ڈراؤنے خواب اور ڈراؤنی کہانیاں
کم و بیش یہ ہی کہانی دنیا کے ہر بچے کی کہانی ہوتی ہے بس نام ، رنگ ، لباس مختلف ہوتے ہیں۔
بچپن میں ہم سب کی اپنی اپنی دنیا ہوا کرتی تھی، وہ دنیا ہماری جاگیر ہوتی تھی جس میں ہم اپنے علاوہ کسی اورکوگھسنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس دنیا کے خالق ہم خود ہوتے تھے، اس دنیا میں ہر چیز ہماری مرضی اور خواہش کے مطابق ہوتی تھی، ہماری اپنی کہانیاں ہوتی تھیں، اپنے خواب ہوتے تھے اس دنیا میں سارے فیصلے ہم خودکیا کرتے تھے۔
کم و بیش یہ ہی کہانی دنیا کے ہر بچے کی کہانی ہوتی ہے بس نام ، رنگ ، لباس مختلف ہوتے ہیں پھر آگے چل کر ہم سب اس دنیا کو چھوڑکر اس دنیا میں اپنے خوابوں اورکہانیوں کے ساتھ آبستے ہیں لیکن بہت سے لوگ اس دنیا میں آ کر کبھی خوش نہیں رہتے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس دنیا میں تو خوش رہتے ہیں لیکن اس دنیا میں رہ کر آخر وہ خو ش کیوں نہیں رہتے ہیں ۔
آئیں ! اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں، اگر بچپن کے سارے خواب ساری کہانیاں اس دنیا میں پوری ہونے کے بجائے وہ سب ڈرائونے خواب اور ڈروانی کہانیوں میں تبدیل ہوجائیں جہاں ہر خواہش ان کی قاتل بن جائے تو ظاہر ہے وہ شخص اس دنیا میں کیسے خوش رہے گا وہ تو واپس اسی دنیا میں جا کر بس جائے گا جہاں اسے سکون مل رہا ہوتا ہے، اس کی ہر خواہش پوری ہورہی ہوتی ہے، اس کا ہر خواب پورا ہو رہا ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں ہوتا یہ ہے کہ ایسا انسان ڈان کہوٹے بن جاتا ہے۔ آپ سے اگر یہ کہاجائے کہ آپ بھی ڈان کہوٹے بن چکے ہیں تو یہ سنتے ہی آپ کا سوال ہوگا کہ ڈان کہوٹے کون ہے۔ اس لیے پہلے ہم آپ کا ڈان کہوٹے سے تعارف کرواتے ہیں۔
عالمی ادب میں ایک ناول ایسا ہے کہ دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ عالمگیر مقبولیت حاصل کرنیوالے اس ناول کا نام ڈان کہوٹے ہے جسے چار صدیاں قبل اسپین کے مشہور شاعر، ڈرامہ نویس سر وانیٹز نے لکھا تھا۔ ڈان کہوٹے ایک پختہ عمرکا معصوم آدمی ہو جوکوئی کام نہیں کرتا بس گھر میں بیٹھا شجاعت ، بہادری اور جنگ وجدل کے ناول پڑھتا رہتا ہے۔
گائوں میں اس نے بہت سے لوگوں کا قرض ادا کرنا ہے وہ خیالات میں ڈوبا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ کیوں نہ وہ بھی کسی ملک پر حملہ کرکے بادشاہ بن جائے۔ چنانچہ وہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے اسے خیال آتا ہے کہ فوجی سردارکے پاس ایک گھوڑا ہوتا ہے وہ گائوں کا مریل ،کمزور اور نحیف سا گھوڑا حاصل کرتا ہے گھر میں ایک زنگ آلود تلوار اور ڈھال پڑی تھی اسے صاف کرتا ہے، ایک نیزے کا انتظام کرتا ہے، اس نے پڑھا تھا کہ ہر فوجی سردار کا ایک معاون ہوتا ہے وہ گائوں کے چوکیدار سانچو پانزا کو مہم پر چلنے کے لیے اس بات پر راضی کر لیتا تھا کہ فتح کے بعد وہ اسے گورنر بنا دے گا، وہ مہم پر جانے کے لیے رات کا وقت مقررکرتا ہے دن میں اس لیے روانہ نہیں ہوتا کہ کہیں قرض لینے والے اسے پکڑ نہ لیں۔
سانچو پانزا کے لیے گائوں کا ایک گدھا چرا لیا جاتا ہے، مہم پر جانے سے پہلے اسے خیال آتا ہے کہ ہر سردارکی ایک محبوبہ بھی ہوتی ہے، اس کے لیے گائوں کی بد صورت لڑکی الڈونزکا انتخاب کرکے اس سے وعدہ کرتا ہے کہ جو ں ہی وہ پہلا ملک فتح کرے گا ، اسے ملکہ بنا دے گا۔ ڈان کہوٹے اپنے مریل گھوڑے پر اور اس کا معاون گدھے پر جا رہے ہیں وہ صبح کے وقت ایک ایسے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں ، جہاں انھیں تیس چالیس ہوائی چکیاں نظر آتی ہیں۔ ڈان کہوٹے انھیں دیکھ کرکہتا ہے مبارک ہو، دیکھو ہمارے سامنے تیس چالیس جن کھڑے ہیں۔
سانچو پانزا حیران ہوکرکہتا ہے '' آقا کون سے جن '' ''وہ سامنے جن کے ہاتھ کئی کئی میل لمبے ہیں'' ڈان کہوٹے نے جواب دیا۔ سانچو نے کہا ''جنھیں آپ جن سمجھ رہے ہیں وہ جن نہیں ہوائی چکیاں ہیں'' ڈان کہوٹے نے اعتماد سے کہا '' ظاہر ہوگیا کہ تمہیں کوئی جنگی تجربہ نہیں بے وقوف یہ پن چکیاں نہیں جن ہیں، اگر تم خوفزدہ ہوتو پیچھے جا کر دعا کرو میں ان بد روحوں کو جاکر مزہ چکھاتا ہوں '' پھر ڈان کہوٹے نے نیزہ بلند کرکے ہوائی چکیوں پر حملہ کردیا ، ہوا تیز تھی چکیوں کے پنکھوں نے اس کوگھوڑ ے سمیت اٹھا کر پھینک دیا۔
دونوں زمین پر زخمی پڑے تھے، سانچو سنبھالتا اورکہتا ہے کہ ''میں نے آپ کو سمجھایا تھا '' ڈان کہوٹے زخموں کی تکلیف کے با وجود مسکرا کر کہتا ہے ''یہ جنگ کی چالیں ہیں وہ ہی بلا جس نے تیرا گھر اور میری کتابیں برباد کی ہیں، اسی بلانے ان جنوں کو ہوائی چکیوں میں تبدیل کر دیا ہے یہ بلائیں اور برائیاں میری تلوار سے نہیں بچ سکتیں '' سانچو اپنے زخمی آقا کو لے کر واپس گائوں جاتا ہے۔ آقا کی خیالی دنیا اسی طرح آباد ہے وہ گائوں کے لوگوں میں چند کو ڈیوک اور نائٹ سمجھ کر لڑائی کرتا ہے اور زخمی ہوتا ہے، اس کی آخری لڑائی پڑوسی سے ہوتی ہے اس جنگ میں وہ شدید زخمی ہوتا ہے ، بیمار پڑجاتا ہے اور مرجاتا ہے۔
دستویفسکی نے اس ناول کو انسانی فکرکا اعلیٰ ترین کا رنامہ قرار دیا۔ ہر شخص جو حالات ، مسائل اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ ڈان کہوٹے ہی ہوتا ہے۔ آپ کا نام کچھ بھی ہو لیکن اصل میں آپ ڈان کہوٹے ہی ہوتے ہیں اور ڈان کہوٹے کو تصوراتی دنیا میں رہ کر سکون اور تسکین ملتی ہے۔
یہ ہم سب کا المیہ ہے کیونکہ سماج کی بد ترین شکل یہ ہوتی ہے کہ اس میں رہنے والے انسان کے اندرکوئی دوسرے انسان سانس لینا شروع کر دے، ان کے بجائے کوئی دوسرا انسان جینا شروع کر دے ، شکل تو ہماری ہو لیکن دکھائی کوئی دوسرا دے رہا ہوں۔ آج پاکستان کی یہ ہی بد ترین شکل ہوچکی ہے جہاں ہر شخص دوسرے کی زندگی جی رہا ہے ہر شخص تصوراتی اور بچپن کی دنیا میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہے تلا ش کر رہا ہے ہم روز ملتے تو اپنے آپ سے ہیں لیکن ملاقات کسی اور سے ہوتی ہے اسی لیے توکہتے ہیں کہ اس سماج کو آگ لگا دینی چاہیے۔
اس لیے کہ ہم نے صرف انسانوں کو زندہ درگورکرنے کا کارنامہ سر انجام نہیں دیا ہے بلکہ انھیں مرنے کے بعد بھی سزا میں مبتلا رکھا ہوا ہے ۔ آپ ہی بتائیں کہ ان 73 سالوں میں کتنے انسان سکون سے جئے اور سکون سے مرے ہیں کیا آپ کو یقین ہے کہ و ہ سب اپنی اپنی قبروں میں سکون سے سو رہے ہیں۔ ظاہر ہے جو انسان وقت سے پہلے مار دیے گئے جنہوں نے ساری زندگی بے چینی میں گذاری روز مرتے اور روز زندہ ہوتے گذاری وہ اپنی قبروں میں سکون سے کیسے سو رہے ہونگے۔ آج پاکستان میں جس تعداد میں قبریں بے چین ہیں اتنی بے چین قبریں تو صومالیہ میں نہیں ہوں گی۔
دنیا بھرکے فلسفیوں ، دانشوروں ، نفسیات دانوں کو بلوا کر انھیں پاکستان میں ایک عام آدمی کی زندگی کس طرح گذار رہی ہے، ساری تفصیل بتادو پھر ان سب سے یہ سوال کر ڈالو کہ ایسا انسان جو ان حالات اس ماحول میں اپنی ساری زندگی گذارے جو وقت سے پہلے مار دیاجائے،کیا وہ چین سے اپنی قبر میں سو سکتا ہے۔ کیا چین سے جی سکتا ہے۔ پھر وہ ڈان کہوٹے نہیں بنے گا تو پھرکیا بنے گا۔