مڈل کلاس کی مشکلات اور عمران خان کی حکومت
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مڈل کلاس کیا ہے۔ مڈل کلاس کے بھی تین حصہ ہیں
عمران خان کی ایک سال کی حکومت کے دو بڑے منصوبوں میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں شامل ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ایک سال میں کیا کیا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف لنگر خانے اور پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی۔ یہ درست ہے کہ احساس پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے جس میں غریب لوگوں کے لیے منصوبے سامنے لائے جا رہے ہیں۔
لیکن یہ سب نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہ سب پروگرام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس بھی کوئی نیا پروگرام نہیں ہے۔ یہ بھی پہلے سے چل رہا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی پہلے سے موجود ہے۔ بچوں کو اسکالر شپ دینے کے لیے PEEFاور PM YOUTH PROGRAMبھی پہلے سے موجود تھے۔ اس لیے اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ بیت المال اور زکوۃ کا نظام بھی موجود تھا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مڈل کلاس کیا ہے۔ مڈل کلاس کے بھی تین حصہ ہیں۔ جنھیں عرف عام میں لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کہا جاتا ہے۔ لوئر مڈل کلاس میں شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے چھوٹے ملازمین اور زمیندار شامل ہیں۔ ان میں چھوٹے سرکاری ملازمین اور پرائیوٹ شعبہ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ جن کی تنخواہیں بیس ہزار یا اس سے زائد ہیں۔ ان میں بہت چھوٹے کاروباری لوگ بھی شامل ہیں جن کی اپنے کاروبار سے بیس تیس ہزار کی آمدن ہے۔ یہ خود کو غریب نہیں سمجھتے۔ اس لیے زکوۃ اور بیت المال سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ سطح غربت سے اوپر ہوتے ہیں لیکن ایک مشکل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ا س کے بعد مڈل کلاس آتی ہے۔
یہ درمیانی درجہ کے سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں تیس ہزار سے پچاس ہزار تک کی آمدن کے لوگ شامل ہیں۔ یہ بنیادی مڈل کلاس ہے۔ اس میں پڑھے لوگوں کی اکثریت شامل ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن عمران خان کے ووٹرز کی اکثریت مڈل کلاس ہی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان لوگوں نے عمران خان کو بہت امید سے سپورٹ کیا تھا۔ آج عمران خان کے پہلے سال نے ان کے لیے ہی زندگی تنگ کر دی ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مڈل کلاس ہی کسی بھی ملک اور اس کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کنزیومر اکانومی بھی مڈل کلاس کے ہی سر پر چلتی ہے۔
معیشت کا پہیہ بھی مڈل کلاس سے ہی چلتا ہے۔ جیسے جیسے زندگی مڈل کلاس کے لیے مشکل ہو جاتی ہے ویسے ویسے معیشت کا چلانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ آج یہی صورتحال عمران خان کے لیے بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اپر مڈل کلاس آتی ہے۔ یہ نسبتا خوشحال طبقہ ہوتا ہے۔ جس نے اپنی محنت سے زندگی کی چند آسائشیں خریدی ہوتی ہیں۔ چھوٹی گاڑیوں کے خریدار بھی یہی ہوتے ہیں۔ چھوٹے گھر بھی یہی خریدتے ہیں۔ یہ معاشرہ کی جان ہوتے ہیں۔ ترقی کی نشانی ہوتے ہیں۔ ان کی خوشحالی سب کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔ ان میں درمیانے درجہ کے کاروباری لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ بڑے افسران بھی شامل ہیں۔ حکومت کا پہیہ بھی یہی چلا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن آج مہنگائی نے ان کی زندگی بھی مشکل کر دی ہے۔
عمران خان حکومت کی سب سے بڑی ناکامی مہنگائی ہے۔ بجلی کے بلوں میں کئی سو فیصد اضافہ۔ گیس کے بلوں میں کئی گنا اضافہ۔ اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ۔ مہنگا پٹرول ۔ مہنگا ڈالر۔ اس سب نے ملک کی مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل کر دی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی حکومت کا پہلا سال ملک کی مڈل کلاس کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔
مڈل کلاس کو سمجھیں ۔ یہ نہ غریب ہوتے ہیں نہ امیر ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس سفید پوش لوگ ہوتے ہیں۔ جو اچھی زندگی کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ مڈل کلاس گھر میں ایک اے سی بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے جب حکومت کہتی ہے کہ اس نے تین سو یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائی ہے۔ یہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
ان کے گھر میں اے سی فریج اور دیگر استعمال کی بنیادی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ چاہے انھوں نے یہ چیزیں اپنا پیٹ کاٹ کر کے حاصل کی ہوں۔ چاہے قسطوں میں حاصل کی ہوں۔ لیکن مڈل کلاس کے لیے یہ چیزیں کوئی عیاشی نہیں بلکہ بنیادی ضرور ت ہوتی ہیں۔ اس طرح بجلی کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ نے اس مڈل کلاس کا ماہانہ بجٹ تباہ کر دیا ہے۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ بنیادی ضروریات کی چیزوں فریج اے سی اور ہیٹر کو اب کیسے استعمال کرے۔ شاید عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت ملک کی مڈل کلاس کو پاکستان کا شہری ہی نہیں سمجھتے۔
اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں جس بے دردی سے اضافہ کیا گیا ہے۔ اس نے بھی مڈل کلاس کے لیے علاج معالجہ کی سہولیات کا حصول مشکل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت انصاف ہیلتھ کارڈ تقسیم کر رہی ہے۔ لیکن یہ کارڈ غریب طبقہ میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ مڈل کلاس اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ آپ دیکھیں سرکاری اسپتالوں میں مفت ٹیسٹ کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔
وہاں بھی کہہ دیا گیا ہے کہ یہ سہولت اب صرف غریبوں کے لیے ہوگی۔ مطلب زکوۃ پر حاصل ہو گی۔ جو مڈل کلاس کو حاصل نہیں ہوگی۔سرکاری اسپتالوں میں ہڑتالوں کے بعد ڈاکٹروں نے پرائیوٹ پریکٹس کے ریٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ایک سروے کے مطابق ایک سال میں پرائیوٹ فیس پندرہ سو سے بڑھ کر پچیس سو پر چلی گئی ہے۔کئی ڈاکٹرز تین سے ساڑھے فیس لے رہے ہیں۔ اچھے علاج کی متلاشی مڈل کلاس اس سے سب زیادہ متاثر ہے۔ امیر علاج کے لیے باہر چلا جاتا ہے۔ اور مڈل کلاس کے لیے یہ قابل برداشت نہیں رہا ہے۔
کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی ایسی کوئی چیز نہیں جس کی ایک سال میں قیمت دوگنی سے نہ بڑھ گئی ہو۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے پناہ گاہیں اور لنگر خانے بنائے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مڈل کلاس ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ آجکل بے شک مڈل کلاس کے لیے دو وقت کا کھانا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی کیا حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ملک کی مڈل کلاس کو پناہ گاہوں میں منتقل کرنا چاہتی ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی نے اس مڈل کلاس کو خون کے آنسو رلا دیا ہے۔ لیکن حکومت کو سمجھ ہی نہیں آرہی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ غریب کے بچے کو اسکالر شپ دیں گے۔
لیکن یہ نہیں سمجھ رہے کہ اس مڈل کلاس کے لیے بچوں کو پڑھانا عملی طور پر نا ممکن ہوگیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور مڈل کلاس کے بچے یہ لکھ کر بھی نہیں دے سکتے کہ ہمارے والد غریب ہیں اس لیے ہم فیس نہیں دے سکتے۔ حکومت کیا چاہتی ہے کہ مڈل کلاس فریج اے سی جیسی سہولیات کو خیر باد کہہ کر واپس پنکھے کی زندگی میں چلی جائے۔ موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیوں کو چھوڑ کر واپس سائیکل پر چلی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو چھوڑ کر پیدل چلنا شرع کر دے۔
مولانا کا دھرنا عمران خان کے لیے خطرناک ہے۔ لیکن اس سے زیادہ خطرناک مڈل کلاس کے لیے زندگی کا مشکل ہو جانا ہے۔ کون عمران خان کو سمجھائے کہ وہ اپنا ووٹ بینک کھو رہے ہیں۔ ان کا ووٹر ان سے ناامید ہو رہا ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ یہ پناہ گاہیں اور لنگر خانہ ان کے ووٹر کے لیے نہیں ہیں۔ وہ قوم کو کیا بنانا چاہ رہے ہیں۔ حکومت کو جہاں اس مارچ کو ناکام بنانا ہے لیکن ساتھ ساتھ مہنگائی کو کم کرنا ہوگا۔ مڈل کلاس کے لیے زندگی آسان کرنا ہوگی۔ ورنہ عمران خان کو زیادہ خوفناک سیاسی نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے۔