اسرائیلی پارلیمینٹ۔۔۔۔سازشوں کا مرکز

یروشلم کے علاقے جیوات رام میں قائم اسرائیلی پارلیمنٹ تمام قوانین کی منظور دیتی ہے


آصف زیدی October 20, 2013
اسرائیلی پارلیمنٹ مسلم دنیا میں انتشار پھیلانے اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو باہمی تنازعات میں الجھانے کی کوشش کرتی ہے ۔فوٹو : فائل

یوں تو عالم اسلام کو ہمیشہ سے دشمنوں کی سازشوں اور مکاریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، شراربولہبی کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ کسی طرح چراغ مصطفوی کو بجھادے۔

یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کے دشمن اور مسلمانوں سے بغض و تعصب کی بیماری لے کر جنم لینے والا ہر فرد اپنی اپنی سطح پر یہی کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اسلامی دنیا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے، انھیں تکالیف دے اور جہاں بات حیلوں بہانوں سے نہ بنے وہاں طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو جھکایا جائے۔

ویسے تو دنیا بھر میں اسلام مخالف عناصر کی بہتات ہے، ہر کوئی اپنے طریقے اور انداز سے مسلمانوں کے خلاف کام کررہا ہے۔ ان میں بڑے بڑے ممالک بھی شامل ہیں، افواج بھی سرگرم ہیں، اور مختلف روپ اختیار کیے ہوئے ادارے بھی مسلم دنیا کیخلاف اپنا کام کررہے ہیں لیکن ان سب میں سب سے بڑی اور مکروہ برائی اسرائیلی پارلیمنٹ کی صورت میں عالم اسلام کے خلاف مسلسل سازشوں کے جال بچھاتی نظر آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا مرکز ہے اور اس کے تقریباً ہر رکن کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اپنے کردار و عمل سے نہ صرف فلسطینیوں بل کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف اپنی ازلی دشمنی کا ثبوت دے۔

زیر نظر مضمون میں ہم اسرائیلی پارلیمان کے حوالے سے کچھ حقائق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کا نام Knesset ہے، لیکن جس طرح اسرائیل مسلمانوں سمیت دنیا کے ہر منصف مزاج انسان کے نزدیک ناجائز ریاست ہے، اسی طرح کنیسٹ بھی اپنے ناجائز اور من مانے اقدامات اور فیصلوں کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے بدنام زمانہ ادارے کی شکل میں موجود ہے۔ یروشلم کے علاقے میں جیوات رام Givat Ram میں قائم اسرائیلی پارلیمنٹ تمام قوانین کی منظور دیتی ہے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب اسی کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ یہی پارلیمنٹ صدر اور حکومت کی برطرفی کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو Knesset (کنیسٹ) تحلیل کرنے کا اختیار ہے، لیکن اسمبلی توڑے جانے کے بعد بھی انتخابی مرحلے اور نئی اسمبلی وجود میں آنے تک اس کے ارکان فعال رہتے ہیں۔ امور ریاست کی نگرانی بھی اسی پارلیمنٹ کے ارکان کا کام ہے جسے وہ مسلمان دشمنی کے رنگ میں رنگ کر انجام دینا اپنا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو اسرائیلی پارلیمنٹ کے120ارکان پر مشتمل ہے، لیکن یہ لوگ ہی دنیا بھر کے مسلمانوں خاص طور پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے نت نئے طریقوں کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، پارلیمنٹ کی مدت 4 سال ہوتی ہے۔ کنیسٹ کے حوالے سے اسرائیلی قوانین کچھ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ کسی بھی جماعت کے لیے اکیلے حکومت بنانا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی اکیلی سیاسی پارٹی نے انتخابات میں 61 نشستیں نہیں جیتیں کہ وہ اکیلے حکومت بناسکے۔ 1969میں مختلف پارٹیوں کے اتحاد و انضمام کی وجہ سے جو انتخابی اتحاد سامنے آیا۔ اس نے 56نشستیں جیتی تھیں۔ آج تک کی ہر اسرائیلی حکومت ایک یا دو یا اس سے زیادہ جماعتوں کے اتحاد و اشتراک پر مشتمل ہوتی ہے۔

اسرائیلی سیاسی جماعتوں میں لیکود پارٹی، یعش عتید (Yesh Atid)، لیبر پارٹی، جیوش ہوم، شعص(Shas)، یونائیٹڈ توا جوداازم (united Torah Jodaism)، یونائیٹڈ عرب لسٹ، حداش(Hadash)، قدیمہ (Qadima)، ام شالم ، آل یاروک (Ale Yarok)، دی گرینز اینڈ دی یوتھ اور دیگر بہت سی پارٹیاں ہیں جو اپنے اپنے علاقوں اور قومی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، لیکن یہ بات اہم ہے کہ سب کی اولین ترجیح یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا جائے۔

پہلی اسرائیلی اسمبلی کے انتخابات 25جنوری 1949 کو منعقد ہوئے، جب کہ کنیسٹ کا پہلا اجلاس 14فروری 1949کو ہوا، موجودہ کنیسٹ اسرائیلی تاریخ کی 19ویں پارلیمنٹ ہے جو 22جنوری 2013کو وجود میں آئی۔

اسرائیل کی سیاست پر صہیونی ذہنیت کا قبضہ ہے۔ تاہم اس میں بھی 3 بڑے گروپ ہیں ، ان میں سوشل ڈیموکریٹ اور کنزرویٹو بڑے گروپ ہیں، جب کہ تیسرا گروپ مذہبی لیڈروں کا ہے، لیکن یہ سب ہی خود کو سب سے اہم اور سب سے زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی سیاست کے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے 1969تا1974وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے گولڈا مئیر نے ایک بار طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ''اسرائیل میں 3 لاکھ وزیراعظم ہیں۔'' 1948 سے1977تک اسرائیل میں وجود میں آنے والی تمام حکومتی اتحادیوں کی تھیں۔ اس کے بعد لیکود پارٹی برسراقتدار آئی جس نے مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کی۔

اسرائیل کے زبردستی قیام کے بعد صدر کے انتخاب سے قبل صہیونی ریاست میں ملکی نظام و نسق چلانے کیے لیے چیئرمین مقرر کیے گئے، یہ ذمے داری 1948اور 1949 میں سیاسی جماعت ماپائی (mapai) کے ڈیوڈ بین گورین(David Ben-Gurion) اور ان کے بعد شائم وائز مین (Chaim Weizmann) نے سنبھالی۔ شائم وائز مین ہی 1951 میں پہلے اسرائیلی صدر بنے، ان کے بعد یتزا بین زوی(Yitzhak Ben-Zvi)، زلمان شازر (Zalman Shazar)، افراہیم کتزیر(Ifrahim Katzir)، یتزاک ناوون(Yitzahk Navon)، شائم ہیرزوگ (Chaim Hezrog)، ایزر وائزمین (Ezer Weizman)، موشے کاتسو(Moshe Katsav) صدر بنے۔ 2007 سے اسرائیل کے صدر شمعون پیریز ہیں جو مجموعی طور پر 9ویں اسرائیلی صدر ہیں۔

اسرائیلی وزرائے اعظم میں ڈیوڈ بن گورین کا آتا ہے، جو 1948سے1954تک پہلے اسرائیلی وزیر اعظم رہے۔ انھوں نے مختلف مدتوں کے لیے کئی بار وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ ڈیوڈبن گورین کے بعد موشے شاریت (Moshe Sharett)، لیوی اشکول(Levi Eshkol)، یگال ایلن (Yigal Allon)، گولڈا مائر، آئزک (اسحٰق) رابن، مینے چم بیگن (Menachem Begin)، آئزک شمیر(Yitzhak Shamir)، شمعون پیریز، بینجمن (بن یامین) نیتن یاہو، ایہود بارک، ایریل شیرون، ایہود اولمرٹ، اسرائیلی وزیراعظم بنے۔ آئزک رابن، آئزک شمیر اور شمعون پیریز کئی بار وزیر اعظم بنے، جب کہ نیتن یاہو موجودہ وزیر اعظم کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

فلسطینیوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھنے کی مہم ہو یا ظلم و زیادتی اور انسانیت سوز اقدامات کے ذریعے سچائی چھپائے کی کوشش، ہر مرحلے میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان نے ثابت کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی بالخصوص اور عالم اسلام کی بالعموم ازلی دشمن ہے۔ اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ کا بس چلے تو وہ مسلمانوں کے سانس لینے پر بھی پابندی عاید کردے۔ مختلف ادوار میں مختلف عرصے کے لیے اقتدار میں آنے والے اسرائیلی صدور اور وزرائے اعظم نے فلسطین دشمنی اور اسلام کے خلاف بغض و تعصب کو ہمیشہ اپنا نصب العین سمجھا ہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف سراپا احتجاج فلسطینیوں پر ظلم و بربریت ہو یا امریکی ہدایت پر دیگر صاف گو ممالک کے خلاف ہرزہ سرائی، اسرائیلی حکومت اور صہیونی پارلیمنٹ نے ہمیشہ جھوٹ کو سچ منوانے کی سعی لاحاصل کی ہے۔

فلسطینی سرزمین پر قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، لاکھوں زخمی ہوئے ہیں اور بے گھری کا عذاب سہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی فلسطینیوں کا عزم و حوصلہ پہاڑوں کی طرح مضبوط اور بلند ہے، ہر طرح کے مظالم کرکے بھی اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو شکست دینے کا خواب ہی دیکھ رہی ہے، ایسا خواب جو کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔

تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے بھی اپنے اجلاسوں میں کبھی بھی اسرائیلی مظالم اور حکومتوں کے مسلم دشمن اقدامات کی مخالفت نہیں کی، بل کہ اسرائیلی اراکین پارلیمان نے مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں پر کیے گئے ہر ظلم و ستم کو سراہا، کیوںکہ شاید یہی وہ بات ہے جو ہر اسرائیلی کی زندگی کا محور و مقصد ہے۔ صہیونی ذہنیت کبھی نہیں چاہتی کہ فلسطینی باشندوں کو ان کے جائز حقوق ملیں اور دنیا بھر کے مسلمان امن و آشتی کے ساتھ وقت گزارسکیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیلی قانون سازوں نے صرف فلسطینیوں کے خلاف ہی کام نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ ایسے طریقے اختیار کرتے رہے ہیں جن کے ذریعے فلسطینیوں، ان کے حامی ممالک اور صہیونی مظالم پر دنیا بھر میں آواز اٹھانے والی ریاستوں کے خلاف سازشیں کی جائیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کو اگر سازشیوں، منافقوں اور اسلام دشمن عناصر کا اڈہ کہا جائے تو یہ بھی اس کا واضح تعارف ہوگا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے درودیوار گواہ ہیں کہ اسرائیلی ارکان اسمبلی نے صرف اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہزاروں زندگیوں سے کھیلنے کو بھی ایک کھیل ہی سمجھا ہے۔ فلسطینیوں کے کیمپوں پر بم باری ہویا نہتے شہریوں پر جدید اسلحے سے فائرنگ و گولہ باری، بیت المقدس پر ناپاک اسرائیلی قبضے کی سازش ہو یا فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری کا منصوبہ، ہر معاملے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے حکومتی اقدامات کی نہ صرف توثیق کی بلکہ فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی ہر بار اسرائیلی پارلیمنٹ کے خود غرض ارکان نے اپنے حکمرانوں کی پذیرائی کی۔

بقول شاعر
؎ تم سے کوئی کیا رکھے، منصفی کی امیدیں
قتل عام کو تم نے حادثہ بنا ڈالا

اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنی فوجوں کی بربریت کو معمول کی کارروائی سمجھ کر کبھی تنقید کے قابل نہیں سمجھا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں عرب اراکین کی بھی کافی تعداد مختلف ادوار میں منتخب ہوتی رہی ہے۔ حنین زوابی (Haneen Zoabi) کنیسٹ کی پہلی عرب خاتون رکن تھیں جو ایک عرب پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی میں پہنچیں۔ رالیب مجادیلے Raleb Majadele اسرائیلی پارلیمنٹ کے پہلے عرب وزیر بنے، 2007سے2009 کے عرصے میں انھوں نے سائنس، کلچر اور اسپورٹس کی وزارتیں سنبھالیں۔ کنیسٹ میں عرب ارکان کی موجودگی بھی اسرائیلیوں کو فلسطین اور اسلام دشمنی سے کبھی نہیں روک سکی، روشن خیال اور اعتدال پسندوں نے اپنی اپنی سطح پر غلط باتوں کی نشان دہی کی لیکن وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیلیوں نے جب چاہا، اپنی مرضی کے قانون بنائے۔ اسرائیلی ارکان اسمبلی نے اپنے اجلاسوں میں ہمیشہ اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ اس طرح کے قوانین بنائے جائیں جن کے ذریعے ایک طرف تو فلسطینیوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ کیا جائے، ساتھ ہی ساتھ اگر کنیسٹ میں کوئی ان کے اقدامات میں رکاوٹ بنے تو اس کو بھی روکا جاسکے۔

اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی 1950میں ہی اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت دنیا بھر میں موجود اسرائیلیوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ 1980میں کنیسٹ نے یروشلم کے حوالے سے قانون کی منظوری دی، جس کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد قوانین اسرائیلی پارلیمنٹ نے بنائے جن کا اصل مقصد صرف اور صرف مسلمانوں اور فلسطینیوں کو تکلیف پہنچانا ہے۔

اپنے قیام سے لے کر آج تک اسرائیلی پارلیمنٹ نے جو کچھ بھی کیا اسے امریکا بہادر کی بھی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ اسرائیل نے ہمیشہ عالمی سسطح پر امریکا کے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی معیشت پر یہودیوں کی بالادستی کی وجہ سے امریکا اسے ناراض کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، دوسری جانب جب اسرائیل امریکا کی ہی زبان بولتا ہے تو مخالفت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے بظاہر تو کئی بار اسرائیلی فیصلوں کی مذمت کی لیکن وہ پس پردہ وہ ہمیشہ سے اسرائیلی قانون سازوں کا حامی رہا ہے۔ دوسری جانب جب ایران اور شام جیسے ممالک اسرائیل کی بدمعاشیوں کو کھلے عام چیلینج کرتے ہیں تو اسرائیل سے زیادہ تکلیف امریکا اور اس کے ہم نواؤں کو ہوتی ہے، ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اسرائیل کی چوہدراہٹ کے آگے ڈٹ جانے والوں کو اچھا سبق سکھائیں۔ واشنگٹن انتظامیہ نے بارہا کوشش کی ہے کہ اسرائیل مخالف ممالک کو طاقت کے زور پر زیر کیا جائے، انھیں معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسیوں ہی نے ہی اسرائیل کو مزید سر اٹھانے کا حوصلہ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا جو قانون سازی خود نہیں کرسکتا وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ذریعے کرادیتا ہے کیوںکہ مقصد تو دونوں کو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو پریشان کیا جائے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ جیسے ادارے دنیا بھر میں موجود ہیں جو مسلمانوں کو کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے، مسلم دنیا میں انتشار پھیلانے کے لیے اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو باہمی تنازعات میں الجھاکر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ ان سازشوں اور مکاریوں کا توڑ اپنے مکمل اتحاد سے کرے، عالمی سطح پر اسرائیل کے حامیوں کو بھی کھل کر للکارے اور اسلامی دنیا میں ایسے اقدامات اور پالیسیاں بنائے جن کے ذریعے اسلام دشمن کارروائیوں کو فقط ناکامی ہی دیکھنی پڑے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسلمان ممالک اسرائیلیوں اور ان کے ہم خیالوں کی چالاکیوں کا شکار ہوتے رہیں گے کیوںکہ صہیونیوں کا تو کام ہی اسلام مخالف چالیں چلنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں