جہاں گشت
بابا نے مجھےحکم دیا کہ میں اپنے جوتے بھی اس لوہار کے حوالے کردوں، سو میں نے حکم کی تعمیل کی
میری دونوں کلائیوں، پاؤں اور گلے میں لوہے کی موٹی زنجیر تھی۔
قسط نمبر67
مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے، جب بابا نے فقیر کو کہا تھا کہ آج اپنے بھائی کی واپسی کا جشن مناؤ پھر کل سے کام پر جانا، پھر حنیف بھائی سے جو گفت گو ہوئی وہ تو آپ اس سے پہلے سُن ہی چکے ہیں، حنیف بھائی تو کٹیا سے مجھے بے وقوف کہہ کر حیرت میں چھوڑ گئے تھے۔
فقیر سوچتا رہ گیا، اس لیے نہیں کہ اسے احمق کہا گیا، یہ تو فقیر کے لیے کوئی انکشاف تھوڑی ہے، یہ حقیقت ہے اور اتنا تو جانتا ہی ہے فقیر۔ فقیر تو کچھ اور سوچ رہا تھا اور پھر اس پر ایک اور انکشاف ہوا کہ حنیف بھائی کوئی ایک دو ہفتے نہیں پورے ایک ماہ دس دن بعد اپنی اُس حالت میں رہ کر واپس لوٹ آئے تھے، اور وہ جس رات واپس لوٹے وہ چالیسویں رات تھی۔ فقیر تو بہت کچھ سمجھنے سے قاصر تھا اور حنیف بھائی کو بُھلا کر بابا کے متعلق سوچ رہا تھا کہ انہوں نے تو مجھے حنیف بھائی کے متعلق یہی بتایا تھا کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں جو میں نے بھائی کو بتا دیا تھا لیکن حنیف بھائی نے یہ انکشاف کرکے کہ وہ مکمل ہوش و حواس میں تھے اور میں بے وقوف ہوں کہہ کر حیرت میں ڈال دیا تھا۔
فقیر بُری طرح سے الجھ گیا تھا کہ کون درست کہہ رہا ہے، بابا یا حنیف بھائی۔ الجھن یہ تھی کہ بابا نے فقیر سے غلط بیانی کیوں کی۔۔۔۔ ؟ اگر وہ غلط بیانی تھی تو۔ فقیر اسی کش مکش میں تھا اور اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہواکہ شام ہوگئی اور بابا جی سر پر کھڑے ہیں، انہوں نے میرے سر پر دست مبارک رکھا تو سُکون کی لہر پورے وجود میں سرایت کرگئی، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی۔ کہاں پھنس گیا ہے میرا بچہ! انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کہیں نہیں بابا بس ٹھیک ہے، جو ہے۔
میرے جواب پر بابا نے مسکراتے ہوئے پوچھا: کیا مطلب؟ میں بے وقوف ہوں ناں بابا، میں احمق ہوں، حنیف بھائی تو ایسا سمجھتے ہی نہیں بل اکثر کہتے رہتے ہیں اور آپ بھی مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں، تو بس ٹھیک ہے میں ہوں ہی ایسا۔ بابا نے میری بات بہت دھیان سے سنی: اوہو! تو یہ بات ہے، چلو میرا بچہ اتنا عقل مند تو ہوگیا ناں کہ وہ یہ تو جان پایا ہے کہ وہ احمق ہے، یہ جاننا بھی تو کوئی معمولی بات نہیں، واہ جی واہ! اتنے عقل مند تو تم ہو ہی گئے ناں۔ پتا نہیں بابا بس جو ہے وہ ٹھیک ہے۔ اتنے میں حنیف بھائی کٹیا میں داخل ہوئے، کیا ہُوا میرے بھائی کو۔۔۔۔ ؟ کچھ نہیں ہُوا آپ پریشان نہ ہوں، میں بے وقوف ٹھیک ہوں، احمقوں کو بھی کبھی کچھ ہوا ہے کیا۔ بابا اور حنیف بھائی میری بات سن کر ہنسے اور میں کٹیا سے باہر آکر بیٹھ گیا۔
نیا دن اپنی نئی ترنگ کے ساتھ باہر نکل آیا تھا اور ہم پورے ایک ماہ اور دس دن بعد اپنے پُرانے معمولات کی طرف لوٹ رہے تھے۔ بابا جاچکے تھے اور میں حنیف بھائی کے ساتھ رواں تھا، ان کی سائیکل ویسے ہی ہوا میں اڑتی جارہی تھی۔ مجھے خاموش پاکر وہ بولے: کیا ہوا میرے بھائی کو کل سے تو کوئی بات چیت ہی نہیں کررہا، بتا مجھے کیا ہوا تجھے، بول ۔ کچھ نہیں ہوا آپ آگے دیکھیں اور سائیکل چلائیں۔
دیکھو بھائی پیارے! سنو ہماری بات، حنیف بھائی نے مجھے رجھانے کی کوشش کی۔ کسی عقل مند سے آپ بات کیجیے میں بے وقوف ہوں تو بس اپنی عقل مندی مجھ ایسے پر ضائع کرنا بھی بے وقوفی ہے، اسے کسی اور کے لیے بچا رکھیے۔ فقیر بھی کوئی کم ہے کیا، اور زبان درازی میں تو بہت تاک ہے جی، اور زبان اُن کی دراز ہوتی ہے جو عاقبت نااندیش ہوں، بے وقوف و احمق ہوں، بے علمے اور عجلت کے مارے ہوں، بلا سوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہوں، کچھ جانتے نہ ہوں لیکن خود کو عالم فاضل سمجھتے ہوں، آتا جاتا کچھ نہ ہو اور کہلاتے منشی فاضل ہوں، تھڑدلے اور لایعنی باتونی ہوں، باعلم، دانا، بینا و اعلی ظرف تو کبھی ایک لفظ بھی عبث نہیں بولتے کہ جانتے ہیں اس قینچی کی طرح چلنے والی زبان کے ہر لفظ کا حساب انہیں دینا ہوگا۔
ہر لفظ کا جو اضافی ادا کیا گیا ہو، ایسا لفظ جو کسی کی بھی دل آزاری کا سبب بن گیا ہو، ایسا لفظ جو کسی کا جیون برباد کرگیا ہو، کسی کے زندگی بھر کا روگ بن گیا ہو، جی ہر لفظ کا حساب واجب ہے کہ جو زبان سے ادا کیا گیا ہو، لیکن نصیحت تو وہ قبول کرتے ہیں، عمل تو وہ کرتے ہیں جو دل زندہ رکھتے ہوں، ایثار کیش و ہم درد و مخلص ہوں، جو رب کی ہر مخلوق کے حقوق کی پاس داری اپنا نصب العین سمجھتے ہوں، مجھ ایسے تھوڑی ہوتے ہیں وہ سماج کی پیشانی کا کلنک، آپ جیسے اعلٰی ظرف ہوتے ہیں وہ جو انسانیت کے ماتھے کا جُھومر ہیں ، اس سماج کے لیے نعمت خداوندی ہیں، جنہیں دیکھ کر زندگی کا اعتبار قائم ہے، جن سے رب تعالٰی کی مخلوق آسودہ ہے۔ رب تعالٰی آپ کو سلامت رکھے اور فقیر کو انسان اور بندہ بننے کی کرامت عطا فرمائے۔
فقیر پھر کہیں اور چلا گیا تھا تو حنیف بھائی نے میری بات سنی اور پھر کہنے لگے: تو میرے بھائی حقیقت یہی ہے کہ تم بے وقوف ہو تو اس میں بُرا منانے کی کیا ضرورت ہے، اپنی آنکھیں کھولو، تمہیں یاد نہیں کہ بابا اکثر فرماتے ہیں اپنی آنکھیں اور کان کھلی اور زبان بند رکھو، لیکن میرے بھائی نے تو الٹا ہی عمل کیا ہے ناں کہ آنکھیں اور کان مکمل بند کرلیے ہیں اور زبان کی لگام یک سر اتار پھینکی ہے۔ اب تو فقیر کی سکت کامل ختم ہوگئی تھی، میں نے طیش میں آکر چلتی سائیکل سے چھلانگ لگا دی۔
حنیف بھائی نے بریک لگائی، سائیکل کھڑی کی اور میرے پاس آئے: کیا ہُوا میرے بھائی کو ؟ کچھ نہیں ہوا مجھے! آپ جائیں میں خود آجاؤں گا، انہوں نے مجھے غور سے سنا، مسکرائے اور میرا بازو پکڑ کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ تو میرا بھائی خفا ہوگیا، دیکھ پگلے! میں تو اپنے بے وقوف بھائی کو چھوڑ کر کہیں جانے کا نہیں، عقل مند ہوتا تو ایسا سوچتا بھی، اسے تو تم بُھلا ہی دو، تمہیں چھوڑ دوں گا تو جیوں کا کیسے، بالکل پگلا ہے تُو۔ نہ جانے وہ اتنے شوخ کیوں ہوگئے تھے، بہت دیر ہوگئی تھی، سورج سر چمک رہا تھا، فقیر کو ایسا لگا جیسے وہ بھی حنیف بھائی کا ہم نوا ہے، چلیں حنیف بھائی کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ بہت تاخیر سے کارخانے پہنچے ہم۔
بابا نے حنیف بھائی کو تو بہت پیار سے دیکھا اور فقیر کو؟ بس رہنے دیجیے، عجب ماجرا ہے یہ ہماری انوکھی دنیا۔ دن پسپا ہونے کو تھا اور سورج تھک کر رخصت ہوا چاہتا تھا اور ہم اپنی کٹیا کی راہ میں تھے، بابا پہلے ہی جاچکے تھے۔ کٹیا پہنچ کر ہم اپنے معمولات سے فارغ ہوئے، میں کٹیا کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ بابا مجھ سے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھ گئے۔ ایسا کبھی نہیں ہُوا تھا، وہ ہمیشہ میرے قریب بیٹھتے تھے، لیکن آج ۔۔۔۔۔۔! میرے اندر سوالات اور خدشات کا جھکّڑ چلنے لگا اور پھر وہی ہُوا ، میرے خدشات بابا کے جلال کی صورت میرے سامنے تھے۔
ہاں تو تم خود کو بہت عقل مند سمجھتے ہو ؟ بابا کا سوال میرے سامنے تھا، میں سر جھکائے بیٹھا تھا، کیا جواب تھا میرے پاس اس سوال کا۔ بولو! تم خودسر نہیں ہوسکتے سمجھے تم! آج تم نے حنیف کے ساتھ جانے سے انکار کیوں کیا بتاؤ، کل تم حنیف کے ساتھ نہیں میرے ساتھ جاؤ گے۔ بابا یہ کہہ کر چلے گئے اور فقیر سوچنے لگا کہ اس کی کون سی بات بابا کو ناگوار گزری۔ پھر اندھیرے کو روشنی نے پسپا کر ڈالا اور چڑھا نیا سویرا۔ یہ تاریکی اور نُور کی کش مکش ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، سب فنا کے لیے ہے، نابُود ہوجائے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔
میں بابا کے ساتھ روانہ ہوا۔ حنیف بھائی نے کچھ معلوم ہی نہیں کیا کہ میں کیوں بابا کے ساتھ جارہا ہوں۔ بابا ایک نئے راستے کو اختیار کیے ہوئے تھے، اور پھر وہ ایک لوہار جس کے سامنے دہکتی ہوئی بَھٹّی میں چند سلاخیں سُرخ ہو رہی تھیں اور وہ بُھجَنگ ایک کو سان پر رکھے اپنے ہتھوڑے کے وار سے کسی کارآمد اوزار میں بدل رہا تھا، کے پاس جا ٹھہر ے۔ وہ بابا کو دیکھتے ہی بابا کی سمت دوڑا، کیسے زحمت فرمائی حضور، حکم دیا ہوتا تو بندہ خود قدم بوسی کے لیے حاضر ہوجاتا۔ بابا نے بہت پیار سے اسے سینے سے لگایا اور اس کی پیشانی اُن کے بوسے کی سعادت سے پُرنور ہوئی۔
حکم کیجیے حضور بندہ تابعدار ہے آپ کا! کہہ کر وہ اپنا سر جھکا کر کھڑا ہوگیا، پھر بابا کے بیٹھنے کے بعد اس نے کائی زدہ گھڑے سے پیتل کے گلاس میں بابا کو پانی پیش کیا۔ واہ سبحان اﷲ بھئی! تمہاری طرح تمہارے گھڑے کا پانی بھی جاں فزا اور راحت بخش ہے، بابا کی یہ بات سُن کر وہ بولا: حضور بس آپ کی نظر کرم ہے، اﷲ تعالی کا احسان عظیم ہے حضور! اپنی نظر کرم میں رکھیے گا اس بندے کو۔ فقیر حیرت سے یہ سب سُن اور دیکھ رہا تھا اور اس لوہار کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بابا سے مخاطب ہوا: حکم کیجیے حضور! یہ بچہ ہے میرا، اسے زنجیر پہنانی ہے۔
بولتا بہت ہے پگلا، بابا نے اسے میرے متعلق بتایا۔ اچھا جی حضور! کہہ کر اس نے ایک موٹی آہنی زنجیر نکالی اور پھر مجھے اپنے پاس بٹھا کر میری کلائیوں اور پاؤں کے سائز کا کاٹا اور پھر میری دونوں کلائیوں اور پاؤں میں پہنا کر ایک فقیر کے گلے میں بھی ہار کی طرح ڈال دی، فقیر سر جھکائے ہوئے تھا تو بابا کی آواز آئی: اصل میں تو اس کے منہ کو تالا لگانا تھا لیکن چلو اس سے بھی کام چل جائے گا، دعا کرنا میرے بچے کے لیے اور یہ لو اپنی اُجرت، رب تعالٰی تمہیں حلال اور آسان رزق کثیر عطا فرمائے، کہتے ہوئے بابا نے اسے کچھ پیسے دیے اور ہم اس سے رخصت ہونے لگے۔ اب ایک نیا منظر تھا، ویسے تو میں آزاد تھا، مجھے چلنے پھرنے میں کوئی دقت نہیں تھی لیکن مجھے علامتی طور پر قید کردیا گیاتھا۔
میری دونوں کلائیوں، پاؤں اور گلے میں لوہے کی موٹی زنجیر تھی، پھر بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے جوتے بھی اس لوہار کے حوالے کردوں، سو میں نے حکم کی تعمیل کی۔ راستے میں بابا نے کوئی بات نہیں کی تھی اور پھر ہم اپنی آرا مشین پر تھے۔ سب نے مجھے ایک نظر دیکھا بس، جی! حنیف بھائی نے بھی، فقیر بے نوا تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میری یہ حالت دیکھ کر بابا سے الجھ جائیں گے لیکن انہوں نے تو سرے سے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا، اب میں اپنی زنجیر کو بُھول کر حنیف بھائی کے رویے پر سوچنے لگا کہ وہ آخر کیسے انسان ہیں، نہ جانے کیسے۔ جی کچھ دن بعد میں پابرہنہ اور پابند زنجیر رہنے کا عادی ہوچکا تھا۔ مجھے وہ دن بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب میں اور بابا ایک اور بابا کے حضور حاضری کے لیے گئے تھے۔
تب بابا ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے اور وہ انہیں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: اس کی زبان کو بند کرنے کا کچھ اور بھی سوچنا، بہت بھونکتا ہے یہ، لاکھ سمجھایا گیا ہے کہ تخلیے کی بات عام محفل میں مت پوچھو، لیکن باز ہی نہیں آیا ناں۔ اور بابا نے دھیمی آواز میں ان سے فرمایا تھا: حضور اب تو اتنا نہیں بولتا، اب بتائیے کہ اب اگر یہ بالکل ہی خاموش ہوجائے تو کیا میں جی پاؤں گا۔ بابا کی بات سن کر وہ مسکرائے تھے اور کہا تھا: ہاں یہ تو ہے، یہ اگر بالکل ہی بولنا بند کردے تو کیسے جییں گے پھر ہم۔ مالک ان سب کے درجات کو بلند تر کرتا چلا جائے، وہ سب مقرب اور بے ریا بندگان خدائے بزرگ و برتر تھے۔ ایسا انہوں نے کیوں کیا تھا ؟ یہ راز فقیر پر بہت عرصے بعد کھلا تھا، جی پابرہنہ رہنے سے ہی فقیر زمین سے پوری طرح ہم آہنگ ہوا تھا۔
رب تعالٰی نے توفیق عطا فرمائی تو فقیر اس رمز کو عیاں کرنے کی سعی کرے گا اور وہ لوہار کون تھے، کیا تھے، یہ بھی۔ اب بھی جب کبھی سوچتا ہوں تو اُن کی محبّت و شفقت آنکھوں سے آنسو بن کر دامن کو تر کر دیتی ہے۔ جی پابرہنہ تو رہا فقیر! لیکن کیا اس سُکون و قرار و لذّت کا اعتراف نہ کرے کہ جب رات کو سوتے وقت بابا جی حضور خود اپنے دست مبارک سے فقیر جیسے عاصی و کم ظرف و عامی کے پاؤں دُھلاتے تھے، پھر سُوئی کی نوک سے ان خار کو نکالتے تھے جو دن بھر چلتے پھرتے پاؤں میں پیوست ہوجاتے تھے اور پھر سرسوں کے تیل سے مساج کیا کرتے تھے، فقیر قطعاً اس کا حق دار نہیں تھا، نہیں بالکل بھی نہیں لیکن بابا کی کرم نوازی، ایثار، اعلٰی ظرفی، خلوص اور محبت تھی کہ فقیر جس سے سُکون و قرار پایا، سیکھا اور اب تک اس سے فیض اٹھارہا ہے۔ مالک کائنات انہیں اس کا بدل و صلہ عنایت فرمائے۔
زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی، آرا مشین ویسے ہی چلتی رہی، اس پر درختوں کو چِیر کر شہتیر بنایا جاتا رہا، ہر طرف لکڑی کا بُرادہ اُڑتا رہا، جو وہاں کے ہر مزدود کے چہرے اور جسم کا غازہ بنتا رہا اور اس کی ایک مخصوص خوش بُو آس پاس رچی بسی رہی، جیون تھا کہ رواں رہا۔ ہم سب مزدور تھے تو محنت ہماری جاگیر تھی، ہمارا ایک ہم جولی درمیان میں پکارتا رہتا: '' کر مزدوری تے کھا چُوری'' گرمی تو پھر گرم تھی ہم سب تو سردی میں پسینے میں نہاتے تھے، واہ جی! وہ بھی کیا سہانے دن تھے۔
حنیف بھائی اسی طرح درخت کے تنے کو تنہا ہی اٹھاتے تھے، رب تعالٰی نے انہیں بہت قوی بنایا تھا، زباں بندی کے بعد فقیر حنیف بھائی کے ساتھ ہی کام پر جاتا اور ان کے ساتھ ہی واپسی ہوتی، ان کی سائیکل وہی ہوا میں اڑتی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب فقیر ان سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا، ان کی سُن کر مسکراتا اور کبھی ہنس دیتا تھا، وہ مجھے بولنے پر اکساتے تھے لیکن مجھے حکم تھا کہ اپنی زبان بند رکھوں، اب فقیر نے اپنی آنکھیں اور کان کھلی اور زبان بند رکھنے کی اپنی سی سعی کرنا شروع کی تھی، سمے اڑتا رہا اور ساتھ میں ہم بھی۔ بابا فقیر کا پہلے سے زیادہ خیال رکھتے تھے، بل کہ ایسا کہ فقیر کو کہنے دیجیے جیسا ایک ماں اپنے معصوم بچے کا رکھتی ہے، کیوں ۔۔۔۔۔۔ ؟ یہ تو بعد کے حالات و واقعات نے بتایا کہ بابا جی حضور ایسے کیوں ہوگئے تھے، اور پھر وہ دن بھی طلوع ہوا جب میں اور بابا دوبارہ اسلام آباد جانے کے لیے ویگن میں سوار تھے۔