کاروباری بہتری یا معاشی ابتری
معاشی ترقی کی شرح نمو نصف رہ گئی۔ ملک کی تاریخ کے بلند ترین خسارے کا سامنا کرنا پڑا، مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوگیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں کاروبارکا اتارچڑھاؤایک معمول کا عمل ہے۔ اس اٹھا پٹخ کے بغیر اس نظام کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے، مگر اس عروج و زوال کی ہر صورت میں عوام کی قوت خرید میں بہتری کی بجائے ابتری آتی رہتی ہے۔
باکونن ، مارکس اور پیترکرو پوتکن نے عالمی سرمایہ داری کو ہر موقع پر بے نقاب کرتے ہوئے اسے انحطاط پذیری کی معیشت قرار دیا اور اس میں اگرکبھی بہتری آئی تو اسے وقتی قرار دیا۔ عوام کے مسائل کے حل کو ایک غیر طبقاتی نظام سے ہی مشروط کیا جب کہ سرمایہ داری کے داعی سطحی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کو اس نظام کی معاشی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ معاشی اعشاریے بہتری کی جانب ہیں، روپے کی قدر مستحکم ہو گئی، اسٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے، کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کی رینکنگ میں بہتری بڑی کامیابی ہے، اس پر انھوں نے متعلقہ اداروں کو مبارکباد بھی پیش کی۔ جب کہ دوسری جانب حکومت کے ہی درآمد شدہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے معاشی انحطاط پذیری کی نوید دی ہے۔ مالی سال 2019-2018ء ملک کا معاشی بحران کا سال رہا۔
معاشی ترقی کی شرح نمو نصف رہ گئی۔ ملک کی تاریخ کے بلند ترین خسارے کا سامنا کرنا پڑا، مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوگیا۔ زرعی اور صنعتی شعبے پر بھی جمود طاری رہا، عوام کو رواں مالی سال مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہوگا، افراط زر 12 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے، سرحد کی کشیدگی سے غذائی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومتی قرضوں اور واجبات میں اس سال کے دوران دس ہزار تین سو ارب روپے کا اضافہ ہوا ، مجموعی قرضوں اور واجبات کی مالیت جون دو ہزار انیس تک چالیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی، مستقبل قریب میں بیرونی قرضوں کی واپسی مزید مشکل ہو گی۔
مجموعی حکومتی قرضوں کا جی ڈی پی سے تناسب 84.8 فیصد کی سطح پر آ گیا۔ اسٹیٹ بینک نے تیس جون ختم ہونے والے مالی سال کا جو معاشی جائزہ پیش کیا ہے اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی سکڑ گئی اور مہنگائی بھی اپنے ہدف سے تجاوزکر گئی۔ حقیقی جی ڈی پی کی نموگزشتہ 9 برسوں کی پست ترین سطح پر آ گئی ہے۔ مالی سال 2019ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو کم ہو کر 3.3 فیصد رہ گئی جوکہ اس سے ایک برس قبل 5.5 فیصد تھی۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافے سے مزید مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
درحقیقت یہ معاشی بحران عالمی سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ خود امریکا، برطانیہ، ہندوستان، چین اور جاپان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ جس کا ردعمل کہیں در پردہ اور کہیں برملا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان، چلی، لبنان، سوڈان، الجزائر اور روس میں شدت سے نظر آ رہا ہے۔ عراق میں مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے خلاف پر تشدد مظاہرے جاری ہیں۔
گزشتہ ماہ میں 240 مظاہرین شہید ہوئے، بغداد میں کرفیو ہے۔ اس پر امن عوامی احتجاج کے خلاف فائرنگ سے سیکڑوں مظاہرین کی ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے چار قومی اسمبلی کے اراکین نے استعفیٰ دے دیا ہے جن میں دو کمیونسٹ پارٹی آف عراق کے اراکین بھی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کامریڈ رعد فہیمی اور حیفا الامین نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائی اور جس طرح انھیں دبایا جا رہا ہے اس کے رد عمل میں مستعفی ہو رہے ہیں۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے مظاہرین کے دباؤ میں آ کر ان کے مطالبے مانتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے مگر مظاہرین نے بدستور مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال تو انتہائی دگرگوں ہے۔ ابھی چند روز ہوئے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ایک روپیہ پینسٹھ پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ادھر تاجروں نے ملک گیر ہڑتال کی اور ڈاکٹرز کی ہڑتال بھی مسلسل جاری ہے۔ مہنگائی کے جن نے عوام کو قید کر رکھا ہے۔ عوام ہر روز جب بازار میں سودا سلف لینے جاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی اشیائے خور و نوش کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کبھی مارجرین، کبھی ٹماٹر، کبھی ادرک، کبھی دوا ، کبھی آٹا اور کبھی تیل کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
مارجرین پندرہ روپے والی ٹکیہ چالیس روپے کی ہو گئی ہے، ٹماٹر ایک سو ساٹھ روپے کلو ، ادرک چار سو روپے کلو، مٹر دو سو اسی روپے کلو، دوا کی قیمت تقریباً دگنا ہو گئی ہے۔ دوا کی قیمتوں میں اضافے کی ذمے دار حکومت، فیکٹری مالکان اور دکاندار سب شامل ہیں۔ اس کی کوئی روک تھام نہیں ہے۔ انڈوں کا ریٹ پولٹری ایسوسی ایشن جب جتنا چاہے بڑھا دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آج کل ایک سو اٹھارہ روپے درجن جا رہا ہے۔
کھلا ہوا تیل ایک سو نوے روپے کلو بک رہا ہے، آٹا بیس کلو والی بوری جو آٹھ سو روپے کی تھی اب گیارہ سو روپے فی بوری دستیاب ہے۔ جب کہ نوے فیصد مزدور کی تنخواہیں یا آمدنی دس ہزار سے پندرہ ہزار روپے تک ہے۔ جب کہ اس مہنگائی میں ایک مزدور کی تنخواہ کم از کم تیس ہزار روپے ہونی چاہیے۔ تیس ہزار تو درکنار حکومت کی جانب سے اعلان شدہ ساڑھے سترہ ہزار روپے بھی نہیں ملتے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مہنگائی پر اپنے سرفہرست مطالبات پیش نہیں کر رہی ہیں اور نہ یہ عوام سے وعدے کر رہی ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں آ گئے تو دال، چاول، آٹا، گھی، تیل، دودھ، چینی، گوشت یعنی اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ چہرے بدلنا چاہتے ہیں سماج کو نہیں حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔ ان کے امپائر کے اختلافات کٹھ پتلیوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے لیے کنٹینرز جاپان سے منگوائے گئے ہیں۔ ان کے واش رومز، جنریٹرز، ایئرکنڈیشن اور کمرے جدید طرز سے بنے ہوئے ہیں۔ ادھر پاکستان کے بے شمار لوگ جھگیوں ، فٹ پاتھوں ، جھاڑیوں ، دوسروں کے حجروں اور اوطاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ایک انقلابی چی گویرا تھے کہ وہ میڈیکل ایڈ باکس لیے ہوئے گوریلا جنگ آزادی کے ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ جب انھیں امریکی سی آئی اے اور اس کے آلہ کاروں نے گھیر لیا تو چی گویرا نے میڈیکل ایڈ باکس کو پھینک کر بندوق اٹھا لی اور لڑتے ہوئے بولیویا میں مارے گئے اور آج بھی کیوبا میں غیر طبقاتی نظام ہے جہاں چی گویرا نے گوریلا وار کے ذریعے کیوبا کے آمر حکمرانوں کو شکست دے کر سوشلسٹ کیوبا کی باگ ڈور ڈالی تھی۔ ہاں ایک دن ضرور آئے گا کہ پاکستان میں بھی ایسا امداد باہمی کا سماج قائم ہو گا ۔