ورکنگ مدرز بھی قابل فخر ہیں

ملازمت کے دوران کولیگز اور افسران بالا سب کی منفی باتوں کو برداشت کرنے سے زیادہ نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیے


راضیہ سید November 08, 2019
ورکنگ مدرز بہت سے محاذوں پر اکیلی لڑ رہی ہوتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زندگی حاصل اور لاحاصل، تمام اور ناتمام کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جہاں لہجوں کی تلخیاں بھی ہیں اور رویوں کی مہک بھی۔ جہاں کوئی سب کچھ پا کر بھی تہی داماں رہ جاتا ہے اور کبھی کسی کی جستجو ہی مکمل نہیں ہوپاتی۔

ہماری کائنات افراد کے باہمی اشتراک سے عبارت ہے، جہاں طنز کرنے والے افراد بھی ملیں گے اور آپ کو تھپکی دے کر حوصلہ بڑھانے والے بھی۔ تاہم یہ بات حتمی ہے کہ حوصلہ شکنی کرنے اور منفی رویوں کے حامل افراد کا آپ کی زندگی میں گزر زیادہ ہوگا۔ اس لیے کہ لوگوں کو ہمیشہ سے ہی کوئی ایسا موضوع چاہیے ہوتا ہے جس پروہ چٹ پٹا تبصرہ کرکے اپنی تفریح طبع کا سامان مہیا کرسکیں، تاہم یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذاق کا تعلق ان سے نہیں بلکہ دوسرے افراد سے ہونا چاہیے۔

زندگی میں'' لیٹ اِٹ گو'' کو اپنا ایک ٹھوس اصول بنالیجیے، یعنی ''جانے دو''۔ اس طرح بڑی سے بڑی بات بھی آپ پر اثر نہیں کرتی اور آپ کبھی خوشیوں سے منہ نہیں موڑتے۔ آپ کی حقیقی تعریف آپ کے جیتے جی نہیں ہوسکتی، البتہ مرنے کے بعد آپ کو ایک یادگار مثبت شخصیت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

آج کل پانچ سال کے بچے سے لے کر پچاس سال کے بزرگ تک سب ہی پر تنقید کی جاتی ہے، کیونکہ یہ ایک مفت اور آسان مشغلہ ہے، اس لیے ورکنگ مدرز بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔

شادی کے وقت لڑکوں اور ان کی ماؤں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاشی طور پر بیٹے کا ہاتھ بٹانے والی کوئی آئے اور جب آجائے تو پھر اس کے سو ہاتھ ہوں، دفتر بھی جائے، بچے بھی پیدا کرے، ان کی دیکھ بھال بھی کرے، خاندان میں تعلقات بھی نبھائے اور ایک مشین بن جائے۔

اس صورتحال کی وجہ سے سب تو نہیں لیکن زیادہ تر ورکنگ مدرز کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں گھر سے ہی اعتماد نہیں ملتا، کبھی مردوں کے ساتھ کام کرنے اور ٹھٹھے لگانے کے طعنے ملتے ہیں تو کبھی بچوں کے نظر انداز ہونے کے بارے میں سننا پڑتا ہے۔ کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ گھر کا کام نہیں کرتیں اور شوہر کو بھی توجہ نہیں دی جارہی اور تو اور کئی گھرانوں میں نوکری پیشہ خواتین کے آنے کے بعد مرد حضرات نکمے ہوکر فکر معاش سے بالکل آزاد ہوجاتے ہیں۔

ورکنگ مدرز بہت سے محاذوں پر اکیلی لڑ رہی ہوتی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

لیکن ایسی خواتین کو اپنا حوصلہ اور ہمت خود بننا ہوتا ہے۔ ان خواتین کو یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنے اور اپنے گھر والوں خاص طور پر بچوں کا کفیل بنایا ہے اور جو بھی ان کے بچوں کی ضروریات یا خواہشات ہیں وہ اس نوکری کی بدولت ہی پوری ہوسکتی ہیں۔

سو اگر آپ ورکنگ مدر ہیں تو آپ کو ڈے کیئر سینٹرز پر بھی اعتماد ہونا چاہیے۔ بے شک یہ ماں کی محبت کا نعم البدل نہیں لیکن وہاں اور بھی بچے ہوتے ہیں جن میں رہ کر آپ کے بچے ڈسپلن سیکھ لیتے ہیں۔ ڈے کیئر سینٹرز کے بارے میں پوری طرح معلومات حاصل کیجیے، پورے اطمینان کے بعد بچوں کو وہاں چھوڑیں اور وقتاً فوقتاً وہاں کا چکر بھی لگا لیجیے۔ اسی طرح اگر آپ جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں تو بچوں کی دیکھ بھال کےلیے اپنی والدہ یا ساس اور نندوں پر بھروسہ کرنا اچھا ثابت ہوگا۔

ملازمت کے دوران کولیگز اور افسران بالا سب کی منفی باتوں کو برداشت کرنے سے زیادہ نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیے۔ گھر کے مسائل کو گھر پر ہی حل کیجیے، انہیں عوامی موضوع مت بنائیے تاکہ کبھی بھی کوئی آپ کو بلیک میل نہ کرسکے۔

اور سب سے آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ کام کی مصروفیت میں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز نہ کیجئے۔ اپنے نکھار پر توجہ دیں، باقاعدگی سے پارلر جائیں، بچوں کے ساتھ پکنک پر نکلیں، گھر پر ہوں تو اپنی پسند کے کھانے بنالیں اورانہیں فریز بھی کرلیں تاکہ ملازمت سے واپسی پر آپ کو کھانا پکانے کی زحمت نہ ہو۔ خود کو پرسکون رکھنے کےلیے کوئی بھی تعمیری کام کیجیے، کوئی مشغلہ اپنائیے، چاہے وہ باغبانی ہو یا کتب بینی، کوئی اچھی فلم دیکھنا ہو یا فون پر سہیلیوں سے گفتگو۔ اس لیے کہ زندگی کی خوشیوں پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان لوگوں کا جن کے لیے آپ محنت کررہی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں