہ سے خون نکال دیا جاتا ہے جس سے اس کی سپلائی جسم میں اس طرح نہیں ہوپاتی۔کٹ لگا کر زہر نکالنے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ کٹ لگانے والا شخص تربیت یافتہ ہونا چاہیے ایسا نہ ہوکہ وہ کٹ لگا کر دوسری رگوں کو کاٹ ڈالے۔

اس ساری گفتگو پر ڈاکٹر حسین علی کا کہنا تھا کہ یہ سب روایتی طریقے خطرناک ہیں۔ اگر زہر چوسنے کا طریقہ اتنا ہی قابل اعتماد ہوتا ہے تو کوئی ایسی مشین ہی ایجاد کرلی جاتی جس سے زہر نکالا جاتا۔ مریض کو اینٹی وینم کی فراہمی کے لیے جلد سے جلد ہسپتال لے جانا ہی بہترین حل ہے۔ بات چیت کے دوران ہم نے وہاں کے ماحول اور کسی ناخوشگوار واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو ڈاکٹر حسین علی نے بتایا مجھے یہاں پر کام کرتے 20 سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے اس دوران ہمارے ہاں شنازونادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہو مگر اس صورت میں بھی ہم اینٹی وینم کو جلد از جلد لگادیتے ہیں۔

15 سالوں میں کبھی ایک آدھ مرتبہ Milking (سانپ سے زہر نکالنے کا عمل) کے دوران سانپ نے ڈس لیا۔ مگر فوری تریاق نے اس کا کچھ اثر نہ ہونے دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے شعبے میں کسی کو بھی وزٹ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایک خطرناک کام ٹرینڈ لوگ بھی بہت احتیاط سے کرتے ہیں اور عام لوگوں کی جان کو بھی خطرہ نہ ہو اس لیے انہیں وہاں تک رسائی نہیں دی جاسکتی۔ آخر پر ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سانپوں کے حوالے سے تمام معلومات عام لوگوں تک پہنچنی چاہئیں یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں بلکہ میری ذاتی تحقیق اور تجربہ میں لوگوں کو شعور دینا ان کا حق ہے۔

اینٹی وینم کیا ہے؟
آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ زہر کو زہر ہی کاٹتا ہے اور یقینا یہ سن کر حیرت بھی ہوئی ہوگی مگر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات جس کسی نے بھی کہی نہایت سوچ سمجھ کر ہی کہی۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ سانپ کے زہر کا تریاق سانپ کے زہر سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ جی ہاں، اینٹی وینم کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔

اینٹی یعنی مخالف یا توڑ اور وینم مطلب سانپ کا زہر تو یہ دراصل سانپ کے زہر کا تریاق ہوتی ہے جسے سانپ کے زہر سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اسے ناصرف زہر کے تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کئی بیماریوں جیسے کہ فالج، کینسر، الزائمرز اور دل کی بیماریوں کے علاج کی دوائوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ ہیموٹاکسن کو تو ایسی بیماریوں جن میں خون کا بہائو تیز ہوجاتا ہے جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر، خون کی بیماریوں اور دل کے امراض کے لیے خون کے بہاوء کو سست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نیوروٹاکسن ایسی ادویات میں استعمال ہوتا ہے جوکہ ذہنی امراض اور فالج کے علاج میں معاون ہوں۔

اینٹی وینم کیسے تیار کیا جاتا ہے؟
سانپ کے زہر کا تریاق تیاری کے مراحل سے گزرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ مانگتا ہے، یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے جس کے لیے ماہرین کئی تجربات کرتے ہیں جیسے کہ وہ جانور (معاون) جوکہ عموماً گھوڑے ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں انہیں طبی زبان میں ڈونزز کہا جاتا ہے۔ اینٹی وینم تیار کرنے کے لیے ماہرین پہلے ان ''ڈونزز'' کو کئی قسموں کے سانپوں کا زہر دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے ساپنوں سے زہر نکالا جاتا ہے ماہرین کے مطابق ایک سانپ سے ہر دو ہفتے کے بعد زہر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سانپوں سے زہر نکالنے کے عمل کو ملکنگ ''Milking'' کہتے ہیں۔ حاصل شدہ منجمند زہر کو تھوڑی تھوڑی مقدار میں لمبے عرصے تک گھوڑوں کو دیا جاتا ہے۔

کیونکہ گھوڑوں میں مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے جس کی وجہ سے بتدریج وہ اس زہر کے خلاف اپنے اندر مزاحمت کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان ڈونزز کے جسم سے خون نکالنے کا عمل انجام پاتا ہے اور ایسا کرکے اس خون میں سے اینٹی باڈی خلیات علیحدہ کیے جاتے ہیں اور انہی سے اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے۔ اس پورلے عمل میں دس سے بارہ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے جوکہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہوتا ہے۔ یعنی گھوڑے سے تقریباً دس پندرہ لیٹر تک خون نکالا جاتا ہے۔ جس میں پلازما کو مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد سانپوں کے زہر سے ملا کر اینٹی وینم تیار کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گھوڑوں کو ایک خاص قسم کے ماحول میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کو اعلیٰ قسم کی غذا دی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں